تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
وطن عزیز میں انتخاب کو سب سے بڑا تہوار اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ اس کو سب سے زیادہ لوگ مناتے ہیں اور دھن دولت بھی بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے تو اسے سب سے طویل تہوار بھی بنادیا یعنی بیالیس دنوں تک ان کے ساتھ لوگ اسے منائیں گے ۔ ویسے بیچارے تو سال بھر اس کے نشے میں دھت رہتے ہیں ۔ ملک کے ذرائع ابلاغ کی خاطر چونکہ یہ منافع خوری کا سب سے بہترین موقع ہوتا ہے اس لیے وہ جوش وخروش کے ساتھ اس میں جٹ جاتا ہے ۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ عوام بھی اپنا دکھ درد بھول کر اس میں غرق ہوجاتے ہیں ۔ معروف صحافی خشونت سنگھ نے بجا طور پر الیکشن کو ہندوستانی عوام کا افیون قرار دیا تھا ۔ 2024 میں ا س چلم وقفہ وقفہ سے 7 کش لگائے جائیں گے اور اس کا پہلا مرحلہ گزر گیا ہے ۔ پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کل 21 ریاستوں کے اندر جملہ 543 میں سے 102 حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے ۔ امیدواروں کے ذوق و شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس انتخابی دنگل میں جملہ 1625 امیدواروں نے قسمت آزمائی کی یعنی ایک انار اور 16سے زیادہ بیمار کا اوسط تھا۔ ملک میں فی الحال خواتین کی قوت کا بڑا غلغلہ ہے ساری سیاسی جماعتیں انہیں لبھانے کی سعی کررہی ہیں اس کے باوجود صرف 135 خواتین امیدوار وں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی شرکت صرف 8 فیصد سے کچھ ہی زیادہ ہے ۔
پہلے مرحلے میں جنوب کی ریاست تمل ناڈو کو ہی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہاں کے تمام 39 حلقوں کا معاملہ ایک جھٹکے میں نمٹ گیا اور وہ لوگ فارغ ہوگئے ۔ تمل ناڈو پر ایوان پارلیمان کی نئی عمارت کے افتتاح سے بی جے پی نے اپنی توجہ مرکوز کردی تھی۔ وہاں سے پنڈوں کو بلاکران کے ہاتھوں سے وزیر اعظم نے سینیگول کی علامت لی۔ اس طرح گویا پنڈت نہرو کے بعد انہوں نے اپنی تاجپوشی کروائی ۔ اس سال جب ان پر جنون سوار ہوا تو انہوں نے دو ماہ میں ٧ مرتبہ تمل ناڈو کا دورہ کرڈالا یعنی ہر ہفتہ وہاں پہنچ گئے حالانکہ بی جے پی اپنی تاریخ میں وہاں سے کوئی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔ بار بار تمل ناڈو جانے کی وجہ یہ تھی کہ پچھلی بار شمالی ہندوستان میں تو وہ زیادہ تر نشستیں جیت چکی تھی۔ انڈیا اتحاد بننے کے بعد ان میں لازمی کمی ہوگی۔ جنوب کی واحد ریاست کرناٹک سے اقتدار گنوانے کے بعد وہاں بھی اس کی حالت پتلی ہے اس لئے تمل ناڈو کے لوگوں کو بیوقوف بناکرخسارے کی بھرپائی کے لیے تمل ناڈو کا رخ کیا گیا ۔
بی جے پی کے اس منصوبے دو مشکلات نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کا کام کیا ۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کے بیٹے دیاندھی نے بی جے پی کو چھیڑنے کے لیے سناتن پر کڑی تنقید کردی ۔ مودی جی نے سوچا یہ اچھا موقع ہے ۔ اس ہتھیار کے ذریعہ پورے ملک میں حزب اختلاف کو بدنام کیاجاسکتاہے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ شمالی ہندوستان کے اندر تو اس مہم سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا مگر تمل ناڈو میں بی جے پی کی پرانی حلیف اے آئی ڈی ایم کے بی جے پی سے رشتہ توڑ لیا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ یہ احمق جماعت اپنے ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبے گی ۔ اس طرح بی جے پی کی حالت کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ والی ہوگئی یعنی جو ایک آدھ سیٹ دوسروں کی مدد سے نکلنے کی امید تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔
بی جے پی نے مودی کے دور میں دو احمق ترین برہمنوں کو گورنر بنایا ۔ ان میں سے ایک مہاراشٹر کے بھگت سنگھ کوشیاری اور دوسرے تمل ناڈو کے گورنر آر این روی ہیں ۔ کوشیاری کو ہٹا کر بی جے پی نے جو عقلمندی کا کام کیا وہ تمل ناڈو میں نہیں کرسکی اور اس سابق سرکاری افسر نے بی جے پی کی خوب مٹی پلید کرائی اور مودی کی محنت پر پانی پھیرتے رہے ۔انہوں نے اسمبلی میں پاس ہونے والے دس بل واپس کردئیے ۔ اس کے بعد افتتاحی خطاب پڑھنے سے انکار کردیا اور پھر ایک وزیر کی حلف برداری سے معذرت کرلی ۔ اس پر سپریم کورٹ کی زبردست پھٹکار کے بعد پونموڈی کی حلف برداری تو ہوگئی مگر ہر بار انہوں نے تمل وقار ٹھیس پہنچا کر عوام کوبی جے پی سے متنفر کرتے رہے ۔آر این روی کو بھی ہٹانے میں بی جے پی کی بھلائی تھی لیکن نہ جانے کیوں وہ ان سے ا پنا نقصان کرواتی رہی۔ بی جے پی کے حوالے سے روی پر غالب کا یہ شعر من و عن صادق آتا ہے
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
انتخاب کے نظام الاوقات کی تیاری کے دوران بی جے پی کو احساس ہوگیا کہ تمل ناڈو میں وزیر اعظم الٹے لٹک جائیں تب بھی دال نہیں گلے گی اس لیے ایک جھٹکے میں وہاں کا معاملہ نمٹا دیا گیا۔ بی جے پی نے پچھلی بار کیرالہ میں میٹرو مین ای شردی دھرن کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنادیا تھا لیکن وہ خود بھی الیکشن نہیں جیت سکے اور نہ کسی بی جی پی امیدوار کو کامیاب کرسکے ۔ اس بار تمل ناڈو میں ایک سابق سرکاری افسر اناملائی کولے کرمیڈیا میں وہی کھیل کھیلا گیا پھر بھی اگر وہ اپنی ضمانت بچا لے جائیں تو ان کی بڑی کامیابی ہوگی۔ گودی میڈیا میں دھوم مچانے والے سابق آئی پی ایس افسر انا ملائی نے سال 2019 میں سیاست میں داخل ہونے کے لیے نوکری چھوڑ دی تھی جسے قوم کے لیے بہت ہی عظیم قربانی کے طور پر پیش کیا گیا۔ بی جے پی کے اندر آج کل سارے بدعنوان لائن لگا کر اقتدار کی ملائی کھانے کے لیے داخل ہورہے ہیں اس لیے اناملائی کا بی جے پی میں آنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں تھا۔
بی جے پی نے ان کو تمل ناڈو شاخ کا صدر بنادیا کیونکہ وہاں پر نہ آر ایس ایس کی شاکھائیں ہیں اور نہ اس سے نکل کر آنے والے نیکر برداروں کا ٹولہ موجود ہے ۔انا ملائی نے پارٹی کی صدارت سنبھالنے کے بعد پہلے تو ڈی ایم کے پر بدعنوانی کے کئی الزام لگائے ۔ ان کی ویڈیو اور آڈیو وغیرہ کو میڈیا میں خوب اچھالا گیا۔ اس کے بعد کتھا تھیو جزیرے کا شوشہ بھی انہوں نے ہی چھوڑا ہوا ہے ۔ آگے چل کر اناملائی کو کوئمبٹو ر سے میدان میں اتار اگیا۔ اس سیٹ پر پہلے ڈی ایم کے حلیف سی پی آئی ایم کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی تھی اس لیے بی جے پی کو امید رہی ہوگی کہ وہ ایک کمزور امیدوار کو ہرانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ ڈی ایم کے اس سازش کو بھانپ گئی اور اس نے اناملائی کے مقابلہ میں امیدوار بدل کر اپنی پارٹی کے گنپتی پی راجکمار کو میدان میں اتار کر بی جے پی کا حساب کتاب بگاڑ دیا ۔ انا ملائی نے آئی آئی ایمـلکھنؤ سے ایم بی اے کی ڈگری کے ساتھ انجینئرنگ گریجویٹ کررکھا ہے تو راجکمار نے صحافت اور ماس کمیونیکیشن میں ڈاکٹریٹ کی
ڈگری حاصل کی ہے ۔ راجکمار کے میدان میں آتے ہی اناملائی کے لیے مشکلات کھڑی ہوگئیں کیونکہ موصوف کوئمبتور کے سابق میئر رہ چکے ہیں ۔
اس بار چونکہ بی جے پی کا اے آئی ڈی ایم کے کے ساتھ الحاق نہیں ہے اس لیے اس نے بھی اناملائی کے خلاف ریاست کے سب سے کم عمر سنگائی رام چندرن کو اپنا امیدوار بنادیا ۔ وہ بھی انا ملائی کی مانند آئی آئی ایم کے گریجویٹ ہیں اس طرح اناملائی کے تعلیمی امتیاز کا خاتمہ ہوگیا ۔ ان تینوں کے علاوہ علاقائی جماعت تاملار کاچو کے امیدوار کالمانی جگناتھ بھی میدان میں ہیں اور ان چاروں نے مقابلہ کو دلچسپ بنادیا ہے ۔ بی جے پی نے جب اس نشست پر کامیابی کو اپنے وقار کا مسئلہ بنایا تو ڈی ایم کے نے پانچ سو دنوں میں اپنے سو وعدے پورے کرکے کئی فلاحی اسکیموں کا آغاز کردیا ۔ ان میں سے ایک خواتین کے لیے بس میں مفت سفر کی سہولت ہے ۔ان یقین دہانیوں میں ایک ندیوں کی صفائی کا مسئلہ تھا اور دوسرے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا وعدہ بھی پورا کیا گیا۔ ڈی ایم کے اور کانگریس ایک زمانے میں سیاسی حریف تھے ۔ تحریک آزادی کے تجربہ کار کانگریسی رہنما کامراج جب ساڑھے نوسال تک وزیر اعلیٰ تھے تو ڈی ایم کے ان کی مخالف تھی مگر وقت کے ساتھ یہ دشمنی دوستی میں بدل گئی۔ موجودہ حکومت نے کانگریس کے کامراج کی یاد میں فوڈ وین شروع کر کے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا ۔
کوئمبتور چونکہ ایک صنعتی شہر ہے اس لیے ڈی ایم کے کی حلیف دائیں بازو کی تحریکات کا بھی وہاں اثرو رسوخ ہے ۔ ایسے میں مودی جی نے اپنے دورے کے دوران ہندو مسلم کارڈ کھیلتے ہوئے نہ صرف 2022 کے کار بم دھماکے کی یاد دلائی بلکہ 1998 کے سلسلہ وار بم دھماکوں میں مرنے والے 58 لوگوں کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا ۔ اس فرقہ وارانہ مہم کے خلاف وزیر اعلیٰ اسٹالن نے الزام لگایا کہ بی جے پی کی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے سبب یہ صنعتی شہر تباہ ہوگیا ہے اورجن صنعتوں پر ملازمت دینے کا اعلان کرنے والے بورڈ لگتے تھے اب نیلامی کا اشتہار لگارہا ہے ۔ بی جے پی نے تلنگانہ کے سابق گورنر اور پڈوچیری کے ایل جی تملسائی سوندرارجن کو بھی میدان میں اتار ہے جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ ان کا مقابلہ ڈی ایم کے کے موجودہ ایم پی تھمیزاچی تھنگا پانڈیان سے ہے لیکن جہاں انا ملائی کے امکانات کم ہوں بیچارے سوند راجن کیا کرلیں گے ؟ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بی جے پی تمل ناڈو میں اپنا کھاتہ نہیں کھول پائے گی اور بی جے پی کے ارمان آنسووں میں بہہ جائیں گے ۔