خلیج کا تیل کسی وقت بھی آگ پکڑ سکتا ہے
شیئر کریں
اک بے بسی کا نظارہ ہے اس طرح کہ مشرق وسطی میں تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرانے لگی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب مغرب نے مشرق وسطی کا پہلا نقشہ ترتیب دیا تھا تو اس سے پہلے عربوں کو ترکوں سے لڑایا گیا تھا اور اب کی بارپہلے عربوں اور ایران کے درمیان خطے کی بلادستی کی کشمکش شروع کروائی گئی جس کی لپیٹ میں پہلے عراق، پھر شام اور یمن اور بحرین آئے یوں عالم عرب کا نصف سے زائد حصہ شعلوں کی نذر ہوگیا اور پھر سعودی عرب اور قطر کا تنازع کھڑا ہوگیا جس نے عربوں سمیت باقی اسلامی دنیا کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت مزید خراب ہوتی جارہی ہے جب افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔
عالم عرب میں جس وقت عرب اسپرنگ کا آغاز ہوا اور تیونس کے بعد باقی عرب ملک بھی اس کی لپیٹ میں آنے لگے تو امریکا کی سرکردگی میں مغرب نے فیصلہ کیا تھا کہ اس عوامی انتفاضہ کے آخری مرحلے میں اسے اپنے صہیونی دجالی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گاکیونکہ عوامی بغاوت کے نتیجے میں جن قوتوں نے عالم عرب میں اقتدار تک پہنچنا تھا وہ تمام کی تمام اسلامی تحریکوں سے وابستہ رہی تھیں اور اس جانب اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ستر کی دہائی کے بعد اسلامی سیاسی تحریکیوں کے مقابل جو لیبرل سیاسی تحریکیں تھیں وہ وقتا فوقتا دم توڑتی چلی گئیں تھیںتمام شمالی افریقہ سے لیکر مشرق وسطی تک کہیں بھی کوئی لیبرل سیاسی تحریک پنپ نہ سکی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ مصر، تیونس، لیبیا، شام اور یمن تک میں فوجی آمر تھے جنہوں نے اسلامی تحریکیوں کو چار دہائیوں تک قوت سے دبایا اس کام کے لئے ان کے ملکوں کی فوجی قوت ان کے ساتھ تھی جبکہ عوامی سطح پر کسی لیبرل سیاسی جماعت کو اس ماحول میں پنپنے کا موقع ہی نہ مل سکاکیونکہ یہی فوجی آمر اپنے مسلط کردہ نظام کو لیبرل سیاسی نظام کہتے تھے ۔ مشرق وسطی کے باقی ملکوں پر بادشاہتیں تھیں اس لئے وہاں اس قسم کے افکار کا پروان چڑھنا ناممکنات میں سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی آمریت والے عرب ملکوں میں اگر کسی نے اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا تو وہ اسلامی سیاسی تحریکیں تھیں جو کسی نہ کسی طرح اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے تھیں۔اس لئے مغرب کو نظر آرہا تھا کہ جس وقت عرب اسپرنگ کے ذریعے عرب ملکوں کے فوجی آمروں کا تختہ الٹا جائے گا تو وہاں جمہوریت اور عام انتخابات کے ذریعے بھی حکومت سازی ہوئی تو اسلامی سیاسی قوتیں ہی اس خلا کو پر کریں گی یہی وجہ ہے کہ تیونس کے واقعے کے بعد مصر میں پھیلنے والی سیاسی کشمکش کو امریکا سمیت مغرب کے کسی ملک نے روکنے کی کوشش نہ کی۔ اس وقت مغرب کے ’’اے پلان‘‘ کے مطابق پہلے یہاں اسلامی سیاسی قوتوں کو برسراقتدار آنے دیا جائے گا اس کے بعد دنیا بھر میں دجالی صہیونی میڈیا کے ذریعہ اسلامی انتہا پسندی کا خوف پیدا کیا جائے گا جس کے تناظر میں دنیا کو اس بات پر قائل کیا جائے گا کہ اگر اس بڑھتی ہوئی اسلامی انتہا پسندی کو نہ روکا گیا توشمالی افریقہ سے لیکر شام تک برسراقتداراسلامی قوتیں اسرائیل کے وجود کو ختم کردیں گی اس کے بعد مغرب میں قیام پذیر لاکھوں مسلمانوں کو مغربی نظام کے خلاف کھڑا کردیا جائے گا اس لئے اسرائیل کو اپنے دفاع کے حق کے طور پر ان کا قلع قمع کرنے کا پورا حق ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تق یقینا امریکا سمیت پورا مغرب یعنی نیٹو مشرق وسطی کی اینٹ سے اینٹ بجاکر خطے کے امور براہ راست اسرائیل کے ہاتھ میں دے دیتا لیکن یہ پلان شام پر آکر ناکام ہوگیا جس وقت روس نے آگے بڑھ کر اپنی فوجیں شام میں داخل کردیںاور مسئلہ الجھ گیا۔ کیونکہ تاحال امریکا اور اسرائیل روس سے براہ راست ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔اب یہاں سے پراکسی وار کا آغاز ہوتا ہے۔
اس تمام مرحلے یعنی پراکسی وار کے شعبے میں عالم عرب تقریبا نہتا تھا کیونکہ عربوں کی پراکسی قوتوں کا امریکا سمیت مغرب کو سوویت یونین کے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے تجربہ تھا کیونکہ سوویت یونین کی باقاعدہ فوج کے سامنے افغان مجاہدین کے علاوہ عربوں کی پراکسی قوتوں کا لڑایا گیا تھاامریکا اور مغرب اس بات سے واقف تھے کہ یہ پراکسی قوتیں اگر سوویت یونین کوافغانستان میں شکست سے دوچار کرسکتی ہیںتو آنے والے دور میں یہ امریکا اور یورپ کو بھی علاقے میں قدم نہیں جمانے دیں گی اس لئے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کروا کر پہلے عرب حکومتوں سے اپنے ہی پراکسی ہاتھ تڑوا دیے گئے۔ اس سارے دورانیے میں فائدہ کس کا ہوا ؟ امریکا اور اسرائیل کا۔۔۔
اب کھیل کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے یعنی ایران اور اس کی پراکسی قوتوں کو خطے میں کھل کر کھیلنے کا موقع مہیا کرناجن کی بنا پر شام سے لیکر یمن تک جنگ کی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ قوتیں جن کے ہاتھوں میں امریکا سے لیکر یورپ تک کا حقیقی اقتدار ہے، انہوں نے اوباما کے مہرے کو آگے کرکے ایران سے معاہدے کی داغ بیل ڈالی جس نے ایرانی انتظامیہ کو اس اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ امریکا جیسی قوت بھی اس کے سامنے سرنگوں ہوگئی ہے اور اس کی قوت کو خطے میں تسلیم کرلیا گیا ہے، لیکن یہ ایک سراب تھا جو اوباما انتظامیہ کے ساتھ ہی ہوا میں تحلیل ہوگیا،لیکن اس وقت تک ایران کی پراکسی قوتیں لبنان کے بعدعراق، شام اور یمن تک پھیل چکی تھیں۔ جس کا مغرب کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ تمام عالم عرب نے ایران کو اسرائیل سے زیادہ اپنے وجود کے لئے خطرہ تصور کرنا شروع کردیا۔دوسری جانب ان مہنگی ترین پراکسی جنگوں نے ایرانی اقتصادیات کو نچوڑ کر رکھ دیاجس کی وجہ سے عوام میں بے چینی کے آثار نمودار ہونے لگے۔ یہی امریکا اور اسرائیل کی بھی منشا ہے جسے انہوں نے آنے والے وقت میں استعمال کرنا ہے۔
مصر میں حسنی مبارک کی تیس سالہ ’’خدمات‘‘ کو نظرانداز کرکے مغرب نے مصری کی سیاسی صورتحال کو مخالف سیاسی قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا، یقینی بات تھی کہ اس صورتحال کے نتیجے میںانتخابات کے ذریعے اخوان المسلمون کے پاس ہی اقتدار جانا تھا ۔ اس مرحلے پر مصر کا اقتدار ہاتھ میں لینا مصری اخوانیوں کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ انہوں نے بعد میں بھگتا۔ اخوان المسلمون سے وابستہ صدر مرسی کا اقتدار میں آنا باقی عرب ملکوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے کافی تھا۔ایک بات یاد رہے کہ تمام عالم میں مصر کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی یورپ میں فرانس کی ۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر فرانس کو چھینک آجائے تو تمام یورپ کو زکام ہوجاتا ہے یہی صورتحال مصر کی مشرق وسطی میں ہے ۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میںاسلامی تحریکیوں کا مرکز بھی مصر ہی کہلایا جاتا ہے۔ باقی عالم عرب کی جتنی بھی اسلامی سیاسی تحریکیں ہے وہ یا تو اخوان المسلمون کی شاخیں ہیں یا اسی کے افکار کے بطن سے سے انہوں نے جنم لیا ہے۔اس لئے یہ ضروری تھا کہ اسلامی سیاسی تحریکوں کی کمر توڑنے کے لئے مصر کے اخوان کو نشان عبرت بنایا جائے۔کیونکہ مصری اخوان مقبوضہ فلسطین کی اسلامی تحریک حماس کے لئے باعث تقویت تھے اور اب تو قاہرہ میں اخوانیوں کا اقتدار تھا اس لئے اسے اسرائیل کے وجود کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دینے کے بعد اور ایران کے ساتھ راہ رسم بڑھانے کا الزام عائد کرکے مصری فوجی ڈکٹیٹر عبدالفتح السیسی کو سازباز کے ذریعے اخوانیوں کے اقتدار پر چڑھا دوڑیا۔ یوں وہ کام جو تیس برس تک حسنی مبارک نہ کرسکا سیسی نے کردکھایا ۔دوسری جانب خلیجی عرب ریاستوں میں یہ خوف پیدا کیا گیا کہ اخوانی اور ان کی ہم فکر سیاسی اسلامی تحریکیںاب یہاں اپنے پیر مضبوط کرکے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی انقلابی سوچ کے دائرے میں لینے کی کوشش کریں گے۔ اس تمام صورتحال نے پورے مشرق وسطیٰ میں اخوانی اور دیگر اسلامی سیاسی تحریکوں کے خلاف کریک ڈائون کی صورتحال پیدا کردی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خلیجی عرب ریاستیں شام کے معاملے میں معلق ہوکر رہ گئے۔ اگر وہ بشارت حکومت کا ساتھ دیتے تو ایران کے پیر مضبوط ہوتے اور اگر باغیوں کا ساتھ دیتے تو کامیابی کی صورت میں اخوان کے نظریات سے متاثر حلقے حکومت بنا لیتے۔ اس صورتحال کا خمیازہ شام کے لاکھوں بے گناہ مسلمانوں نے بھگتا۔ بعین یہی صورتحال اس سے پہلے عراق میں پیدا کی گئی تھی جس کا وقتی طور پر فائدہ ایران اور روس کو ہوا۔
اس سارے معاملے کے بعد اب اس خونی کھیل کا تیسرا حصہ شروع ہوا چاہتا ہے ۔ یہ عربوں کا باہمی اختلاف جس کی ابتدا قطر تنازع سے کی گئی ہے اور پورے خطے میں نئی گروپ بندی جاری ہے۔ ریاست قطر ایک چھوٹا ملک ہے لیکن وسائل کے لحاظ سے پورے خلیج میں مالا مال ریاست تصور ہوتی ہے جس کی فی کس آمدنی خلیج میں سب سے زیادہ تصور کیا جاتی ہے۔ قطر ایک چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن پالیسی کے لحاظ سے اس نے اپنے سائزسے بڑے جوتے میںپیر ڈالنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ اپنے آپ کو ایک ماڈرن لیبرل ریاست تصور کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ اس کے ’’مثالی‘‘ سفارتی تعلقات ہیں۔ قطر اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات کی ابتدا 1996ء میں ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ تاریخی طور پر یمن سے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کا کام بھی دوحہ کے ذریعے ہوا تھا۔ موجودہ تنازعے کی ابتدا قطری حکومتی ویب سائٹ پر قطری امیر تمیم بن حمد الثانی کے اس بیان سے ہوئی تھی جس میں انہوں نے ایران کو اسلامی قوت قرار دیا اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بیان کئے۔ قطری حکومت کا موقف ہے کہ اس کی حکومتی ویب سائٹ کو ہیک کیا گیا تاکہ قطر اور دیگر عرب ملکوں کے درمیان تنازع کھڑا کیا جائے لیکن سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ملکوں نے قطر حکومت کو موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قطر دہشت گردی کی حمایت اور انتہا پسند افراد کی میزبانی کرتا ہے ۔ ان کا اشارہ دوحہ میں اخوان المسلمون کے لیڈروں کو پناہ دیئے جانے کی جانب تھا، دوسری جانب حماس کی حمایت کی بھی مذمت کی جاتی رہی ہے۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اصل اختلافات کیا ہیں اس میں سب سے پہلے الجزیرہ نیوز چینل اس کے بعد اخوان اور حماس ہیں۔ اس ساری جلتی پر تیل کا کام امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطیٰ اور بیانات نے دیا۔
اس حوالے سے اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ترکی کھل کر قطر کی مدد کو آگیا ہے ۔ چند ماہ پہلے تک اس کے صرف چھ سو فوجی قطر میں تعینات تھے لیکن اب ترک پارلیمنٹ سے بل منظور کروانے کے بعد پانچ ہزار سے زائد ترک فوجی قطر میں ہوں گے۔ جبکہ امریکا کا سینٹ کام کا فوجی اڈہ بھی دوحہ کے قریب واقع ہے۔ اب اگر امریکا سینٹ کام کا اڈہ وہاں سے منتقل بھی کرتا ہے تو اسے کم سے کم ایک سے ڈیڑھ برس کا عرصہ درکار ہوگا ،دوسری جانب روس نے فی الحال براہ راست مداخلت کا عندہ تو نہیں دیا ،لیکن عرب صحافتی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی عسکری مہم جوئی کی صورت میں روس بھی اس جنگ میں کود سکتا ہے۔ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ اس سارے کھیل کا اصل مقصد روس کو میدان میں لانا اور عربوں کے وسائل کو آخر تک نچوڑ لینا ہے۔ روس کو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں مداخلت سے روکنے کے لئے نیٹو اور امریکا انتہائی خاموشی کے ساتھ بلقان کے راستے روس کے قریب فوجیں اکھٹا کررہے ہیں ،بھاری اسلحے کی ترسیل کئی ماہ سے جاری ہے۔ روس اور چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اور عسکری قدموں کو روکنے کے لئے بڑا معرکہ کسی وقت بھی شروع ہوسکتا ہے ۔
٭٭……٭٭