میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
منحرف ارکان عزت سے گھرجائیں،آرٹیکل 63اے پرجلدرائے دیں گے ،سپریم کورٹ

منحرف ارکان عزت سے گھرجائیں،آرٹیکل 63اے پرجلدرائے دیں گے ،سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
هفته, ۲۳ اپریل ۲۰۲۲

شیئر کریں

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ جمعہ کوسپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علی ظفر صاحب اگر اپ نے 10 منٹ میں مکمل نہ کیا تو پھر مخدوم علی خان کو سنیں گے، اس پر علی ظفر نے جواب دیا میں 10 منٹ میں اپنے دلائل مکمل کر لوں گا۔دلائل کا آغاز کرتے ہوئے وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ 63 اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا، 63 اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ 63 اے کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہو گا، ووٹ کاسٹ تو ضرور ہو گا لیکن اس کو گنا نہیں جائے گا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے کردار اور اہمیت پر عدالتی فیصلے موجود ہیں، آزاد اور سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈرز ممبر اسمبلی بنتے ہیں، 63 اے سیاسی جماعتوں کے ممبر سے متعلق ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا علی ظفر آپ کہہ رہے ہیں ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ میں عدالتی تشریح کے ذریعے استدعا کر رہا ہوں۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ انحراف کا فیصلہ پارٹی سربراہ نے کرنا ہے۔عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پر بھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا، پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا، انہوں نے کہا کہ قومی مفاد اور لعنت کو ختم کرنے کے لیے منحرف ووٹ کو نہیں گننا چاہیے۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کیا ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائیگا؟ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا، ووٹ نہ ڈالنے کی کوئی قدغن لگائی نہیں گئی، 63 اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی اسپیکر کو بتا سکتا ہے۔جسٹس جمال خان نے کہا کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد پارٹی سربراہ پہلے شوکاز نوٹس دے گا جواب لے گا، نوٹس کے بعد ملنے والے جواب سے پارٹی سربراہ مطمئن ہو کر شوکاز ختم بھی کر سکتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اپ کہہ رہے ہیں پارلیمانی پارٹی کی ہدایت اکثریت کی ہوتی ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے، تو لاش ملنے کے بعد ہی کاروائی ہو گی، آپ کہہ رہے ہیں بھٹو دور میں شامل کیے گئے ارٹیکل 96 کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، رضا ربانی اور فاروق نائیک کا کہنا ہے پارٹی سربراہ ان کے بے پناہ اختیارات کو روکنے کے لیے سزا واضح نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ فیصلہ سربراہ کرتا ہے یا پارلیمانی پارٹی کرتی ہے، پارلیمانی پارٹی میں فیصلہ سازی کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سیاسی پارلیمانی جماعت کا آئین ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں میں اکثریت فیصلہ کرتی ہے۔جسٹس جمال خان نے کہا کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی، سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں، ہمارے سامنے اکثر جماعتیں اپ کے موقف کے خلاف ہیں، آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر اپ کی بات مانیں گیے، صرف ایک سیاسی جماعت منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ تشریح کا حق عدالت کے پاس ہے، سمجھ سکتا ہوں کہ عدالت تشریح سے آگے نہیں جانا چاہتی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بڑا واضح ہے کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام ہے، تشریح کرنا عدالت کا کام ہے، آئین میں 63 اے شامل کرنے کا مقصد انحراف کے کینسر کو ختم کرنا تھا۔دریں اثنا عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کی۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کی جانب سے وکیل اظہر صدیق پیش ہوئے اور بیرسٹر علی ظفر کے دلائل اپنا لیے۔وکیل مسلم (ق) نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کے خلاف حفاظتی دیوار ہے، انہوں نے میثاق جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کے چیمپیئن بننے والوں نے مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا تھا، عملی طور پر جو کچھ کیا گیا وہ میثاق جمہوریت کے خلاف ہے۔بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کے سامنے اپنا دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹے میں دلائل مکمل نہیں کر سکوں گا۔چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اگلے 2 ہفتے بینچ دستیاب نہیں ہوگا، چاہتے ہیں آرٹیکل 63 اے پر جلد از جلد اپنی رائے دیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ 14 مئی کو بیرون ملک سے میری واپسی ہوگی جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اپنے دلائل کا خلاصہ بیان کر دیں پھر دیکھیں گے۔مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کی مدت 5 سال ہوتی ہے، منحرف رکن اسمبلی کی مدت تک ہی نااہل ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ آئین کی تشریح کا عدالتی اختیار ختم نہیں کیا جاسکتا، ماضی میں پارلیمنٹ عدالت کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کرتی رہی، عدالت نے کبھی اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔انہوںنے کہاکہ عمران خان نے آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے آئینی درخواست بھی دائر کی ہے، آئینی درخواست میں کوئی سیاسی جماعت یا منحرف رکن فریق نہیں، آئینی درخواست میں صرف منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی مانگی گئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی درخواست میں بھی اٹھایا گیا ہے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ ریفرنس میں پی ٹی آئی کہتی ہے منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، آئینی درخواست میں ووٹ شمار نہ کرنے کی استدعا نہیں کی گئی، ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا، عدالت نے اسمبلی بحال کرنے کا تاریخی فیصلہ دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ضمیر کے مطابق جو آئین کے تحت درست لگتا ہے وہ کرتے ہیں، دعا ہوتی ہے کہ ہمارے فیصلوں سے ملک میں بہتری ہو۔مخدوم علی خان نے کہا کہ فیصلہ خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو بغیر مزاحمت کے عمل ہونا چاہیے، عدالت کے سامنے اب کوئی مواد نہیں کہ اراکین کیوں منحرف ہوئے، رشوت لینے کے شواہد ہیں نہ ہی یہ معلوم ہے کہ ضمیر کی آواز پر منحرف ہوئے، رکن کیوں منحرف ہوا یہ شواہد دینا اس کا کام نہیں۔انہوں نے کہا کہ بعض آئینی ترامیم پر وکلا اور عوام نے احتجاج کیا، ساتویں ترمیم میں سول اداروں کی مدد کے لیے فوج طلب کرنے کی منظوری ہوئی، سول اداروں کی مدد کے لیے آئی فوج کے اقدامات کو عدالتی دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت صرف سوال کی حد تک آئین کی تشریح کر سکتی ہے؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ عدالت سے رائے مانگی گئی ہے، عدالت اپنا اختیار 184/3 میں استعمال کر سکتی ہے، آرٹیکل تریسٹھ اے پارٹی سے بے وفائی روکنے کے لیے نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا کام تمام آئینی سوالات کا جواب دینا ہے، جاننا چاہیں گے آرٹیکل 63 اے پر رائے کس حد تک دے سکتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں