میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اتحادی سیاست (آخری قسط)

اتحادی سیاست (آخری قسط)

ویب ڈیسک
منگل, ۲۳ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

1977ءمیں بننے والا قومی اتحاد کا بنیادی مقصد بھٹوکا انتخابی میدان میں مقابلہ کرنا تھا لیکن انتخابات میں دھاندلی کے بعد چلنے والی تحریک نے اس کو تحریک نظام مصطفیٰ بنا دیا اگر ہم اس اتحاد کی ساخت پر نظر ڈالیں تو اس میں غالب اکثریت سیکولر اور لبرل سوچ رکھنے والے عناصر کی تھی اس اتحاد کے اتحادیوں میں کمیونسٹ بلاک سے تعلق رکھنے والے ماسکو نواز خان عبدالولی خان بھی شامل تھے جبکہ سیکولر اور لبرلز میں نوابزادہ نصراللہ خان، پاکستان جمہوری پارٹی ،ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغر خان کی تحریک استقلال ،پیرصاحب پگارا کی مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر لبرل جماعتیں شامل تھیں جبکہ دینی جماعتوں میں جماعت اسلامی، جمعیت علماءپاکستان اور جمعیت علماءاسلام شامل تھیں۔ یوں اتحاد کی دو تہائی جماعتیں لبرل اور سیکولر عناصر پر مشتمل تھیں لیکن حالات کا دھارا اس طرح مڑا کہ خان عبدالولی خان کی نمائندگی کرنے والی ان کی اہلیہ جو اس وقت نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد وجود میں آنے والی عوامی نیشنل پارٹی کی سربراہ تھیں، بھی اس تحریک کو تحریک نظام مصطفیٰ تسلیم کرنے پر مجبور رہیں لیکن جیسے ہی ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹا اور ملک میں مارشل لاءلگایا تو تحریک نظام مصطفیٰ ہواو¿ں میں تحلیل ہو گئی۔ اصغر خان نے پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگایا تو نوابزادہ نصراللہ ،پاکستان جمہوری پارٹی اور جمعیت علماءپاکستان نے اس اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغر خان کا کہناتھا کہ ہمارا ہدف ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے محروم کرنا تھا جو حاصل ہو چکا اب پہلے احتساب ہو پھر انتخاب کرایا جائے۔ جمعیت علماءپاکستان نے بھی تقریبا ً یہی مو¿قف اختیار کیا اور یوں پاکستان قومی اتحاد اور نظام مصطفی کے قیام کا نعرہ ہواو¿ں میں تحلیل ہو کر رہ گیا ۔
جنرل ضیاءالحق کی آمریت کو مضبوط کرنے میںقومی اتحاد کی قیادت کا بہت بڑا کردار ہے خصوصاً اصغر خان کا یہ نعرہ کہ پہلے احتساب پھر انتخاب، یوں ضیاءالحق جو کسی حد تک 90 دن میں انتخابات کرا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، انہیں ایک بہانہ مل۔ا اسی دوران یہ بھی ہوا کہ نواب محمد احمد قصوری کی فائل جو ایک طویل عرصہ سے سربہمر تھی اس کی مہریں ٹوٹیں اور بھٹو کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا 1978ءکا سال اسی کشمکش میں گزر گیا عدالتی کارروائیاں ہوتی رہیں اور سیشن کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر مہرتصدیق ثبت کر دی اور 4 اپریل 1979ءکو ذوالفقار علی بھٹو اپنے انجام کو پہنچے۔” قائد عوام “ کے جنازے میں شامل افراد کی تعداد دہرے ہندسے میں نہیں تھی یہاں ایک جملہ جو غیر متعلقہ تو نہیں لیکن شاید قارئین کو غیرمناسب لگے لکھ دیتا ہوں۔1972ءمیں بھٹو کی آمریت اپنے عروج پر تھی اور راجن پور کی قومی اسمبلی کی سیٹ سے منتخب رکن قومی اسمبلی جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا کو ان کے مطب میں شہید کر دیا گیا۔ ڈاکٹر نظیر احمد جماعت اسلامی سے ان چار ارکان اسمبلی میں سے ایک تھے جو 1970ءکے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نظیر احمد کی شہادت کے بعد جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو نے اظہار تعزیت کرنے کے بجائے اسمبلی کے فورم پر کہا تھا کہ اب مودودی کا جنازہ کیسے اُٹھایا جائے ،جس پر پروفیسر عبدالغفور احمد نے کہا تھا کہ جناب آپ مر کے تو دیکھیے ہمیں وہ طریقے بھی آتے ہیں کہ آپ کو تنہا فرد بھی قبر میں اتار دے۔ یہ فطرت کی ستم ظریفی ہے کہ 1979ءمیں ذوالفقار علی بھٹو اپنے انجام کو پہنچے اور جنازے میں شرکاءکی تعداد دہرے ہندسے میں نہیں تھے اور اسی سال سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی اپنے رب کے حضور پیشی دی اور دونوں کے جنازوں کا فرق سب نے دیکھا مولانا مودودیؒ کے جنازے میں شرکاءکی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی ۔
1981ءمیں ایم آر ڈی وجود میں آئی یہ بحالی جمہوریت کی ایسی تحریک تھی جس کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جنہوں نے آمریت کو دعوتیں دی تھیں نوابزادہ نصراللہ خان کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی اور ایئرمارشل اصغر خان کی تحریک استقلال ایم آر ڈی کاحصہ تھا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کامیاب نہ ہو سکی اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس تحریک کی سب سے اہم پارٹی کی سربراہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو پاکستان سے باہر تھیں۔ 1988 میں دو اتحاد وجود میں آئے ایک سندھ قومی اتحاد جس میں جی ایم سید،رسول بخش پلیجو، محمود ہارون، الہیٰ بخش سومرو، رحیم بخش رحیم، عبدالحمید جتوئی، سید کوڑل شاہ، خانم گوہر اعجاز اور ابراہیم جویو شامل تھے، یہ اتحاد بھی حسب سابق کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکا اور 1988ءکے انتخابات سے قبل ہی خاموشی سے اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اسی سال دوسرا اتحاد غلام مصطفیٰ جتوئی کی قیادت میں بنا اس کا نام اسلامی جمہوری اتحاد یا آئی جے آئی تھا، اس اتحاد میں مسلم لیگ جونیجو،نیشنل پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتیں شامل تھیں اس اتحاد کا مقصد ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ 1988ءکے انتخابات میں یہ اتحاد قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا او ر پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب رہی لیکن یہ حکومت 20 ماہ چل سکی اور اگست 1990ءمیں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن اور بدانتظامی الزامات کے تحت اس حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1990ءکے ہونے والے انتخابات میں آئی جے آئی نے کامیابی حاصل کی لیکن ان انتخابات سے قبل ہی مسلم لیگ کے سربراہ محمد خان جونیجو اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے تھے اور مسلم لیگ جونیجو سے نواز لیگ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ نواز شریف وزیراعظم بنے اور 1993ءتک برسراقتدار رہے، جب وحید کاکٹرفارمولے کے تحت غلا م اسحاق خان اورنواز شریف کو بیک وقت رخصت ہونا پڑا لیکن اس سے قبل 1992ءمیں فیڈرل شریعت کورٹ نے سود کو 6 ماہ میں ختم کر کے اسلامی معاشی نظام نافذ کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن نواز شریف سردار آصف احمد علی کے مشورے پر اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے جہاں پر یہ اپیل تاحال فیصلے کی منتظر ہے، لیکن اس اپیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئی جے آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ جماعت اسلامی نے اس اپیل کے بعد اس اتحاد سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا ۔1990ءکے انتخابات سے قبل ایک اور اتحاد وجود میں آچکا تھا پاکستان ڈیموکریٹک الائنس، اس الائنس میں پاکستان پیپلزپارٹی، جمعیت علماءپاکستان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) شامل تھے۔ 1993ءکے انتخابات میں اس اتحاد نے کامیابی حاصل کی، یوں بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم بنیں اور جمعیت علماءاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پہلی بار قومی اسمبلی کے کمیٹی برائے کشمیر کے چیئرمین بنے، ان انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت میں آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسینٹ کا خطاب ملا۔ اسمبلی اور حکومت کے قیام کے بعد صدارتی انتخاب عمل میں آیا لیکن اس انتخاب میں نوابزادہ نصراللہ کے ہاتھ میں کچھ نہ آیا اور انکل” فاروق لغاری“ صدرمملکت بن گئے۔ یوں بظاہر بے نظیر بھٹو کے لیے میدان صاف تھا لیکن جب کراچی میں مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہوا اور اس سے قبل ہی آصف زرداری کی کرپشن کی داستانیں گلی گلی کوچہ کوچہ سنائی دینے لگی تو انکل فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو چلتا کیا۔ 1997ءمیں نوابزادہ نصراللہ کی سربراہی میں گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس بنا جس میں پیپلزپارٹی بھی شامل تھی لیکن 1997 ءکے انتخابات میں نواز شریف نے اپنی تواقعات سے زائد کامیابی حاصل کی۔ جی ڈی اے پیپلزپارٹی کی 19 نشستوں سمیت کل 30 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا تھا۔ 1999ءمیں پرویز مشرف کی جانب سے تختہ الٹنے کے بعد الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (اے آر ڈی) وجود میں آیا، اس میں پیپلزپارٹی،پی ایم ایل این سمیت پندرہ پارٹیاں شامل تھیں لیکن یہ الائنس اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا۔
2001ءمیں امتیاز شیخ ،ارباب غلام رحیم اور سید جلال محمود شاہ نے سندھ ڈیموکریٹ الائنس کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا لیکن یہ اتحاد بھی کوئی قابل ذکر کاکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا۔ 2002ءکے عام انتخابات سے قبل متحدہ مجلس عمل کے نام سے دینی جماعتوں کا ایک اتحاد وجود میں آیا، اس کو ایم ایم اے کا نام بھی دیاجاتا ہے، اس میں جمعیت علماءپاکستان، جمعیت علماءاسلام (ف) ،جماعت اسلامی،جمعیت علماءاسلام(س)،تحریک اسلامی، جمعیت اہلحدیث شامل تھیں، اس اتحاد نے 2002 ءکے الیکشن میں مناسب تعداد میں سیٹیں حاصل کیں لیکن غلط حکمت عملی کے باعث حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ 2002ءمیں ہی پونم کے نام سے پسماندہ ”قومیتوں“ کا اتحاد وجود میں آیا لیکن کارکردگی شاید صفر بھی نہ تھی۔ 2003 ءمیں اینٹی گریٹر تھل کینال الائنس وجود میں آیا جس میں پہلی بار جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی شامل تھیں۔ 2007ءمیں آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک اتحاد وجود میں آیا جس میں ایم کیو ایم کے علاوہ تقریباً تمام جماعتیں شامل تھیں اور اس کے چارٹر میں طے کیا گیا تھا کہ پرویز مشرف کے زیرنگرانی انتخابات میں حصہ نہیں لیا جائے گا اور ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد میں شامل کوئی بھی جماعت سیاسی اتحاد نہیں کرے گی، لیکن یہ اتحاد اپنے چارٹر پر عمل نہ کراسکا ۔جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ہی دو پارٹیاں تھیں جنہوں نے 2008ءمیں پرویز مشرف کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سمیت تمام جماعتوں نے اس اتحاد کے چارٹر سے انحراف کیا یوں یہ اتحاد بھی اپنی موت آپ مر گیا۔ 2008 ءمیں سندھ پروگریسیو نیشلسٹ اتحاد کا وجود عمل میں آیا لیکن یہ اتحاد بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا ۔
اب ایک بار پھر اتحادی سیاست کا گول ڈالا جا رہا ہے قومی عوامی تحریک کے سربراہ اور جوان اور متحرک وکیل ایاز لطیف پلیجو اس اتحاد کے تانے بانے بُن رہے ہیں اس سلسلے میں ان کے رابطے لبرل اور بائیں بازوں کی جماعتوں سے جاری ہیں اور مسلم لیگ فنکشنل کے پیرزادہ یاسر سائیں ،ایاز لطیف پلیجو سے ابتدائی ملاقات کر چکے ہیں جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی رابطے جاری ہیں۔ دوسری جانب متحدہ مجلس عمل کی بحالی کی کوششیں بھی شروع ہو چکیں لیکن متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں جو رکاوٹیں حائل ہیں ان میں سب سے بڑی رکاوٹ جمعیت علماءاسلام(ف) کا بیک وقت حسب اختلاف اور وزارتوں سے لطف اندوز ہونا شامل ہے۔ مولانا فضل الرحمن گزشتہ تقریباً 25 سال سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں لیکن کشمیر کے مسئلہ پر پیش رفت کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا ۔قائد حزب اختلاف کے انتخاب موقع پر جمعیت علماءاسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی نے سید خورشید احمد شاہ کو قائد حزب اختلاف بنانے کی درخواست پر دستخط کئے تھے، دوسری جانب اکرم درانی وزیر تعمیرات ہاو¿سنگ ہیں، یوں جمعیت علماءاسلام کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں۔ وہ حزب اختلاف کا حصہ بھی ہیں اور وزارتوں میں بھی موجود ،یہ وہ بڑی رکاوٹ ہے جو ایم ایم اے کی بحالی کی راہ میں حائل ہے۔ اب ایم ایم اے کی دیگر جماعتیں کیا فیصلہ کرتی ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن پاکستان میں اتحاد ی سیاست کبھی بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکی۔
٭٭….٭٭
تصحیح
پہلی قسط میں پاکستان قومی اتحاد کے صدر کا نام پیر صاحب پگارا لکھ دیا گیا ہے جبکہ مولانا مفتی محمود پاکستان قومی اتحاد کے صدر تھے۔ قارئین تصحیح فرما لیں،کالم نگار اس پر معذرت خواہ ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں