ادویات کی مصنوعی قلت، بلیک مارکیٹنگ اور بھارت نوازی میں زافا فارما بھی ملوث نکلی
شیئر کریں
(جرأت انوسٹی گیشن سیل) اگر پاکستان میں ادویات کی مصنوعی قلت، اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والے ادویہ ساز اداروں کی فہرست مرتب کی جائے توبلاشبہ جی ایس کے پاکستان اور زافا فارما اس میں سر فہرست ہونگیں۔ اہم اور جان بچانے والی ادویات کی بلیک مارکیٹنگ سے یہ دونوں کمپنیاں ماضی میں بھی اربوں روپے سالانہ کا ناجائز منافع کماتی رہی ہیں۔ غیر معیاری ادویات کی تیاری ہو یا خام مال کی درآمد کی آڑ میں قیمتی زرمبادلہ ازلی دشمن بھارت منتقل کرنے کی بات، زافا فارما کے جواد امین خان اس طرح کے ہر کام میں پیش پیش رہتے ہیں۔
جی ایس کے پاکستان اور زافا کے درآمدی خام مال کا گزشتہ چار ماہ کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو ہولناک انکشاف ہوتا ہے کہ یہ ادویات کے خام مال کی درآمدات میں ٹیکس پر ملنے والی چھوٹ کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہی ہے
پاکستان میں فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی ڈان زافا لیبارٹریز اور دنیا بھر کی فارما سیوٹیکل کمپنیوں میں کرپشن کی بے تاج بادشاہ سمجھی جانے والی کثیر القومی ادویہ ساز کمپنی جی ایس کے موجودہ کالے دھندوں کو بیان کرنے سے پہلے ان کے ماضی میں سرانجام دیے گئے کالے کرتوتوں کو بیان کرنا ضروری ہے۔ 8 دسمبر2017ء کو ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے چیئر مین سہیل مظفر نے چیئر مین قومی احتساب بیور کے نام ایک خط لکھا تھا۔ جس میں ادویہ ساز کمپنیوں جی ایس کے پاکستان اوزافا فارما سیوٹیکلز پروزارت صحت کی پشت پناہی سے چار عام استعمال کی ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کرکے سالانہ 8ارب روپے کا اضافی منافع کمانے کی شکایت پر کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس خط کی روشنی میں اس وقت کے وفاقی سیکریٹری صحت نے فوری ایکشن لیتے ہوئے معاملے کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں وفاقی ڈرگ انسپکٹر عبدالرسول شیخ کو بھی شامل کیا گیا۔ اصولا تو وفاقی ڈرگ انسپکٹر کو اپنے منصب کا استعمال کرتے ہوئے زافا اور جی ایس کے پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ان کے لائسنس معطل کرنے اور اربوں روپے کی کرپشن کرنے پر قومی احتساب بیورو آرڈیننس 1999ء کے تحت کارروائی کی سفارش کرنی چاہیے تھی، لیکن عبدالرسول شیخ نے نمک حلالی کرتے ہوئے انکو ائری رپورٹ میں لفظوں کے کھیل سے زافا اور جی ایس کے پاکستان کو مکھن سے بال کی طرح نکال دیا۔ مبینہ طور پر مالی مراعات، اور تحائف کی شکل میں ملنے والی بھاری رقوم نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور وفاقی ڈرگ انسپکٹر عبد الرسول شیخ کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔
جی ایس کے فارماسیوٹیکل دنیا بھر میں ڈاکٹروں کو کمیشن دینے، ایف ڈی اے کی مسترد کردہ ادویات کا نسخہ تجویز کرنے اور ڈاکٹروں کو لاکھوں ڈالر پروموشن کے نام پر دینے اور ادویات کی بلیک مارکیٹنگ میں سر فہرست ہے
وفاقی ڈرگ انسپکٹر عبدالرسول شیخ کی جانب سے زافالیبارٹریز کے غیر اخلاقی اور غیر قانونی دھندوں سے چشم پوشی کا ایک اہم سبب زبیر قریشی عرف کباڑی بھی ہے، جو کہ زافا لیباریٹریز میں مسترد کی جانے والی ادویات کو اسکریپ کی آڑ میں خرید کر اورنگی ٹاؤن، کورنگی، نئی کراچی، لیاقت آباد اور کراچی کے دیگر متوسط علاقوں میں قائم میڈیکل اسٹورز پر دوبارہ فرخت کرکے انسانی جانوں سے کھیل رہا ہے۔ دولت کمانے کے چکر میں قیمتی انسانی جانوں کوخطرے سے دوچار کرنے والے اس دھندے میں وفاقی ڈرگ انسپکٹر عبدالرسول شیخ نے بھی کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
زافا فارما اور جی ایس کے ساتھ ساتھ ایک اور کثیر القومی کمپنی بائیر ہیلتھ کیئر پاکستان بھی ادویات کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹ کرکے ناجائز منافع کمانے کی ڈگر پر چل نکلی ہے۔ زافا فارما کی امراض قلب میں استعمال ہونے والی دوا Nifedil SG-10 دس ملی گرام کے کیپسول اور Nifedil XL ٹیبلیٹ، جب کہ بائیر ہیلتھ کیئر پاکستان نے اسی موثر جُز Nifedipine سے بننے والی ادویات Adalat Retardبیس ملی گرام، Adalt LAتیس ملی گرام اور Adalat LAساٹھ ملی گرام کو مارکیٹ سے غائب کررکھا ہے۔ امراض قلب میں مبتلا مریض سانسوں کی ڈور برقرار رکھنے کے لیے بلیک میں ان ادویات کو خریدنے پر مجبور ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی نا اہلی کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے لاکھوں مریضوں کی زندگی سے کھیلنے کا سفاک کھیل جاری ہے اور متعلقہ ادارے دانستہ طور پر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے بیٹھے ہیں۔ جی ایس کے فارماسیوٹیکل دنیا بھر میں ڈاکٹروں کو کمیشن دینے، ایف ڈی اے کی مسترد کردہ ادویات کا نسخہ تجویز کرنے اور ڈاکٹروں کو لاکھوں ڈالر پروموشن کے نام پر دینے اور ادویات کی بلیک مارکیٹنگ میں سر فہرست ہے، لیکن پاکستان میں یہ کمپنی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے بدعنوان افسران کی مدد سے غریب مریضوں کو لوٹنے کا کوئی نہ کوئی حربہ تلاش کر ہی لیتی ہے۔ اگر جی ایس کے پاکستان اور زافا کے درآمدی خام مال کا گزشتہ تین چار ماہ کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو اس بات کا ہولناک انکشاف ہوتا ہے کہ یہ ادویات کے خام مال کی درآمدات میں ٹیکس پر ملنے والی چھوٹ کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ جبکہ زافا فارمااس معاملے میں جی ایس کے پاکستان سے چار قدم آگے ہے۔ جی ایس کے پاکستان کے پاس جلدی امراض میں استعمال ہونے والے انجکشن Kenacort A انجکشن بنانے کا لائسنس ہے، اور زافا فارما کے پاس Lonacort مرہم اور انجکشن بنانے کا لائسنس ہے، جس میں مرہم کی پراڈکشن زافا فارما بند کرچکی ہے اور Kenacort Aانجکشن کی طرح یہ بھی میڈیکل اسٹورز پر موجودنہیں ہے، لیکن اس انجکشن میں استعمال ہونے والا خام مالTRIAMCINOLONE ACETONIDE جی ایس کے پاکستان اور زافا باقاعدگی سے درآمد کروا رہی ہیں۔جی ایس کے پاکستان گزشتہ تین ماہ میں اس خام مال کی تین شپمنٹس درآمد کروا چکی ہے۔ جی ایس کے پاکستان نے گیارہ مارچ، 2019 کو اطالوی کمپنی FARMABIOS SPA سے 34کلو گرام TRIAMCINOLONE ACETONIDE خریدا۔ بل آف لیڈنگ نمبر15752144470 کے ساتھ اس خام مال کودوحہ قطرکے ہوائی اڈے سے رائل ایئر پورٹ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ نے قطر ایئر لائن کی پرواز نمبر QR-604سے کراچی میں جی ایس کے پاکستان کے کاروباری پتے پر بھیجا۔ اس خام مال کی 34کلو گرام کی دوسری شپمنٹ بھی رائل ایئر پورٹ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ نے دوحہ ہوائی اڈے سے قطر ایئر لائن کی پرواز نمبر QR-604سے کراچی بھیجی، اس کا بل آف لیڈنگ نمبر15752144584 تھا۔ TRIAMCINOLONE ACETONIDEکی 34کلو گرام کی آخری شپمنٹ پانچ دن قبل یعنی19مئی،2019کو کراچی پہنچی۔ بل آف لیڈنگ نمبر 60785133462کے حامل اس خام مال کو جیریز ڈیناٹا پرائیوٹ لمیٹڈ نے دبئی کے ہوائی اڈے سے اتحاد ایئرویز کی پرواز نمبر EY-200سے کراچی پہنچایا۔ زافا فارما گزشتہ چار ماہ میں اس خام مال کی دو شپمنٹس درآمد کرچکی ہے۔ زافا فارما کے مالک جواد امین خان بھی بھارت نوازی میں کسی سے کم نہیں ہیں اور وہ بھی اپنی ایسوسی ایشن کے چیئر مین زاہد سعید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادویات کے خام مال اور پیکیجنگ میٹریل کو بھی بھارت سے منگوانے کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ زافا فارما بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں قائم SYMBIOTECفارما لیب کے مستقل اور پرانے خریداروں میں سے ایک ہے۔ جواد امین خان کی کمپنی نے بیس فروری،2019کو مذکورہ کمپنی سے 17کلو گرام TRIAMCINOLONE Aخریدا، جسے جیریز ڈیناٹا پرائیوٹ لمیٹڈ نے دبئی ہوائی اڈے سے ایمریٹس ایئر لائن کی پرواز نمبر EK-604سے کراچی بھیجا، اس خام مال کا بل آف لیڈنگ نمبر 17603790253 تھا،رواں ماہ کی گیارہ تاریخ کو زافا نے 66کلو TRIAMCINOLONE A کی دوسری شپمنٹ درآمد کی، جسے بل آف لیڈنگ نمبر 17671512033کے ساتھ جیریز ڈیناٹانے دبئی ایئر پورٹ سے ایمریٹس ایئر لائن کی فلائٹ نمبرEK-608سے کراچی بھیجا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خام مال سے بننے والی ادویات تو مارکیٹ میں موجود نہیں ہیں، تو پھر اس درآمد کیے گئے خام مال کو کہاں ٹھکانے لگایا گیا ہے؟ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، ایف آئی اے اور پاکستان کسٹم کو اس سمت بھی تفتیش کرنی چاہیے کہ کہیں ماضی میں مجرمانہ کردار کی حامل ان کمپنیوں کی جانب سے درآمد کیے گئے خام مال کو مارکیٹ میں کمرشل ریٹ پر تو فروخت نہیں کیا جارہا؟ اور اگر ایسا ہے تو پھرملکی معیشت کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے جی ایس کے پاکستان اور زافا فارما کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرتے ہوئے ان کی مذکورہ ادویات (کینارٹ اے اور لوناکارٹ انجکشن) کی رجسٹریشن منسوخ کردینی چاہیے۔ زافا فارما اپنی روایتی ہٹ دھرمی کی ریت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک اور انجکشن کے خام مال کو بڑی مقدار میں درآمد کروا رہی ہے جب کہ وہ انجکشن ایک طویل عرصے سے مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔اس کے علاوہ پنجاب میں سینکڑوں افراد کی قاتل کمپنی افروز کیمیکل بھی امراض قلب کے مریضوں کی ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ناجائز منافع کمانے کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ زافا اور افروز کے ان کالے کرتوتوں پر تفصیلی رپورٹ آئندہ اشاعت میں شائع کی جائے گی۔(جاری ہے)