ایسے ملک میں رہتے ہیں!
شیئر کریں
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے یونان کے سمندر میں پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں سرگرم ہیں ، تب سے ایف آئی اے بھی سخت تنقید کی زد میں ہے ۔ویسے تو ہمارے سب ہی اداروں کی حالات خراب ہے اور پولیس نے تو ات ہی مچا رکھی ہے جن کی کرم نوازیوں سے پورے ملک میں منشیات یوں پی جارہی ہیں جیسے ثواب کا کام ہوہمارے تعلیمی اداروں میں بھی یہ نشہ ان کی مہربانی سے پہنچ چکا ہے۔ ہمارا کوئی گلی محلہ اور شہر منشیات سے پاک نہیں ہم مثال کے طور پر بھی کسی شہر کو پیش نہیں کرسکتے کہ یہاں کوئی نشہ نہیں ہوتا۔ ابھی چند دن قبل کسی نے اطلاع دی کہ ساہیوال کے آخری تھانہ کسووال کے ایس ایچ او نے منشیات پکڑی اصل بندے سے نذرانہ لیکر پکڑی جانے والی چرس سے بھی آدھی یعنی پونے دو من کا مقدمہ درج کرلیا ۔اب اس بارے میں تحقیقات ہونی چاہیے کہ کیا واقعی اتنی ہی چرس پکڑی گئی جتنی پرچہ دیتے وقت اندراج کی گئی یا اس سے بھی ڈبل پکڑی گئی۔ خیر اس بارے میں تفصیلات بعد میں کبھی لکھوں گا۔ ابھی تو ایف آئی کا ذکر چل رہا ہے مگر بات پولیس کی نکل آئی تو اپنے دوست اور مثالی پولیس افسر سابق آئی جی جناب طاہر انوار پاشا صاحب کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں، ان جیسا سچا کھرا اور پیارا انسان بہت کم دیکھا ہے جوپولیس میں رہتے ہوئے بھی پولیس والے نہیں لگتے تھے ۔اتنے اچھے لکھاری ہیں کہ لفظوں کے موتی پروتے رہتے ہیں۔ ایف آئی اے کی تفصیل میںجانے سے پہلے کچھ انکے خیالات شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ غلط لوگ ہی ہمیشہ درست سبق دیتے ہیں پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں لکھتے ہیںکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں جہاں جوتے خریدنے کے بھی پیسے نہ ہوں تو کوئی ہاشم خان اسکوائش کے میدان میں جھنڈا گاڑ دیتا ہے اور پھر اگلے 52برس تک اسکا خاندان یہ جھنڈا نہ گرنے دے جہاں ایم ایم عالم نامی ایک پائلٹ ایک پرانے فائٹر جہاز سے صرف ایک منٹ میں دشمن کے 5طیارے گراکر دنیا کی ہوائی جنگ میں نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ بنا ڈالے۔ جہاں اوپر سے نیچے تک کچھ لیے دیے بغیر سرمایہ کاری کا تصورہی محال ہووہاں کا کوئی اسد جمال فوربس میگزین کی ٹاپ100گلوبل وینچر کیپٹلسٹ لسٹ میں 8ویں نمبر پر آجائے۔ جہاں 9سالہ ارفہ کریم دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ کمپیوٹر انجینئر کے طور پر ابھرآئے۔ جہاں ولید امجد ملک اقوام متحدہ کے تحت انسانی حقوق پر مضمون نگاری کے عالمی مقابلہ میں اول آجائے ۔جہاں کے پہاڑی لوگ غیر ملکی کوہ پیمائوں کے قلی بن کر گھر کا چولھا جلنے پر خوش ہوجائیں اور پھر ان میں سے کوئی نذیر صابر اور پھر کوئی حسن سدپارہ مائونٹ ایورسٹ سر کرلے۔ جہاں80فیصد خواتین محرم کی اجازت کے بغیر گھر سے قدم نہ نکال سکیں اور پھر کوئی نمرہ سلیم انٹارکیٹکا پر قدم رکھ کر سبز ہالالی پرچم چوم لے جہاں نابینائوں کے لیے نہ تعلیم کی ضمانت ہو اور نہ ہی روزگار کی وہاں کے نابینا ئوں کی کرکٹ ٹیم ایک نہیں بلکہ 2ورلڈ کپ جیت جائے جہاں ملک کے 48فیصد بچے پہلی جماعت بھی مکمل کیے بغیرا سکول سے ڈراپ ہو جائیں اور پھر کوئی علی معین نوازش ایک ہی برس میں 21مضامین میں اے لیول لینے میں عالمی ریکارڈ قائم کرلے ۔جہاں جمنازیم جانے کے لیے بس کا کرایہ بھی نہ ہو اور نسیم حیدر ایشیا کی تیز ترین لڑکی قرار پاجائے ۔جہاں انٹرنیشنل کرکٹ پر پابندی ہو اور وہ ملک ورلڈ چیمپئن بن جائے جہاں عورتوں کا باہر نکلنا مشکل ہو وہاں کوئی شکریہ خانم جہاز اڑانا شروع کردے ،وہ بھی 1959میں ۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جسے دنیا کی کئی سپر طاقتیں ختم کرنے کے منصوبے بنا رہی ہوں اور وہ دنیا کی پہلی اسلامک نیو کلیئر پاور بن جائے ۔جہاں ایسے حالات میں بھی لوگ ایسے کارنامے سر انجام دے رہے ہوںکہ سر فخر سے بلند ہو جائے اگر حالات ساز گار ہوجائیں تو بلاشبہ پاکستان دنیا کا بہترین ملک بن جائیگا اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنا چاند پر قدم رکھنے جیسامحسوس کرکے فخر محسوس کرینگے مگر ہمیں تو ہمارے اپنوں نے ہی لوٹ لیا جو ہمیں اٹھنے ہی نہیں دے رہے۔
ہمارے اداروں میںبیٹھے ہوئے کرپٹ لوگوں نے قابل لوگوں کو پاگل بنا دیااور حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں وہ پاکستان سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ یونان کے سمندر میں پیش آنے والا دلخراش واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے اور اس میں بھی ہماری ایجنسی ایف آئی اے کا ہی کمال ہے جن کا کام ایسے لوگوں کو پکڑنا ہے مگر جو انکے ساتھ مک مکا میں ہوتا ہے وہ آزادی سے ہر کام کررہا ہے اور جو قانونی طریقہ اختیار کرتے ہیں انکے راستے میں رکاوٹوں کے انبار لگا دیے جاتے ہیں۔ ایف آئی کے کام کے حوالے سے بات کریں تو یہ جرائم کی تحقیقات کے لیے قومی سطح پر پاکستان کی سب سے بڑی ایجنسی ہے ۔ ان میں بین الاقوامی منظم جرائم، افراد کی اسمگلنگ، تارکین وطن کی اسمگلنگ، سائبر کرائمز، منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت، دانشورانہ املاک کے حقوق اور الیکٹرانک اور جسمانی بینک فراڈ شامل ہیں۔ یہ ایک وفاقی انسداد بدعنوانی کا بھی ادارہ ہے جو غبن اور دھوکہ دہی میں ملوث وفاقی ملازمین کے بارے میں بھی تحقیقات کرتا ہے۔ وفاقی حکومت کے محکمے کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے لیے کیس ایف آئی اے کو بھیجتے ہیں۔ پاکستان کے 15 شہروں میں سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹرز قائم ہیں، جبکہ اسلام آباد، پشاور، لاہور، فیصل آباد، کراچی، حیدرآباداور کوئٹہ سمیت آٹھ علاقائی زون ہیں جن میں سے ہر ایک کا سربراہ ایک ڈائریکٹر ہوتا ہے۔ سائبر کرائم ونگ پورے پاکستان پر محیط ہے شمال اور جنوب کے لیے سائبر کرائم ونگ کے دو ڈائریکٹرز (آپریشن) ہیں جو ملک کے نصف حصے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ امیگریشن اور بارڈر کنٹرول ایف آئی اے امیگریشن ونگ کے زیر انتظام ہے۔ انہی کا نظام پاسپورٹ اور ویزا سمیت ہوائی اڈوں اور سرحدی چیک پوسٹوں پر نافذ ہے۔ بین الاقوامی مسافروں کے ڈیٹا بیس کا انتظام IBMS کے ذریعے چیک ہوتا ہے۔ اسٹاپ اینڈ واچ لسٹیں بشمول ای سی ایل (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) اسی کے ذریعے نافذ کی جاتی ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے انٹرپول اسلام آباد کے نیشنل سینٹرل بیورو کے سربراہ بھی ہیں۔ پاکستان کا انٹرپول ہیڈکوارٹر ایف آئی اے کے احاطے میں واقع ہے۔ NCB اسلام آباد کی درخواست پر انٹرپول ہیڈکوارٹر کی جانب سے ریڈ نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے وفاقی سیکریٹری داخلہ کے ماتحت کام کرتی ہے۔ یہ وہی ایجنسی ہے جو 942 1میں برطانوی حکومت نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی راج میں خصوصی پولیس اسٹیبلشمنٹ (SPE) قائم کی، بعد میں پولیس اسٹیبلشمنٹ کو انڈین سول سروس (ICS) میں بدعنوانی کی تحقیقات کرنے کا کام سونپا گیا تھا جو اس وقت کے برطانوی راج کے سپلائی اور پروکیورمنٹ ڈیپارٹمنٹ تک محدود تھی۔ 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد SPE کو تقسیم کر دیا گیا۔ بھارت نے اسکا نام CBI رکھ دیا جبکہ پاکستان اسے 1947 کے بعد بھی پاکستان اسپیشل پولیس اسٹیبلشمنٹ (PSPE) کے طور پر برقرار رکھا اور پھرآج سے تقریبا48سال قبل 13 جنوری 1975 کو اسے ایف آئی اے کا نام دیدیا گیا۔
ایف آئی اے کے نام بہت سے کارنامے بھی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ انسانی اسمگلنگ سمیت اور بہت سے غیر قانونی کام ہیں جنہیں روکنے میںناکام رہی بلکہ انتقامی کاروائیوں میں بھی یہ کسی دوسرے ادارے سے کم نہیں ہے۔ اس ادارے کا سربراہ ایک ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)ہوتا ہے جسے وفاقی حکومت مقرر کرتی ہے جو بی پی ایس 21 یا22 کا ایک بہت ہی سینئر پولیس افسر ہوتا ہے۔ موجودہ ڈائریکٹر جنرل محسن بٹ 22 جولائی 2022 سے ڈی جی ہیں۔ آخر میں صرف اتنی سی درخواست کہ ہم ایسے ملک میںرہتے ہیں جہاں ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ وسائل کی۔ کمی ہے تو صرف آپ سب کے خلوص کی اور پیار کی پاکستانیوں سے پیار کریں وہ آپ کو اس سے بڑھ کر پیاردینگے ۔