پرانی معیشت نئے مسائل
شیئر کریں
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام حسین اور ان کے رفقا نے باطل کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے انکار کرکے کلمہ حق بلند کیا اور جرأت و استقامت کی وہ تاریخ رقم کی جس کی مثال ملنا نا ممکن ہے۔ محرم الحرام صبر اور استقامت کا درس دیتا ہے۔ باطل کے خلاف ڈٹ جانا شہدائے کربلا کا درس انقلاب ہے۔ آج بھی حالات ہمیں ڈٹ جانے کا درس دیتے ہیں۔ ملک میں معاشی،سماجی اور قانون کی ناانصافی کی وجہ سے غریب طبقہ روٹی سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ حضرت عمر فارو ق نے اپنے دور میںعد ل و انصا ف اور مساوات کو قائم کر کے بہتر ین خدمات سر انجام دیں۔ان کادور خلافت پوری دنیا کے حکمرانو ں کیلئے قا بل تقلید اور قابل عمل ہے۔ آ ج معا شرہ عد ل و انصا ف اور مساوات کی نعمت سے محرو م ہو چکا ہے جس معا شرے میں عدل و انصاف ختم ہو جائے، وہ معا شرہ تمام تر نعمتوں کے موجود جانوروں اور بھیڑیو ں کامعاشرہ ہی کہلاتا ہے، عدل و انصاف اورمساوات ہی انسانیت کو انسانیت آشنا بناتے ہیں۔ اگر عدل و انصاف کو اٹھا دیا جائے تو معا شرہ عذاب بن کررہ جا تا ہے اورانسانیت اپنے ہی کیے دھرے میں جھلس کررہ جا تی ہے۔
ہمارے حکمران زبانی جمع خر چ کے علاوہ کو ئی خدمات سرانجام نہیں دیتے۔ اگر سیا ستدان خدمت انسانیت میں مخلص ہیں انہیںحضر ت عمر فارو ق اعظم رضی اللہ عنہ سمیت دیگر خلفائے راشدین کی زند گیوں کامطالعہ کر کے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی صلاحیتو ں کو وقف کرنا ہوگالیکن بدقسمتی سے ہم باتیں تو ان کی کرتے ہیں لیکن حکم بیرونی آقائوں کا مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم قرضہ کی ایک قسط حاصل کرکے خوشیاں منارہے ہیں اگر دیکھا جائے تو ہم نے ملک کو گروی رکھ کر حکمرانوں کی عیاشیوں کے لیے پیسے حاصل کیے ہیں ۔بڑی جماعتوں کا آئی ایم ایف قرض معاہدے پر کاربند رہنا قومی اور حساس اداروں کو بیچنے کے مترادف ہے۔ واپڈا، ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ ، او جی ڈی سی ایل، پاور ہائوسز اور انٹرنیشنل ایئرپورٹس سمیت دیگر قومی اثاثوں کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنا ملک کے ساتھ کھلم کھلا مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ ان تحریری معاہدوں میں قومی اثاثوں کی نجکاری، ڈائون سائزنگ، رائٹ سائزنگ، غریب ملازمین کی تنخواہوں پر پہلے سے حاصل مراعات سے کٹوتی، پنشن کا خاتمہ ، پیٹرولیم مصنوعات،بجلی، گیس اور خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں50 فیصد سے زیادہ اضافہ،نجکاری کے نام پر لاکھوں برسرروزگار لوگوں کو روزگار سے محروم کرنے سمیت آئی ایم ایف قرض پروگرام میں دیگرسخت شرائط رکھنا 24کروڑ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ حکمرانوں کی غلط معاشی و مالیاتی پالیسیوں نے پہلے ہی ملک کو 129 ار ب ڈالرز سے زیادہ کا مقروض بنادیا ہے۔ گزشتہ 75 سالوں سے 5 فیصد مراعات یافتہ طبقہ بیورورکریٹس، سرمایہ دار، جاگیردار،صنعتکار، چوہدری، خان، سردار اور وڈیرے غریب عوام بالخصوص محنت کش طبقے کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ عوام ہر آنے والے دن ابتری کا شکار ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ عوام کے حقوق کیلئے لڑتے لڑتے دولت مند ہوگیا ہے، انہوں نے اتنا پیسہ جمع کرلیا ہے کہ ان کے پاس پاکستان میں پیسہ رکھنے کی جگہ ہی نہیں ہے۔ اس لیے وہ اپنا مال و دولت بیرونی ملک بینکوں میں منتقل کرتے ہیں۔ کاش ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے عہدیدار آئی ایم ایف کو تحریری معاہدے میں یقین دہانی کرانے کے بجائے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس پاکستان لے کر آتے ان اربوں ڈالرز سے نہ صرف آئی ایم ایف کا قرضہ اتر سکتا ہے بلکہ اس دولت کو ملک کی تعمیر و ترقی پر لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ملک و قوم کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کرایا جاسکتا ہے، لیکن حکمرانوں میں سے کوئی بھی قربانی دینے کو تیار نہیں، الٹا عوام کو قربانی کا درس دیا جارہا ہے۔ اس مشکل وقت میں بڑی سیاسی جماعتوں کے دولتمند عہدیداران قربانی دے کر ملک و قوم پر رحم کریں کیونکہ حکمرانوںنے آئی ایم ایف کی شرائط پر ٹیکسز عائد کر کے عوام کا خون تک نچوڑ لیا ہے۔ ملک وقوم سے محبت کرنے والے سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام اور غلامانہ پالیسیاں ملک و قوم کیلئے زہر قاتل ہیں جو ملکی سا لمیت اور معیشت کو زمین بوس کر دیں گی کیونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی جن شرائط پر عمل کرنا ہے وہ بہت سخت ہیں اور پاکستانی معیشت کو نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا اور غریب کا مزید سوا ستیا ناس ہو جائے گا ۔ہمارے دوست ملکوں نے بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ اپنے ملک کے اندر کے حالات ٹھیک کرکے سیاسی اور معاشی استحکام لائیں جبکہ حکمرانوں کی پالیسیوں سے غریب کا کوئی والی وارث نہیں رہا۔کاروباری حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں نہ کوئی فیکٹری لگا رہا ہے نہ کوئی سرمایہ کار آ رہاہے۔24کروڑ لوگوں میں سے 10 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ 10 لاکھ ڈاکٹر ز، انجینئر زپروفیسر زملک چھوڑ گئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو آئی ایم ایف نے جو شرائط جاری کر دی ہیں، وہ حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ بجلی اورگیس کی قیمت بڑھا کر چینی آٹا مہنگا کر کے حکمران عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتے اور یہ کس منہ سے عوام میں ووٹ مانگنے جائیں گے۔ اسی لیے تو الیکشن کے حوالے سے کبھی 90دن کی اور کبھی60دن کی باتیں ہو رہی ہیں ابھی تک نگران وزیر اعظم کے نام پر بھی اتفاق نہیں ہوسکا۔ حکومت نے اپنے منی لانڈرنگ اور کرپشن کے کیس ختم کرا لیے ہیں لیکن آج عوام کا کیس لڑنے والا کوئی نہیں ہے، ہر کوئی اپنے سیاسی فائدے کا سوچ رہا ہے۔ ملک و قوم اور غریب عوام کے فائدے کی کوئی بات نہیں ہو رہی۔
ان مشکل ترین حالات میں حکومت کو چاہیے کہ ملک کے محب وطن تاجروں، معیشت ومالیات کے ماہرین اور دانشوروں کے ساتھ بیٹھ کر ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کی غلامی، سود وقرضوں کی معیشت سے نجات دلانے کیلئے لانگ ٹرم پالیسیاں بنائی جائیں جبکہ زراعت ،تعمیرات، بجلی، گیس اور پیٹرول پر ٹیکس لگانے سے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں مزید ہوشربا اضافہ اور تعمیرات کے شعبہ کی حوصلہ شکنی سے بیروزگاری میں اضافہ ہوگا اس لیے آئی ایم ایف کے معاہدے اورڈکٹیشن سے ملک کی معاشی تباہی وبربادی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا مہنگائی کا بم گراکر عوام کا خون چوسنے کیلئے مجبور کرنے والا آئی ایم ایف حکمرانوں کو شاہانہ اخراجات ختم اور سادگی اختیار کرنے کا پابند کیوں نہیں کرتا؟ آئی ایم ایف نے عام لوگوں کے سامنے بھی بیشتر شرائط بیان کردی ہیں جن کا براہِ راست اثر عوام کی زندگی پر پڑے گاآخر میں پنجاب حکومت نے میڈیا کے حوالہ سے ایک اچھا کام کیا ہے کہ راولپنڈی میں انفارمیشن کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھ دیا یہ انفارمیشن کمپلیکس راولپنڈی ڈی جی پی آر کا پہلا فیلڈ آفس بھی ہوگا جس کی اپنی سٹیٹ آف دی آرٹ عمارت ہوگی اور میڈیا کی تمام جدید سہولیات میسر ہونگی کیونکہ ڈی جی پی آر مستند اطلاعات کی ترسیل کا ذریعہ ہے اور اسکے فیلڈ آفیسز کو جدید سہولیات سے لیس کر کے عوام اور حکومت کے درمیان تعلق کومزید مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ اس کمپلیکس میں ایک وسیع پریس کانفرنس ہال کے علاوہ سوشل میڈیا سٹوڈیو، نیوز روم اور الیکٹرانک میڈیا مانیٹرنگ کا سسٹم بھی مہیا کیا جائے گاجبکہ اسکے کیفے ٹیریا کو نیشنل پریس کلب کے کیفے ٹیریا کے طرز پر چلایا جائے جہاں سرکاری افسران و ملازمین اور صحافیوں کو رعایتی نرخوں پر اعلیٰ کوالٹی کا کھانا فراہم کیا جائے۔
٭٭٭