کتوں کی دُعا۔۔۔!
شیئر کریں
پاکستانی ‘قومی ترانے’ اور ‘شاہنامہ اسلام’ جیسی مشہور و معروف نظم کے خالق ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم اپنی آپ بیتی بیان فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جب میری عمر بارہ سال تھی اوراِس کم سن عمر میں ہی مجھے شعر و شاعری کے مرض نے آلیاتھا۔اپنے شوق کی تسکین کے لیے اکثر نعت خوانی کی محفلوں میں چلا جاتا تھا۔میرے نعت خوانی کے شوق کی داستان جب میرے خالو تک پہنچی تو وہ ایک دن مجھے اپنے پیرومرشد سے ملاقات کروانے کے لیے شہر گجرات کے قریب قصبہ جلال پور جٹاں لے گئے۔یہ پُر انوار پیر و مرشد ایک کہنہ سال بزرگ تھے۔جن کا نام نامی حضرت قاضی عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ تھا اَسی پچاسی برس کی عمر تھی دُور دُور سے لوگ ان سے دینی اور دُنیوی استفادہ کی غرض سے آتے تھے۔خوش قسمتی سے اِس محفل میں پہلے ہی دن میں نے نعت سنا کر واہ واہ سبحان اللہ کے تحسین آمیز کلمات سمیٹ لیے۔پھر تو ہر روز نمازِ عشاء کے بعد میلاد کی بزم سجنے لگی اور مجھے نعت خوانی کا شرف ملتا رہا۔ایک دن حضرت قاضی صاحب کے پاس میں اوران کے بہت سے نیاز مند بیٹھے ہوئے تھے۔ السّلام علیکم کہتے ہوئے کندھوں پر رومال ڈالے سات آٹھ مولوی طرز کے معتبر آدمی کمرے میں داخل ہوکر قاضی صاحب سے مخاطب ہوئے۔ قاضی صاحب نے وعلیکم السلام اوربسم اللہ کہہ کر بیٹھ جانے کا فرمایا۔ہم سب ذرا پیچھے ہٹ گئے اورمولوی صاحبان تشریف فرما ہوگئے۔ان میں سے ایک صاحب نے فرمایا کہ حضرت!ہمیں ہزاروں مسلمانوں نے بھیجا ہے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ آپ اس ٹھنڈے ٹھار گوشے میں آرام سے بیٹھے رہتے ہیں۔ باہر خلق خدا مررہی ہے، نمازی اور بے نماز سب بارانِ رحمت کے لیے دعائیں کرتے کرتے ہار گئے ہیں۔ ہر جگہ نمازِ استسقاء ادا کی جارہی ہے۔ کیا آپ اورآپ کے ان مریدوں کے دل میں کوئی احساس نہیں ہے کہ یہ لوگ بھی اُٹھ کر نماز میں شرکت کریں اور آپ بھی اپنی پیری کی مسند پر سے اُٹھ کر باہر نہیں نکلتے،کہ لوگوں کی چیخ و پکار دیکھیں، اللہ تعالٰی سے دعا کریں تاکہ وہ پریشان حال انسانوں پر رحم کرے اور بارش برسائے۔مسکراتے ہوئے قاضی صاحب نے پوچھا”حضرات! آپ فقیر سے کیا چاہتے ہیں“۔ توان میں سے ایک مولوی صاحب نے کڑک کر فرمایا ”اگر تعویذ گنڈا نہیں تو کچھ دُعا ہی کردو۔ سُنا ہے پیروں فقیروں کی دُعا جلد قبول ہوتی ہے“۔یہ الفاظ مجھ نادان نوجوان کو بھی طنزیہ محسوس ہوئے تاہم قاضی صاحب پھر مسکرائے اور آپ نے جو جواب دیا وہ اس طنز کے مقابلے میں عجیب و غریب تھا۔قاضی صاحب نے فرمایا ”آپ کُتّوں سے کیوں نہیں کہتے کہ دُعا کریں“۔ یہ فرمانا تھا کہ مولوی صاحبان غضب میں آگئے اور مجھے بھی اُن کا غضب میں آنا قدرتی معلوم ہوا۔ اُن میں سے ایک نے کہا”حضرت! ہم تو کُتّے کی بولی نہیں بول سکتے۔ آپ ہی کُتّوں سے دُعا کرنے کے لیے فرمائیے۔“
مجھے اچھی طرح یاد ہے اورآج تک میرے سینے پر قاضی صاحب کا یہ ارشاد نقش ہے کہ ”حضرت! پہلے ہی کیوں نہ کہہ دیا، کل صبح تشریف لائیے اور کُتّوں کی دُعا ملاحظہ فرمائیے“۔مولوی صاحبان طنزاً مسکراتے ہوئے چل دئیے اور میں نے اُن کے الفاظ اپنے کانوں سے سُنے کہ ”یہ صوفی لوگ اچھے خاصے مسخرے ہوتے ہیں۔“جب مولوی صاحبان چلے گئے تو میرے خالو سے قاضی صاحب نے فرمایا کہ ”ذرا چھوٹے میاں کو بلائیے۔“ میرے خالو ان کے چھوٹے بھائی کو بلا لائے تو قاضی صاحب نے ان سے کہا”میاں کل صبح دو تین سو کُتّے ہمارے مہمان ہوں گے آپ کو تکلیف تو ہوگی بہت سا حلوہ راتوں رات تیار کرا لیجئے۔ ڈھاک کے پتوں کی ڈیڑھ دو سو طشتریاں شام ہی کو منگوا کر رکھ لیجئے گااور ڈیوڑھی کے باہر ساری گلی میں صفائی بھی کی جائے۔ کل نماز فجر کے بعد ہم خود مہمان داری میں شامل ہوں گے۔“چھوٹے قاضی صاحب نے سر جھکایا اگر چہ ان کے چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں تھے۔ میرے لیے تویہ باتیں تھی ہی پُراسرار، لیکن میرے خالو مسجد میں بیٹھ کر قاضی صاحب کے دوسرے مستقل نیاز مندوں اورحاضر باشوں سے چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ کل صبح واقعی کچھ ہونے والا ہے۔خدا خدا کر کے صبح ہوئی اور نماز فجر کے بعدمیری ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھا کہ اس گلی میں دونوں طرف یک منزلہ مکانوں کی چھتوں پر حیرت زدہ لوگ کُتّوں کی ضیافت کا کرشمہ دیکھنے کے لیے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ہم دونوں قاضی صاحب کا بھتیجا محمد اکرام اورمیں مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور یہاں سے گلی میں ہونے والا عجیب و غریب تماشا دیکھنے لگے۔
درویش طرز کے چند آدمی حلوے سے بھرے ہوئے بڑے تھال لاتے ہیں اور قاضی صاحب چمچے سے طشتری کو حلوہ سے پُر کرتے پھر دونوں ہاتھوں سے طشتری اٹھاتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گلی کے درمیان رکھتے جاتے۔ جب پوری گلی میں حلوے کی طشتریاں رکھی جاچکیں تو اُنہوں نے بلند آواز سے طشتریوں کو گِنا۔ مجھے یقین ہے کہ گلی میں دیواروں کی طرف پشت کیے کھڑے سینکڑوں لوگوں نے قاضی صاحب کا یہ فقرہ سُنا ہوگا:”کُل 122 ہیں۔“یہ کام مکمل ہوا ہی تھا کہ زور زور سے کچھ ایسی آوازیں آنے لگیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ اُس وقت مجھے اپنے بدن میں کپکپی سی محسوس ہونے لگی، میں نے گلی میں ہر طرف دیکھا تو عورتیں اور بچے اورمرد گلی میں اور کوٹھوں سے چیخ رہے تھے۔کیوں چیخ رہے تھے۔اس لیے کہ ایک کُتّا جس کو، جب سے میں یہاں وارد ہوا تھا، حویلی کے اِردگرد چلتے پھرتے اورمہمانوں کا بچا کچھا پھینکا ہوا کھانا کھاتے اکثر دیکھا تھا، بہت سے کُتّوں کو اپنے ساتھ لیے ہوئے گلی کی مشرقی سمت سے داخل ہوا۔جب کہ بے شمار کتّے اس کے پیچھے پیچھے گلی میں آئے تھے ان میں سے ایک بھی بھونک نہیں رہا تھا بھونکنا توکیا اس قدر خلقت کو گلی میں کھڑے دیکھ کر کوئی کتّا خوفزدہ بھی نہ تھا اورنہ کوئی غرّا رہا تھا۔ کتّے دو دو تین تین آگے پیچھے بڑے اطمینان کے ساتھ گلی کے اندر داخل ہو رہے تھے۔کتّوں کی یہ پُراسرار کیفیت دیکھ کر ساری خلقت نہ صرف پریشان تھی بلکہ دہشت زدہ بھی۔قاضی صاحب اگر اپنے ہونٹوں پر انگشتِ شہادت رکھ کر لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین نہ کرتے تو میں سمجھتا ہوں کہ گلی میں موجود سارا ہجوم ڈر کر بھاگ جاتا۔
گلی والا وہ کُتّا قاضی صاحب کے قدموں میں آکر دُم ہلانے لگا۔ قاضی صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ بھی مجھے حرف بہ حرف یاد ہیں۔ فرمایا ”بھئی کالو! تم تو ہمارے قریب ہی رہتے ہو، دیکھو، انسانوں پر اللہ تعالٰی رحمت کی بارش نہیں برسا رہا، اللہ کی اور مخلوق بھی ہم انسانوں کے گناہوں کے سبب ہلاک ہو رہی ہے۔ اپنے ساتھیوں سے کہو، سب مل بیٹھ کر یہ حلوہ کھائیں پھر اللہ سے دعا کریں کہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے بادلوں کو اجازت دے تاکہ وہ پیاسی زمین پر برس جائیں“۔یہ فرما کر حضرت قاضی صاحب اپنی ڈیوڑھی کے دروازے میں کھڑے ہوگئے اورمیں کیا سبھی نے ایک عجوبہ دیکھا۔ خدارا یقین کیجئے کہ ہر ایک حلوہ بھری طشتری کے گِرد تین تین کُتّے جُھک گئے اور بڑے اطمینان سے حلوہ کھانا شروع کر دیا۔ ایک بھی کُتّا کسی دوسری طشتری یا کتّے پر نہیں جھپٹا، اورنہ کوئی چیخا چلایااورجس وقت یہ سب کُتّے حلوہ کھا رہے تھے ایک اور عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آیا کہ وہ کتا جوان تمام کتّوں کو یہاں لایا تھا خود نہیں کھا رہا تھا بلکہ گلی میں مسلسل ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک گھومتا رہا، جیسے وہ ضیافت کھانے والے کتّوں کی نگرانی کررہا ہو یا میزبانی۔
تھوڑی دیر میں سب کُتّے حلوہ کھا کر فارغ ہوگئے بے شمار لوگوں نے ہجوم میں سے صرف حضرت قاضی صاحب کی آواز ایک مرتبہ پھر سنائی دی۔ وہ فرمارہے تھے،”لو بھئی کالو! ان سے کہو کہ اللہ تعالٰی سے دُعا کریں تاکہ خدا جلد ہی انسانوں پر رحم کرے“۔یہ سنتے ہی میں نے غیر ارادی طور پر ایک طرف دیکھا تو کل والے مولوی صاحبان ایک سمت کھڑے اس قدر حیرت زدہ نظر آئے جیسے یہ لوگ سکتے کے عالم میں ہوں۔جب قاضی صاحب نے ”کالو”کو اشارہ کیا۔ حیرت انگیز محشر بپا ہوا۔ تمام کتّوں نے اپنا اپنا مُنہ آسمان کی طرف اُٹھالیا اور ایک ایسی متحد آواز میں غُرانا شروع کیا جو میں کبھی کبھی راتوں کو سُنتا تھا۔ جسے سُن کر میری دادی کہا کرتی تھیں،”کُتّا رو رہا ہے خدا خیر کرے“۔آسمان کی طرف تھوڑی دیر مُنہ کیے لمبی غراہٹوں کے بعد یہ کتّے جو مشرقی سمت سے اس کوچے میں داخل ہوئے تھے۔ اب مغرب کی طرف چلتے گئے۔صرف میں ہی نہیں جلال پور جٹاں کے سبھی مردوزن کتّوں کو گلی سے رخصت ہوتے دیکھ رہے تھے اور حلوے کے خالی تھال آسمان کی طرف منہ کھولے گلی میں بدستور پڑے تھے۔
جونہی کُتّے گلی سے نکلے قاضی صاحب کے ہاتھ بھی دُعا کے لیے اُٹھ گئے اور ان کی سفید براق داڑھی پر چند موتی سے چمکنے لگے یقیناً یہ آنسو تھے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ میں جو آج ستّر برس اور گیارہ میہنے کابوڑھا بیمار ہوں خدا عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بادل گرجا اور مغرب سے اس تیزی کے ساتھ گھٹا اُمڈی کہ گلی ابھی پوری طرح خالی بھی نہ ہوئی تھی اورمرد،عورتیں، بچے بالے ابھی کوٹھوں سے پوری طرح اُترنے بھی نہ پائے تھے کہ بارش ہونے لگی۔ ہم بھی مسجد کی چھت سے نیچے اُترے۔ پہلے مسجد میں گئے اورپھر حلوہ کھانے کا شوق لیے ہوئے حویلی کی ڈیوڑھی میں چلے گئے۔ دیکھا کہ وہی معتبر مولوی صاحبان چٹائیوں پر بیٹھے ہیں اورحضرت قاضی صاحب حلوے کی طشتریاں ان لوگوں کے سامنے رکھتے جارہے ہیں۔ وہ حلوہ کھاتے بھی جارہے ہیں اورآپس میں ہنس کر باتیں بھی کررہے ہیں۔ باہر بارش ہو رہی تھی اوراندر مولوی صاحبان خوشی سے حلوہ اڑارہے تھے۔ قاضی صاحب کے جو الفاظ آج تک میرے سینے پر منقوش ہیں میں یہاں ثبت کیے دیتا ہوں اورمیرا ایمان ہے کہ یہی مقصود تھا۔قاضی صاحب نے کہا تھا”کُتّے مل جل کر کبھی نہیں کھاتے لیکن یہ آج بھلائی کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اللہ کے بندوں کے لیے دُعا کرنے کے لیے وہ اتنے متحد رہے کہ ایک نے بھی کسی دوسرے پر چھینا جھپٹی نہیں کی۔ ان کا ایک ہی امام تھا۔ اس نے کھایا بھی کچھ نہیں۔ اب وہ آئے گا تو میں اس کے لیے حلوہ حاضر کروں گا۔“ایک مولوی صاحب نے کہا”حضرت ہمیں تو یہ جادوگری نظر آتی ہے۔“ قاضی صاحب بولے ”مولوی صاحب! ہم تو آپ ہی کے فتوؤں پر زندگی گزارتے ہیں۔ خواہ اسے جادو فرمائیں یا نظر بندی آپ نے یہ تو ضرور دیکھ لیا ہے کہ کُتّے بھی کسی نیک مقصد کے لیے جمع ہوں تو آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں۔“ یہ سُن کر مولوی صاحبان جھینپ سے گئے۔ خدا کی قسم یہ عجوبہ اگر میں خود نہ دیکھتا تو کسی دوسرے کے بیان کرنے پر کبھی یقین نہ کرتا۔ یاد رہے کہ میں وہی حفیظ جالندھری ہوں جس کے بارے میں حضرت قاضی صاحب نے جلال پور جٹاں میں ساٹھ سال پہلے فرمایا تھا کہ”حفیظ!تیری لکھی ہوئی نعتیں دوسرے سنایا کریں گے“۔ کیا حفیظ جالندھری کے بیان کردہ اِس محیرالعقول سچے واقعے میں من حیث القوم بحران کی اِس مشکل گھڑی میں ہمارے لیے بھی کوئی سبق پوشیدہ ہے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔