میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنارہے ہیں ؟کے جواب میں (٣)

ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنارہے ہیں ؟کے جواب میں (٣)

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۳ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

ب نقاب /ایم آر ملک

ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بنگلا دیش ،بھارت ،سری لنکا کو جو قیادت میسر آئی اس کی جڑیں دھرتی کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں ۔ہمارے ہاں ایسا نہیں سرے محل سے لیکر ایون فیلڈ تک ہمارے شعور نے کیا کچھ نہیں دیکھا پھر ہم اس ادراک سے عاری ہیں جو انہیں میسر ہے ،تعلیم ،صحت ،سکیورٹی جیسے بنیادی حقوق کی فراہمی ہر بچے کا بنیادی حق ہے ،ہمارے تعلیم اور صحت کے شعبے کاروبار بن چکے ہیں پرائیویٹ تعلیم کے نام پر تجارت کی جارہی ہے اور اسی طرح صحت کے نام پر لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرکے ہسپتالوں کے نام پر صنعتی ایمپائر کھڑے کئے جارہے ہیں ،ہمارے ہاں بچوں کو سماجی اور معاشی چیلنجوں کا سامنا الگ سے ہے ،یکساں نظام ِ تعلیم کے نفاذ سے کسی بھی ملک کے تعلیمی نظام سے رنگ و نسل کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے دوہرا نظام تعلیم بھی ایک بہت بڑی قباحت ہے ،خاندانی اور موروثی سیاست کی بنیاد تو روز ازل سے رکھ دی گئی ،76سال سے ہم خاندانی اور موروثی سیاست اور حکمرانی کے تسلط میں زندگی گزار رہے ہیں ، جمہوریت کے تو تصور تک سے ہم بے خبر ٹھہرے ،اور سیاست کے نام پر ہمارے ہاں جو پارٹیوں کا وجود ہے وہ سیاسی جماعتیں کم لمیٹڈ کمپنیاں زیادہ نظر آتی ہیں ،سیاسی پارٹیوں میں نظریاتی ورکروں کی تنقید کو خندہ پیشانی سے سنا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں کسی قیادت کی پالیسی پر تنقید کی شکل میں آپ کی متعلقہ پارٹی سے ممبر شپ کا اخراج ہوجاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی دو بڑی موروثی پارٹیوں میں حق خود ارادیت کا قتل اور عوامی رائے کو جھوٹ کی بنیاد پر یر غمال بنانا کوئی جرم نہیں کہلاتا ،فارم 45کے بجائے فارم 47پر جعلسازی سے شکست خوردہ امیدوار کی جیت کو ممکن بنایا گیا ، آپ کا محور یہ بھی ہے کہ پارٹی میں نوجوان نسل اور خواتین کو ہراول کا کردار دیا جائے۔ یہ بہت اچھا آئیڈیا ہے ،نوجوان ہی ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت میں تحرک پیدا کرتے ہیں ،سیاسی حوالے سے آج کی نوجوان نسل شعوری سطح پر بہت آگے نظر آتی ہے ۔
ہم ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں جہاں نوجوان نسل کو آنکھ کھولتے ہی ناخلف اور بے راہ روی کے راگ سننے کو ملتے ہیں ،جس کو بڑے ناکارہ سمجھ کر خود سے دور رکھتے ہیں ، یہ سچ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو سمجھا ہی نہیں گیا وہ جیتنا بھی چاہیں تو ہار جاتے ہیں اور ہمارے نوجوان کے ساتھ ایک ٹریجڈی یہ بھی ہے کہ اُس نے جب بھی جوانی اور تجربے کے فاصلے کو مٹانا چاہا تو اُسے جونیئر رینک کا طعنہ ملا جونیئر ہونا بُری بات نہیں مگر اس بات پر بڑے اتنا طنز کرتے ہیں کہ ہمارا نوجوان سنیارٹی سے وحشت زدہ ہو کر اندھیروں میں ڈوب رہا ہے اور آج بے روزگاری کی لعنت نے اسے یوں جکڑا ہے کہ نئی نسل نشے کی لت میں پڑ کر بے خودی کے اندھیرے میں چُھپ گئی ہے ،یقینا یہ نسل اپنے گم شدہ خواب مانگتی ہے ان کی تعبیر مانگتی ہے ،اس کا یہ احساس ِ محرومی دور کرنا ہوگا ،مہنگائی ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ تو تصور کیا جاتا ہے لیکن اس کے پس منظر کو اکثر سیاسی جماعتیں سامنے لانا گوارا نہیں کرتیں ،اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سابقہ ادوار میں اسٹاک مارکیٹ کی فنانسلائزیشن اور گھپلوں کی وجہ سے کئی مالدار مزید کھرب پتی ہوگئے اور کھربوں روپے کی سٹاک مارکیٹ ٹیکس سے الرجک رہی ، شوکت عزیز نے انہیں ریلیف دے رکھا تھا یہی نہیں گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین نے عارضی معاشی سرگرمیوں کیلئے کنزیومر ازم کو فروغ دیا جس کے منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہوئے ،کھربوں روپے کے قرضے منظور نظر افراد کو 5سے6فیصد سود کی شرح پر دیے گئے ،جبکہ ڈیپازٹرز کو کچھ نہیں دیا ان کے حصے میں آنے والی اربوں روپے کی رقم بھی قرضوں کی صورت میں ان مالداروں کو ملی جنہوں نے شیئر مارکیٹ اور ریئل سٹیٹ کی سٹے بازی سے خوب کمایا جس سے زر کا پھیلائو ہوا اور قیمتیں قابو سے باہر ہوگئیں ،انڈسٹرلائزیشن کے بجائے سرمایہ کاروں نے اسٹاک مارکیٹ میں آسان کمائی میں پیسہ لگا دیا کنزیومر ازم سے کریڈٹ کارڈ اور لیزنگ سے قوت خرید مزید کم ہوگئی ، مہنگائی کو کم کیسے کیا جائے اس کا آسان حل یہ ہے کہ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان آرڈیننس 2007پارلیمنٹ میں بل کی صورت میں ایکٹ بنانے کیلئے پیش کیا جائے اس میں وقت کا وزیر اعظم صرف ایک شق کا اضافہ کرادے ۔کارٹل اور گٹھ جوڑ جنہیں اب سول خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے اور گٹھ جوڑ کرکے اشیائے صارفین اور اشیائے سرمائے کی بہت زیادہ قیمت مقرر کی جاتی ہے ،پرائس فکسنگ کارٹل بنانے والوں کو موجودہ قانون میں صرف جرمانہ کیا جاسکتا ہے لیکن کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان آرڈیننس مجریہ 2007میں جو ترمیم کرنا ہوگی اس میں گٹھ جوڑ کرکے قیمتیں فکس کرنے والے سارے کارٹل کے ممبر کارخانے داروں ،ٹریڈ گروپوں کے سربراہوں مجرمانہ خلاف ورزی کے جرم میں جرمانے اور قید دونوں سزائیں دی جائیں ،یہ اپنے منشور میں شامل کریں اس شق کو سابق وزیر اعظم ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے دلال شوکت عزیز نے نہ صرف شامل نہیں ہونے دیا بلکہ آرڈیننس کے ابتدائی ڈرافٹ میں شامل کرائی گئی اس شق کو اپنی کابینہ کے آخری ایام کے اجلاس میں مسودے سے خارج کردیا۔ (ختم شد )


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں