انصاف کے سوداگر اورعدالت کی تجارت
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابری مسجد کا نہایت نامعقول فیصلہ جسٹس رنجن گوگوئی کی بینچ نے کیا تھا ۔ وہ اس وقت چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے ۔ وہ ان تین ججوں میں سے ایک تھے کہ جنہوں اپنے وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف بغاوت کرکے پریس کانفرنس کردی تھی۔ان کے ساتھ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جسٹس جستی چاملیشور کے علاوہ جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس کورین جوسف بھی شامل تھے ۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے طریقہ کار میں انتظامی ضابطوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور چیف جسٹس کے ذریعہ عدالتی بنچوں کو سماعت کے لیے مقدمات من مانے ڈھنگ سے الاٹ کرنے کی وجہ سے عدلیہ کے اعتبار پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ اسی سبب سے ان حضرات کو میڈیا سے بات کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ۔اس وقت بھی مہاراشٹر میں چلنے والے سہراب الدین فرضی تصادم معاملے کی تفتیش کرنے والے سی بی آئی کے جج بی ایچ لویا کی پراسرار موت کا معاملہ ایک جونیئر بنچ کے سپرد کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس معاملے میں چونکہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق قومی صدر امیت شاہ کلیدی ملزم کی حیثیت جیل بھی کاٹ چکے تھے اس لیے معاملہ خاصا سنگین ہوگیا ۔ اقتدار کے نشے میں دھت امیت شاہ عدالت میں حاضری میں حاضری کی زحمت نہیں کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ اتفاق سے وہ ممبئی میں دورے پر تھے اس کے باوجود حاضر نہیں ہوئے تو جسٹس لویا نے سخت سرزنش کرتے ہوئے اگلی بار ہر صورت میں حاضری کا حکم دے دیالیکن اگلی تاریخ سے قبل ناگپور کے اندرایک شادی میں شرکت کے دوران پراسرار حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے گھر والوں نے الزام لگایا تھا کہ انہیں اس کیس سے ہٹنے کے لیے کروڑوں روپے کی پیش کش کی گئی تھی۔ ججوں نے ایسی دیگر کئی مثالیں بھی دی تھیں کہ جن کے ملک اور عدلیہ پر دور رس اثرات مرتب ہورہے تھے ۔ان ججوں نے الزام عائد کیا تھاکہ چیف جسٹس نے کئی مقدمات کو صرف اپنی ذاتی پسند کی بنیاد پر بینچوں کو الاٹ کیا اور ایسے من مانے ڈھنگ سے کام کرنے سے عدالت کا امیج کسی حد تک خراب ہوئی تھی۔ ان بلند بانگ دعووں کے بعد کچھ ہی عرصہ میں جسٹس رنجن گوگوئی نے ایسا بزدلانہ رویہ اختیار کیا کہ ان پر حیدر علی آتش کایہ شعرچسپاں ہوگیا
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرئہ خوں نہ نکلا
حیرت کی بات یہ ہے کہ بڑے پروچن دینے والوں میں سے ایک رنجن گوگوئی نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد آگے چل کر عدالتِ عظمیٰ کا وقار خاک میں ملا دیا۔ ان لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہیں بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ،”ہم ملک کو یہ باتیں اس لیے بتارہے ہیں تاکہ بیس برس بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح گروی رکھ دی تھی”۔ بیس سال تو بہت دور کی بات ہے ۔ اس پریس کانفرنس کے بعد دوسال بھی نہیں گزرے تھے کہ جسٹس رنجن گوگوئی نے اپنے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کے الزامات سے خوفزدہ ہوکر اپنے ضمیر کا سودہ کردیا ۔ اس طرح وہ نہ صرف سزا سے بچ گئے بلکہ چار ماہ کے اندر ایوان بالہ کی رکنیت سے بھی نواز دیئے گئے ۔ اس طرح ان کے دونوں ہاتھوں میں لڈو اور سرکڑھائی میں آگیا ۔ اس فیصلے کے بعد پانچ ستارہ ہوٹل میں جشن منانے کا جو اعتراف انہوں نے اپنی کتاب میں کیا وہ نام نہاد روشن مستقبل کی کوشی میں تھا جس کو انہوں نے انصاف کا خون بہا کر حاصل کیا تھا۔
بابری مسجد کا فیصلہ سنانے والے دوسرے جج شرد اروند بوبڑے تھے ۔ گوگوئی کے بعد انہیں چیف جسٹس بنایا گیا اور اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے اپنی ناگپوری وفاداری کے بے شمار ثبوت دئیے ۔ ان کو نقل مکانی کرنے والے لاکھوں مزدور نظر ہی نہیں آئے اور ان کے ریل گاڑی کے نیچے کچل کر مرجانے سے بھی کوئی ہمدردی نہیں ہوئی۔ بی جے پی نے اس گھر کی مرغی کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا پھر بھی مہاراشٹر نیشنل لا یونیورسٹی کا چانسلر بنادیا۔ اس یونیورسٹی کے پہلے کنوکیشن میں انہوں موجودہ چیف جسٹس کو مہمانِ خصوصی کے طور بلوایا کیونکہ وہ دونوں متنازع بینچ میں ایک دوسرے کے ہمجولی تھے ۔ تیسرے جج ڈی وائی چندچوڑ کو بھی چیف جسٹس بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ ہندوستان میں سب سے زیادہ وقت تک چیف جسٹس رہنے والے وائی وی چندر چوڑ کے بیٹے ہیں۔ اتفاق سے شاہ بانو کے معاملے میں متنازع فیصلہ دینے کا سہرہ والد کے اور بابری مسجد پر ناانصافی کرنے کا اعزاز بیٹے کے حصے میں آیا یعنی جیسا مالک ویسا گھوڑا کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا والی بات سچ ہوگئی۔ ڈی وائی چندر چوڑ دنیا کی مختلف یونیوسٹیز میں قانون پڑھانے جاتے ہیں مگر قانون کے نفاذ میں کتنے کمزور ہیں اس مظاہرہ انہوں نے پہلے بابری مسجد معاملے میں اوراب مہاراشٹر حکومت کے تنازع میں کیا۔ ادھو ٹھاکرے سرکار پر جو فیصلہ سنایا گیا اس کو دیکھنے کے بعد یہ شعر یاد آتا ہے
ہے منصف ہی گرفتار تعصب
عدالت میں ہماری ہار طے ہے
بابری مسجد قضیہ میں جسٹس اشوک بھوشن بھی بینچ میں شامل تھے ۔ وہ چیف جسٹس بننے سے قبل پرشانت بھوش کے ہاتھوں ہتک عزت کے معاملے میں رسوا ہوکر جولائی 2021 میں سبکدوش ہوگئے ۔ ان کے لیے بیس ماہ تک نیشنل کمپنی لا اپیلائیٹ ٹریبونل کے سربراہ کا عہدہ خالی رکھا گیا اور ریٹائرمنٹ کے چار ماہ بعد انہیں اس پر چار سال کے لیے فائز کردیا گیا۔ اس گروہ میں جسٹس ایس عبدالنذیر بھی شامل تھے جنہیں اس فیصلے پر اپنا اعتراض لکھوانے کی جرأت نہیں ہوئی ۔ امسال جنوری میں وہ سبکدوش ہوئے اور ایک ماہ کے اندر ان کو آندھرا پردیش
کا گورنر بنا دیا گیا۔ ریٹائزمنٹ سے پہلے حکومت کو خوش کرنے کے لیے جسٹس عبدالنذیر نوٹ بندی معاملے میں سرکار کو کلین چِٹ دینے کا کارنامہ کرکے خود کو حکومت کی نظرِ کرم کا مستحق بنالیا ۔ عبدالنذیر کے اتنی جلدی گورنر بنائے جانے کو حزب اختلاف نے عدلیہ کے لیے خطرہ بتایا تھا۔عبدالنذیر پر نظر ِ التفات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بی جے پی اپنی خدمت بجا لانے والے لوگوں میں مذہبی بنیاد پر تفریق و امتیاز نہیں کرتی بلکہ بلا لحاظِ مذہن و ملت نوازتی ہے ۔ ان سرکاری نوازشوں کی خاطر یہ حضرات عام شہریوں کو شرمسار کرنے والے فیصلے سناتے ہیں ۔یہ دراصل عدلیہ کا ظالمانہ نظام سیاست کے آگے سپر ڈال دینے کا کھلا ثبوت ہے ۔ معروف شاعر قتیل شفائی اس صورتحال کی کیا خوب ترجمانی کی ہے
کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے
جس میں غلے کے نگہباں ہیں وہ گیدڑ جن سے
قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے
بابری مسجد کیس پر 9 نومبر 2019 کو عظیم ناانصافی کا ارتکاب کرنے کے بعد دیگر ججوں کے ساتھ ہوٹل تاج مان سنگھ میں دعوت اڑانے والے رنجن گوگوئی کے ستارے گردش میں آنے لگے ہیں۔ ان کی سوانح عمری ‘جسٹس فار دی جج’ کے خلاف آسام کے ایک سماجی کارکن اور این جی او کے عہدیدار ابھیجیت شرما نے ہتک عزت کا مقدمہ درج کیا ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے تناظر میں اس کتاب کے اندر کچھ غلط باتیں کہی گئی ہیں۔ گوہاٹی میں کامروپ (میٹرو) ڈسٹرکٹ اور سول جج کی عدالت کے اندر درج گوگوئی کے خلاف ایک کروڑ روپے کا ہتک عزت کا مقدمہ میں سابق سی جے آئی کی سوانح حیات پر پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا گیاہے ۔ شرما نے اپنی درخواست میں الزام لگایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سابق سی جے آئی نے این آر سی کوآرڈینیٹر پرتیک ہجیلا کو مدھیہ پردیش منتقلی کے بارے میں ہتک آمیز نوعیت کی غلط باتیں لکھی ہیں۔ اس مقدمہ رنجن گوگوئی کو سزا ان کے خلاف قدرت کا نہایت دلچسپ انصاف ہوگا۔ عدل کے سوداگروں کوان کی ناانصافی کے عوض جو بھی سزا ملے کم ہے ۔
٭٭٭