بیانیہ اور فیصلے
شیئر کریں
عام طوپر خیال کیا جاتا رہا کہ عمران خان نے2018کے انتخابات مقتدرہ کے تعاون سے جیتے اِس خیال کی تائید پنجاب کی اِکا دُکا نشستوں پرہونے والے ضمنی انتخابات میں ن لیگی امیدواروں کی کامیابی اور حکومت میں ہونے کے باوجودپی ٹی آئی کی اپنی خالی ہونے والی نشستیں ہارنے سے بھی ہوتی رہی جس سے یہ تاثر راسخ ہوا کہ پورے ملک کی اگر نہیں تو پنجاب کی حد تک آج بھی ن لیگ مقبول ترین جماعت ہے لیکن سترہ جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں بلے کی فقید المثال کامیابی سے خیال اور تاثر دھندلاگیاہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پنجاب کروٹ بدلنے لگاہے کیونکہ صرف شہری نہیں دیہی علاقوں میں بھی پی ٹی آئی متبادل کے طورپرسامنے آرہی ہے اسی بناپراپوزیشن میں ہوکربھی حکمران ن لیگ کو پچھاڑنے لگی ہے آزادحیثیت میں منحرفین کی پندرہ نشستوں پرپی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہو گئے یہ کافی حیران کُن بات ہے کیونکہ جو جماعت حکومت میں ہوتے ہوئے ضمنی انتخابات ہارتی رہی وہ اپوزیشن میںآکر کیسے عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی نکتہ دان اِس سوال کا جواب عمران خان کے بیانیے کی کامیابی اورحکومت کے غلط فیصلے قرار دیتے ہیں۔
ن لیگ اور پی پی ایک دوسرے کی نظریاتی مخالف ہیں یہ اختلاف ووٹر وں اور کارکنوں میں اب بھی موجودہے ہے نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کی آمریت سے نجات کے لیے میثاقِ جمہوریت کیااور مل کر چلنے کے عہدو پیمان کیے لیکن رہنمائوں کی قربت کے اثرات نچلی سطح تک نہ پہنچ سکے اسی بنا پر کئی دہائیوں سے برسرِ پیکار کارکنوں میں ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکی 2008 کے عام انتخابات کے بعد دونوں جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی جو بمشکل چند ماہ ہی چل سکی جلد ہی ن لیگ الگ ہو کر اپوزیشن نشستوں پر بیٹھ گئی مگراتحاد سے پنجاب میں پی پی کے کارکن اتحاد سے اِتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ جماعت کے لیے کام کرنے کی بجائے یا توسیاست سے کنارہ کش ہوکرگھر بیٹھ گئے یا جماعت تبدیل کر لی جماعت بدلنے والوں نے شمولیت کے لیے پی ٹی آئی کو ترجیح دی پی پی نے ن لیگ کے بعد ق لیگ کو ساتھ ملا لیا لیکن پی پی اور ق لیگ کے اتحاد سے بھی کارکنوں میں بددلی پھیلی 2013کے عام انتخابات میں مزکورہ دونوں جاعتیں بددلی کی بناپرہی پنجاب میں بُری طرح شکست سے دوچار ہوئیں ن لیگ نے تو اپنے کارکنوں کو مطمئن رکھنے کے لیے بروقت حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اب ن لیگ اور پی پی نے ایک بارپھر ایک دوسرے کا دامن تھام کر اتحادی حکومت بنا لی ہے جس سے اُن کے کارکن اضطراب کا شکار ہیں مزیدیہ کہ عمران خان کا یہ بیانیہ ،لوٹ ماربچانے کے لیے یہ اکٹھے ہو جائیں گے اور حالیہ تبدیلی کے تانے بانے بیرونِ ملک ملتے ہیں نے دونوں جماعتوں کو مقابلے میں دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے اب بھی اگر فکری سوچ کے متضاد پالیسیوں پرنظرثانی نہیں کی جاتی اوربہتر فیصلے نہیں کیے جاتے توآئندہ عام انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر نے میں ناکامی کا سامناہوسکتاہے وجہ مولانا فضل الرحمٰن کی طرح جنت کے خواب دکھانے والامزہبی چورن توہے نہیں اسی لیے بیانیہ اپناتے اور فیصلے کرتے ہوئے فکری حدود سے باہر جماعتوں کو گلے لگاتے ہوئے مضمرات کا خیال رکھیں۔
اتحادی حکومت سے توقع تھی کہ وہ تجربہ کارہونے کی بنا پر ملک کو معاشی گرداب سے نکال لے گی بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بلکہ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے تیل اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کو بظاہر حکمران مشکل فیصلے قرار دیتے ہیں یہ بیانیہ بنانے میں میڈیا بھی ہمنواہے لیکن عام آدمی اِس بیانیے کو قبول نہیں کررہا بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی حکمرانوں کی حب الوطنی کو بھی شک و شُبے کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے مزیدیہ کہ پی پی سے اتحادکی وجہ سے ن لیگ نے چند ماہ کا اقتدارلیکراِس کے عوض کارکنوں کو بدظن کر لیا ہے بظاہر شہازشریف کی افہا م و تفہیم کی پالیسی سے اقتدار کی منزل آسان ہوئی ہے لیکن پی پی کے ساتھ شراکتِ اقتدار نے پنجاب کی مقبول جماعت کو ایسی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے جس سے عوامی اعتمادمجروح ہواہے کیونکہ نظریاتی مخالف کارکن اب بھی ایک دوسرے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے پر تیار نہیں موجودہ سیٹ اَپ میں آصف زرداری اور اُن کی جماعت یی پی محفوظ ہیںاورتمام غلط فیصلوں کانقصان شہازشریف اور ان کی جماعت کوہورہا ہے کیونکہ پی پی کے پاس ایسی وزارتیں ہیںجن کا عام آدمی سے کم واسطہ رہتا ہے مہنگائی ،بے روزگاری اور ڈالر کی بڑھتی قیمت کا زمہ دار اکیلے ن لیگ سمجھا جارہا ہے اسی لیے سیاست پر نظررکھنے والے کہتے ہیں کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو پی پی نے تو خود کو سندھ تک محدود کر لیا مگر ن لیگ کوسوچنا چاہیے کہ پنجاب سے بے دخل ہونے کے بعد کہاں سے کامیاب ہو سکتی ہے؟
ملک کے معاشی حالات خراب ہیں اِس بات سے کوئی لاعلم نہیں انھی حالات کو بنیاد بنا کر عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کی گئی لیکن حکومت کی تبدیلی کے باوجود حالات بہتر نہیں ہوئے ہیںزرِ مبادلہ کے ذخائرکم ہونے سے روپیہ بے وقعت ہوتا جارہا ہے لیکن حکومت کو اِس کا احساس تک نہیں حکومتی حلقوں کا بیانیہ ہے کہ ضمنی الیکشن میں ن لیگ سے ہاتھ ہو گیاہے اِس بیانیے میں کوئی صداقت نہیں جبکہ عمران خان کے پاس بیرونی مداخلت کے بیانیے کے ساتھ ریاستِ مدینہ کے نعروں کی بنا پر مزہبی ووٹ بینک ہے جسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا تڑکہ لگا کر ووٹر زکے لیے زیادہ مزیدار بنادیا گیا ہے یہ بیانیہ ہی ن لیگ کو بہا کر لے گیا اِتنے جاندار بیانیے کا جواب دینے کی بجائے ن لیگ نے عطا تارڑ ،رانا ثنااللہ اور مریم اورنگزیب کی طرف سے دھمکیاں دلانے پر توجہ مرکوز رکھی حالانکہ ووٹ کو عزت دو اور سویلین بالادستی جیسے پُر کشش نعرے اس کے پاس تھے جوحکومت میں ہونے کی بنا پراب کارآمدنہ رہے مزید یہ کہ اتحادی حکومت نے طاقتور اپوزیشن رہنما کے کیس ختم کرانے جیسے خدشات بھی درست ثابت کردیے نہ صرف نیب قوانین میں ترمیم لاکر اِس اِدارے کو بے اختیار بنایابلکہ سوشل میڈیاپر متحرک تارکینِ وطن کوفیصلوں سے ناراض کر دیا نیز راجہ ریاض کی صورت میں کٹھ پتلی اپوزیشن لیڈر بنا کر اسمبلی کی ساکھ بھی ختم کر لی ۔
نیب ترامیم کے باوجود پی پی اور ن لیگ کے ادوار میں ڈی جی آئی بی رہنے والے آفتاب سلطان کو چیئرمین نیب بنانا ایسی کالک ہے جو شایدہی مٹ سکے آفتاب سلطان پر نہ صرف سارک کانفرنس کے دوران تہتر گاڑیوں کے مبینہ فراڈ کا الزام ہے بلکہ وہ 1952.74 ملین روپے کے ریفرنس میں نواز شریف کے ساتھ شریکِ ملزم ہیں اُن پر 2014کے دھرنوں میں کئی فوجی آفیسران کو زمہ دار ٹھہراکر بلیک میل کرنے کاالزام ہے چُپ سادھنے کے عوض کچھ وصولیاں کیں یا نہیںجیسی غیر مصدقہ افواہیں بھی ہیںداغدار کردار کے مالک کو نیب کی سربراہی دینے سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوا جمہوری اور اصولی بات تو یہ ہے کہ پنجاب میں اکثریت کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے ضمنی انتخاب کے بعد فریقین نے چنددن اچھا رویہ اپنایا خود مریم نواز نے شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے آئندہ خامیاں دورکرنے کا عزم ظاہر کیا لیکن چند دنوں بعد ہی اب یہ جذبہ مفقود ہے وفاقی حکومت ہرصورت پنجاب میں حمزہ شہبازکی حکومت بنا نے کے لیے ممبرانِ اسمبلی کی بولیاں لگا رہی ہیں حالانکہ ایسا ہونے کابظاہرکوئی امکان نہیںکیونکہ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے امیدوارچوہدری پرویز الٰہی کی واضح اکثریت حاصل ہے جس کی بناپر با آسانی منتخب ہو سکتے ہیں لیکن آصف زرداری اور ن لیگی
زعما سیاسی بے سکونی اورتلخی بڑھارہے ہیں اِس تلخی اور درشتی سے محاذآرائی بڑھ سکتی ہے جس سے قوی امکان ہے کہ عام انتخابات کے لیے مستقبل میں کے پی کے اورپنجاب مل کر لانگ مارچ میں شرکت کریں اگر ایسا ہوتا ہے تو حکمران اتحاد سوچے کہ وہ کہاں ہوگا؟ افہام وتفہیم کی سیاست ہی بہترہے بیانیے کے مطابق اب بھی اگر درست فیصلے نہیں کیے جاتے تو حکمران اتحاد کامزید سیاسی نقصان ہوسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔