
مغربی ممالک میں احساس ۔۔۔ مسلمانوں کی بے حسی
شیئر کریں
جاوید محمود
۔۔۔۔۔
امریکہ سے
اسرائیل نے 7اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ میں جنگ کا آغاز کیا تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل کی جانب سے جواسلحہ استعمال کیا گیا وہ زیادہ تر امریکہ کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا یا امریکہ کی مالی اعانت سے خریدا گیا تھا ۔اسرائیل کے دیگر مغربی اتحادی ممالک نے بھی اسرائیل کو ایک اور طاقتور ہتھیار فراہم کیا اور یہ ہتھیار تھا اسرائیل کی جنگ میں مکمل اخلاقی حمایت اور یکجہتی کا مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کو مغربی اتحادیوں کی طرف سے میسر یہ اخلاقی حمایت ختم ہو چکی ہے۔
کم از کم فرانس برطانیہ اور کینیڈا کے حوالے سے تو یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے ۔ان تینوں ممالک نے اسرائیل کے اس طریقہ کار کی سب سے سخت مذمت کی ہے جس کے تحت وہ غزہ میں جنگ لڑ رہا ہے۔ ان تینوں ممالک نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنی نئی فوجی کارروائی کوفوراً روکے یعنی وہ نیا فوجی آپریشن جس کا آغازحال ہی میں ہوا ہے اور جس کے بارے میں وزیراعظم نتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس کی وجہ سے حماس کا خاتمہ ہوگا ۔حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرایا جائے گا اور پورے غزہ کو براہ راست اسرائیلی فوجی کارروائی میں لایا جائے گا ۔برطانیہ فرانس اور کینیڈا نے نتن یاہو کی نئی حکمت عملی کو مسترد کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کا واضح مطالبہ کر دیا ہے۔ ان تینوں ممالک کے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ہم غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے پھیلاؤ کی شدید مخالفت کرتے ہیں ۔وہاں انسانی المیہ کی شدت ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ نتن یاہو کی جانب سے غزہ میں انتہائی محدود مقدار میں خوراک کی فراہمی کی اجازت کو بھی ان تینوں ممالک نے انتہائی ناکافی قرار دیا ہے جبکہ نتن یاہو نے زور دیا کہ اگر حماس یرغمالیوں کو واپس کرے ہتھیار ڈال دے اس کی قیادت جلاوطنی قبول کرے اور غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنا دیا جائے تو جنگ ختم ہو سکتی ہے۔ نتن یاہو نے کہا کہ کسی بھی ملک سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس سے کم پر راضی ہو اور اسرائیل بھی ہرگز نہیں ہوگا ۔
خیال رہے نتن یاہو پر جنگی جرائم کے الزامات ہیں اور ان کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت نے وارنٹ بھی جاری کر رکھا ہے تاہم وہ ان الزامات کو یہود مخالف قرار دیتے ہیں۔ نتن یاہو پر عالمی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کریں۔ خاص طور پر ایک معتبر عالمی ادارے کے اس سروے کے بعد جس میں غزہ میں قحط کے خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ لندن میں ہونے والی یورپی یونین اور برطانیہ کے مشترکہ اجلاس میں یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے غزہ کی صورتحال کو ایک ایسا سانحہ قرار دیا جہاں بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور پوری آبادی غیر متناسب فوجی طاقت کا نشانہ بن رہی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ انسانی امداد کی فراہمی کے لیے فوری محفوظ اور بغیر رکاوٹ رسائی ہر صورت یقینی بنائی جائے۔ رپورٹ کے مطابق دو روز قبل خوراک سے لدے صرف پانچ ٹرک غزہ میں داخل ہوئے تھے جبکہ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے نئے آپریشن کے تحت کی گئی پیش قدمی اور غزہ پر فضائی اورتوپخانے کے حملوں میں بہت سے چھوٹے بچوں سمیت مزید فلسطینی شہری مارے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کو تباہ کرنے اور ہزاروں فلسطینی شہریوں کو ہلاک کرنے جیسے اقدامات کی مخالفت کرنے والے افراد اور گروہ کہیں گے کہ فرانس اور برطانیہ اور کینیڈا کی حکومتوں نے اسرائیل کے خلاف بولنے میں بہت دیر کر دی ہے۔ اس جنگ کے مخالفین غزہ میں ہونے والے علاقوں اور تباہی کے خلاف بہت عرصے سے مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ لوگ آئے روز فلسطینی شہریوں کی مزید ہلاکتوں مغربی کنارے پر قبضے اورمسلح یہودیوں آباد کاروں اور مسلحہ افواج کی جانب سے کی گئی فوجی کاروائیوں اور جھانپوں کے دوران اراضی کی ضبطی کے خلاف بھی احتجاج کیا ہے لیکن کبھی کبھی جنگ کی سیاست میں ایک واقعہ علامتی قوت کا حامل ہوتا ہے جو حکومتوں کو کارروائی یا رد عمل دینے پر مجبور کر سکتا ہے اور اس بار یہ واقعہ 23مارچ کو غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 15 پیرامیٹرکس اور امدادی کارکنوں کا قتل تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب اسرائیل نے 18 مارچ کو بڑے پیمانے پرفضائی حملوں کے ساتھ دو ماہ سے جاری جنگ بندی کے معاہدے کو توڑ دیا تھا۔ جنگ بندی کے خاتمے کے پانچویں روز ایک اسرائیلی فوجی یونٹ نے طبی عملے اور امدادی کارکنوں کے قافلے پر حملہ کیا اور اس حملے میں جو افراد مارے گئے اور گولیوں سے چھنی ان گاڑیوں کوریت تلے دبا دیا اس موبائل کے مالک نے اپنے قتل سے پہلے اس پورے واقعے کوفلمایا تھا اور اسرائیلی دعووں اور بیانات کے برعکس قبر سے ملنے والے موبائل کی فلم سے یہ ثابت ہوا تھا کہ اس قافلے میں شامل گاڑیوں اور ایمبولنسوں پر نہ صرف روشن لائٹنگ جل رہی تھیں بلکہ ان پر ہنگامی حالات میں مدد کرنے والی گاڑیوں کے تمام نشانات موجود تھے۔ اسرائیلی یونٹ نے اس قافلے پر منظم انداز میں حملہ کیا اور یہاں تک کہ قافلے میں شامل تمام گاڑیوں میں موجود لگ بھگ ہر شخص کو ہلاک کر دیا گیا ۔اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد سے خطرے کی گھنٹی تیزی سے بج رہی ہے، نہ صرف اسرائیل کے روایتی مخالفین بلکہ اس کے یورپی اتحادی بھی اپنی زبان کو سخت کر رہے ہیں تین ممالک کی جانب سے اسرائیل کی جانب سے جارحیت کے خاتمے کے مطالبے کا سامنے آنے والا بیان اسرائیل پر غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک کی سب سے سخت تنقید ہے ۔ تینوں ممالک کی جانب سے سخت بیان کا استعمال غزہ میں انسانی المیہ کی صورتحال پر بڑھتے ہوئے غصے کی حقیقی احساس کی عکاسی کرتا ہے اور اس بات کی بھی عکاسی ہے کہ اسرائیلی حکومت بلا روک ٹوک کارروائیاں کر رہی ہے اس مشترکہ بیان میں اسرائیل کے لیے زیادہ افسوسناک بات وہ ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے نہیں رہیں گے جب تک کہ نتن یاہو کی حکومت ان گھناونی کارروائیوں کو جاری رکھے گی۔ اگر اسرائیل نے مزید فوجی کارروائی بند نہیں کی اور انسانی امداد تک رساؤ پرعائد پابندیاں ختم نہیں کیں توہم جواب میں مزید ٹھوس اقدامات کریں گے۔ فرانس ان 148 دیگر ممالک کے بلاک میں شامل ہونے پر غور کر رہا ہے جنہوں نے جون کے شروع میں نیویارک میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں ایسا کیا ہے ۔برطانیہ نے بھی فرانس کے ساتھ فلسطینیوں کو تسلیم کیے جانے سے متعلق بات چیت کی ہے ۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر حد درجہ مظالم ڈھانے کے بعد مغرب ممالک میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ وہ اسرائیل کو لگام دیں جبکہ اس کے برعکس درجنوں مسلم ممالک بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پس پردہ بات کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔