
ٹرمپ:وائس آف امریکااورمیڈیاکی آزادی کابحران
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
وائس آف امریکاکاقیام1942میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کامقابلہ کرنے کیلئے کیاگیاتھا۔اس کابنیادی مقصد دنیابھرمیں آزاداورغیرجانبدارخبریں فراہم کرناتھا۔وقت کے ساتھ یہ ادارہ سردجنگ کے دوران کمیونزم کے خلاف مغربی نظریات کی ترویج کاایک اہم ذریعہ اورکمیونزم کے خلاف اہم ہتھیاربن گیا۔اس کی نشریات، بشمول اردو،پشتو،دری،اورچینی سمیت50 زبانوں میں نشرکی جاتی ہیں۔2014میں پاکستان کیلئے اردوزبان میں اس کاآغازکیاگیاجسے مقامی صحافیوں نے آزادانہ خبررسانی کابہترین ذریعہ قراردیا۔آج کے دورمیں،”وی اواے” کاکروڑوں افرادتک معلومات پہنچاتاہے۔بی بی سی ورلڈسروس کی طرح،یہ بھی حکومتی فنڈنگ پرچلنے والاایک میڈیاادارہ ہے، جس کامقصد بین الاقوامی سطح پرامریکاکی ترجمانی کرناہے۔
صدرڈونلڈ ٹرمپ نے17مارچ2025کوپرزیڈنشل آرڈرپردستخط کرتے ہوئے یوایس ایجنسی فارگلوبل میڈیا(US Agency for Global Media)کی فنڈنگ بندکردی ہے۔اس ایجنسی کے تحت وائس آف امریکا،ریڈیوفری یورپ،اورریڈیو فری ایشیاجیسے ادارے چلتے ہیں۔صدارتی حکم نامے کے بعدوائس آف امریکانے پاکستان، ایران اورافغانستان کے200سے زائدملازمین کومعطل کر دیا ہے۔آج کے دورمیں”وی اواے” نشریات کے ذریعے کروڑوں افرادتک معلومات پہنچاتاہے۔بی بی سی ورلڈ سروس کی طرح،یہ بھی حکومتی فنڈنگ پر چلنے والاایک میڈیاادارہ ہے،جس کامقصد بین الاقوامی سطح پرامریکاکی ترجمانی کرناہے۔
وائٹ ہاؤس نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہاکہ ٹیکس دہندگان کاپیسہ بنیادپرست اوربائیں بازوکے پروپیگنڈے اورٹرمپ مخالف بیانیہ کی تشہیرپرنہیں لگایاجائے گا۔اس صدارتی حکم نامے کے بعدفوری طورپرپاکستان سمیت دنیابھرمیں تین ہزارسے زائد ملازمین کوانتظامی چھٹی پربھیج دیاگیاہے۔40زبانوں میں نشرہونے والے50سے زائد ملکوں میں کروڑوں سامعین اس سے متاثر ہوئے ہیں۔اردوسروس کے پروگرام حقائق کی تلاش،آزادی کی آوازاورچین میں سنسرشپ کے خلاف چینی پروگرام سمیت تمام پروگرام روک دیئے گئے ہیں جس کے بعدبین الاقوامی میڈیا گروپس آرایس ایف (RSF)اورسی پی جے (CPJ)نے اس اقدام کوعوامی معلومات تک رسائی پر حملہ قراردیاہے جبکہ وائٹ ہاس کے مطابق وی اواے کی بندش کیلئے بطوردلیل یہ کہاہے کہ انتخابات کے دوران فیک نیوزکے ذریعے متعصبانہ کاروائی کوفروغ دیاگیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وی اوا ے پر”ٹرمپ مخالف”اور”بنیادپرست”ہونے کاالزام عائدکرتے ہوئے اس کی فنڈنگ ختم کرنے کا حکم نامہ جاری کیاہے۔اس فیصلے کے نتیجے میں وی اواے کے پاکستان سمیت دنیابھرمیں موجودعملے کوانتظامی چھٹی پربھیج دیا گیاہے۔یہ حکم وی اواے کے ماتحت ادارے،یوایس ایجنسی فارگلوبل میڈیا(یوایس اے جی ایم)کونشانہ بناتاہے،جوریڈیوفری یورپ اور ریڈیوفری ایشیا جیسے اداروں کوبھی فنڈفراہم کرتاہے۔
وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ فیصلہ اس بات کویقینی بنانے کیلئے کیاگیاہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم کسی بھی”بنیادپرست پروپیگنڈے”پرخرچ نہ ہو۔بیان میں وی اواے کوایک جانبدارادارہ قراردیاگیاہے جودائیں بازوکے سیاستدانوں کے مطابق”بائیں بازوکے نظریات کی ترویج”میں ملوث ہے۔وائٹ ہاؤس کایہ بھی کہناہے کہ عوام کے پیسے سے چلنے والے ادارے کو مکمل طورپرغیرجانبدارہوناچاہیے اوراسے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جانے کی بجائے ملک کے مفادات کواجاگرکرناچاہیے۔
ٹرمپ اپنے دورِاقتدارکے دوران ”وی اواے ”پرکڑی تنقیدکرتے رہے ہیں۔ان کے مطابق یہ ادارہ ان کی انتظامیہ کے مؤقف کی درست عکاسی نہیں کرتااور”امریکامخالف بیانیہ”کوفروغ دیتاہے۔ان کاکہناہے کہ ”وی اواے ”بعض اوقات غیرملکی حکومتوں کے حق میں ایسے بیانیے کوآگے بڑھاتاہے جوامریکی مفادات کے خلاف ہوتاہے۔کچھ رپورٹس کے مطابق،ٹرمپ انتظامیہ نے اس ادارے کی خبروں میں بارہاسیاسی مداخلت کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے اپنی پالیسیوں کے مطابق ڈھالاجاسکے۔
وی اواے کے ڈائریکٹرمائیکل ابرامووٹزنے کہاکہ وہ ان1,300/افرادمیں شامل ہیں جنہیں ہفتے کوچھٹی پربھیجاگیاتھا۔ مائیکل کے مطابق”مجھے دکھ ہے کہ83سالوں میں پہلی دفعہ وائس آف امریکاکوخاموش کیاجارہاہے۔اس حکم نے خاص طور پرآج کے دورمیں” وی اواے ”کواپنے”اہم مشن کوانجام دینے میں ناکام بنادیاہے…جب،ایران،چین اورروس جیسے امریکاکے مخالفین،امریکاکوبدنام کرنے کیلئے جھوٹے بیانیے تیارکرنے میں اربوں ڈالرخرچ کررہے ہیں”۔
امریکی صدراپنے پہلے دورِاقتدار کے دوران وی اواے پرسخت تنقیدکرتے دکھائی دیتے تھے۔ان کاتازہ فیصلہ ایسے وقت آیاہے جب قدامت پسند حلقے ان نیوزسروسزپر تنقید کرتے رہے ہیں،جبکہ کچھ ماہرین کاکہناہے کہ یہ ادارے دنیابھرمیں آزادصحافت کے فروغ میں اہم کرداراداکررہے ہیں۔نیشنل پریس کلب،جوکہ امریکی صحافیوں کیلئے ایک سرکردہ نمائندہ گروپ ہے،نے ایک بیان میں کہاکہ یہ حکم آزاداورخودمختارپریس کیلئے امریکاکے دیرینہ عزم کوکمزورکرتاہے۔بیان میں کہاگیاہے”ایک پورے ادارے کوٹکڑے ٹکڑے کرکے ختم کیا جا رہا ہے۔یہ صرف عملے کوہٹانے کافیصلہ نہیں ہے، یہ” وی اواے ”میں آزادصحافت کے مستقبل کوخطرے میں ڈالنے والی ایک بنیادی تبدیلی ہے۔دریں اثناجمہوریہ چیک کے وزیرخارجہ جان لیپاوسک نے کہاکہ انہیں امیدہے کہ یورپی یونین ریڈیوفری یورپ/ریڈیولبرٹی کوپراگ میں چلانے میں مددکرسکتی ہے۔وہ پیرکوہونے والی میٹنگ میں یورپی وزرائے خارجہ سے کہیں گے کہ وہ براڈکاسٹرکی کارروائیوں کو کم ازکم جزوی طورپربرقراررکھنے کے طریقے تلاش کریں۔
اس صدارتی حکم نامے کے بعد اس پرتنقیداوردفاع میں مختلف بیانات سامنے آرہے ہیں۔وی اواے کے ڈائریکٹررابرٹ للی اور ماہرین نے اسے آزادی اظہارپرحملہ قراردیاہے جبکہ میڈیاماہرین اسے غیرجانبداری سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ٹرمپ کے حامیوں کا کہناہے کہ وی اواے امریکی مفادات کے خلاف کام کررہاہے جبکہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ٹرمپ کے فرسٹ امریکاپالیسی کی حمائت کی جائے۔وی اواے کی فنڈنگ کی بندش پربین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آرہاہے جس میں امریکی صحافت میں غیرجانبداری اورآزادی کے اصولوں پرسوالات اٹھائے جارہے ہیں۔اگر حکومتی ادارے آزاد میڈیاکومحدودکرتے ہیں،تویہ مستقبل میں دیگرمیڈیاہاسزکیلئے بھی خطرہ بن سکتاہے۔وی اواے بین الاقوامی سطح پرامریکی پالیسیوں کواجاگرکرنے اورجمہوری اقدارکے فروغ میں ایک اہم کردارادا کرتاہے۔اس ادارے کی بندش سے امریکاکی عالمی ساکھ پرمنفی اثرپڑسکتاہے،خاص طورپران ممالک میں جہاں آزادصحافت پہلے ہی دباؤ کا شکارہے۔
پاکستان اوردیگرممالک پربھی اس کے نمایاں اثرات دیکھنے کوملیں گے۔وی اواے کی نشریات پاکستان،بھارت،مشرق وسطی،اور افریقامیں لاکھوں افرادسنتے ہیں۔اس ادارے کے کمزورہونے سے وہاں خبریں فراہم کرنے کے ذرائع محدودہوسکتے ہیں اورمتبادل میڈیاپلیٹ فارمزپردباؤبڑھ سکتاہے۔وی اواے کی بندش کافیصلہ امریکی سیاست میں مزید تقسیم پیداکرسکتاہے۔دائیں بازوکے سیاستدان اورقدامت پسندمیڈیااس فیصلے کوحکومتی اصلاحات کے طورپرپیش کریں گے،جبکہ لبرل حلقے اورآزادی صحافت کے حامی اس کی مذمت کریں گے گویاامریکی سیاست میں پولرائزیشن کاخدشہ بڑھ گیاہے۔ادھربرطانیہ نے وی اواے کی بندش کے بعداس خلاکو پرکرنے کیلئے بی بی سی ورلڈسروس کے بجٹ میں 200ملین پاؤنڈکااضافہ کردیاہے اوروی اواے کے سامعین کواپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے اردواورپشتومیں نشریات میں اضافہ کردیاہے۔
ٹرمپ کے مشیراوردنیاکے امیرترین شخص ایلون مسک بھی وی اوایکوبندکرنے کی حمایت کرچکے ہیں۔اپنے سوشل میڈیاپلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر)پرمسک نے سرکاری اخراجات میں کمی اورحکومتی اداروں کے سائزکومحدود کرنے کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔ان کا مؤقف ہے کہ میڈیاکوآزادہوناچاہیے لیکن اسے حکومت کی فنڈنگ پرانحصارنہیں کرناچاہیے۔ان کے مطابق،حکومت کے زیرِنگرانی چلنے والے میڈیاادارے اکثرغیرمؤثرہوتے ہیں اورمخصوص سیاسی ایجنڈوں کے تحت کام کرتے ہیں۔
وی اواے کی بندش پرعالمی ردعمل اورمستقبل کے امکانات پرایک نئی بحث کاآغازہوگیاہے جس پرمیڈیاماہرین کاکہناہے کہ وی اواے کے متعلق مجوزہ صدارتی حکم پرعالمی طورپر امریکی ثقافتی اثرورسوخ کافی کمزورہوجائے گااوریقینابی بی سی اوردیگر عالمی ادارے اس خلاکوپرکرنے کی کوششیں تیزکردیں گے۔
ایلون مسک،جوٹرمپ کے انتخابی مہم کے اہم عطیہ دہندگان میں شامل ہیں،نے سرکاری اداروں کے حجم کم کرنے کی پالیسی کی حمایت کی ہے۔تاہم ایلون مسک پہلے ہی اپنے ادارے ایکس ٹوئیٹرپروی اواے کابائیکاٹ کرچکے ہیں اورٹرمپ اس آئیڈیاسے پہلے ہی بہت متاثرتھے جس کی بناپریہ حکمنامہ جاری کیاگیا۔ٹرمپ کی جانب سے کارپوریٹ ٹیکس میں کمی کی بناپرمسک کی کمپنیاں(ٹیسلا،اسپیس ایکس) کو فائدہ پہنچاہے اورمسک کوریگولیٹرریلیف سے خلائی اورخودکارگاڑیوں کے شعبوں میں حکومتی پابندیوں میں بھی نرمی کی توقع ہے۔ٹرمپ کی انتخابی مہم میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ایلون مسک کے حصے میں آئی اوریقینا دنیا کی امیرترین شخصیت نے بھاری سرمایہ کاری جن مقاصدکیلئے کی ہے،اس کے فوائد سمیٹنے کیلئے بھی اس کی کوئی پلاننگ ضرورہے۔مسک سمجھتے تھے کہ اگرٹرمپ دوبارہ منتخب ہوتے ہیں،تومسک کو ناسا کے کنٹریکٹس اورڈیٹاپراجیکٹس میں ترجیح مل سکتی ہے۔
یہ بھی قیاس کیاجارہاہے کہ ایلون مسک اورٹرمپ کے درمیان قریبی تعلقات کی وجہ2021میں ٹرمپ کے ٹویٹراکانٹ کی بحالی سے شروع ہوئے اوربعدازاں مسک نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں15ملین ڈالرکاعطیہ بھی دیا۔ٹرمپ کی ممکنہ انتخابی کامیابی سے مسک کوحکومتی پالیسیوں میں زیادہ اثرورسوخ حاصل ہوگیااورٹرمپ کی کامیابی میں ایلون مسک کے اس تعاون کی بناپراسے کابینہ کابھی حصہ بنالیاگیااوراہم حکومتی ادارہ اس کے سپردکیاگیا۔ٹرمپ پالیسیوں سے ہم آہنگی کی بنیادپرایلون مسک کی کمپنیوں کوکارپوریٹ ٹیکس میں35فیصد کی کمی کی بناپر7سوملین ڈالرتک کی چھوٹ مل گئی ہے اوریہ بھی توقع کی جارہی ہے کہ ناسا کے خلائی پروگرام میں بھی مسک کی کمپنی کو3بلین ڈالرکے قریب کنٹریکٹ مل سکتے ہیں۔ مسک کی طاقت کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کیلئے سوشل میڈیامہم کی قیادت جس بھرپوراندازمیں مسک نے کی ہے،اس کے پیشِ نظراسپیس ایکس کو2030تک ”مارس مشن”میں مریخ پرکالونی بنانے کاٹاسک بھی ملنے کی توقع ہے۔مسک کی کمپنیوں کوحکومتی معاہدوں اورسبسڈی کے ذریعے زیادہ مزیدمراعات ملنے کابھی امکان ہے۔
ادھر حال ہی میں مسک اپنی کمپنی ٹیسلاکے ملازمین اپنے ایک ای میل پیغام میں لکھاہے کہ”گزشتہ ہفتے کتناکام کیا؟ہفتے میں کم ازکم 40 گھنٹے دفترمیں گزارو،ورنہ استعفٰی سمجھاجائے گا”۔جس پرلیبر یونین نے اسے ملازمین کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید تنقیدکانشانہ بنایاہے اورحکومتی ملازمین کے ساتھ ایک کشمکش کادورشروع ہوگیاہے ۔ دوسری طرف ایک رپورٹ کے مطابق ایلون مسک کی تمام سرگرمیوں کی معلومات ٹرمپ کودی جاتی ہیں جس کے بعدتوقع کی جارہی ہے کہ ایلون مسک کے اختیارات میں کمی آسکتی ہے۔
یادرہے کہ آج سے40سال قبل جاپانی مصنوعات بالخصوص آٹوموبیل کاروں(ٹویوٹا،ہنڈا)اورالیکٹرانکس(سونی)نے امریکا کی مارکیٹ پرقبضہ کرلیاتھاجس سے امریکاکو 50 بلین ڈالرکاتجارتی خسارہ ہوتاتھا۔تجارتی خسارے نے امریکاکومجبورکیاتھاکہ وہ
اگریسوٹریڈ پالیسیزاپنائے۔امریکانے جاپان کوغیرمنصفانہ تجارتی شرائط کاذمہ دارٹھہراتے ہوئے 25 ٪ٹیرف عائدکردیاتھا۔جس کے جواب میں1980کی دہائی میں امریکانے سٹیل اورایلومینیم پر25فیصدٹیرف بڑھادیاجس کے جواب میں جاپان نے ڈھائی فیصدٹیرف بڑھایاتاہم اس سے امریکاکو2018بلین ڈالرکے اضافی ٹیکس کافائدہ ہوا۔
اسی طرح ٹرمپ کی طرف سے جاپان کی طرح چینی مصنوعات پرٹیرف بڑھانے کانعرہ لگایاگیا اورحال ہی میں چینی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف بڑھانے کااعلان کیاگیاجس کے جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر10٪ٹیرف بڑھادیاہے۔ٹرمپ موجودہ دور میں چین کونیاجاپان قراردیتے ہوئے چینی ٹیکنالوجی پرٹیرف میں اضافہ کرکے وہی مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں لیکن چین نے ردعمل کے طور پرامریکی مصنوعات پربھی اتناہی ٹیرف بڑھانے کااعلان کیاہے جس قدرامریکاچینی مصنوعات پرٹیرف بڑھائے گا۔
یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ چین اورروس نے عالمی مارکیٹ سے بھاری تعدادمیں سوناخریدکراپنے ذخائرمیں کافی اضافہ کر لیاہے اورروسی صدپیوٹن نے2023میں سونے کے ذخائرمیں اضافہ کی بنیادپرمشترکہ کرنسی کااعلان بھی کردیاہے اورماہرین یہ توقع کررہے ہیں کہ2025تک برکس کرنسی کاخاکہ پیش کیاجاسکتاہے،اورڈالرکی بالادستی برقرار رہنے کاامکان متزلزل ہوسکتاہے۔ ڈالرکے متبادل کی حقیقت اس وقت سامنے آئی کہ چین جلدہی اپنی کرنسی یوآن کوعالمی کرنسی بنانے کی کوشش کرنے والاہے اور چین نے19 ممالک کے ساتھ یوآن میں تجارتی معاہدوں کاآغازکردیاہے۔
2023تک یوآن کاعالمی تجارت میں3حصہ دیکھنے میں آیاہے لیکن اس کے باوجودماہرین کاکہناہے کہ فی الحال ڈالرکے متبادل چین اورروس کی طرف سے یوآن کوبطورعالمی کرنسی متعارف کرانے سے معاشی اہداف مکمل طورپرحاصل نہیں ہوسکتے اور یہی وجہ ہے کہ امریکانے سوئفٹ سسٹم کوتبدیل کرنے کی ہرکوشش کواپنے خلاف معاشی جنگ قرار دیاہے۔ادھرٹرمپ نے ڈالرکی بالا دستی قائم رکھنے کیلئے برکس ممالک(برازیل،روس،بھارت،چین،جنوبی افریقا)کومتنبہ کیاہے کہ ڈالرکے متبادل کی کوششیں امریکاکے خلاف جنگ تصورکی جائیں گی۔ تاہم امریکاخطے میں بھارت کوچین اورپاکستان کے ساتھ سرحدی اورسیاسی تنازعات کی وجہ سے استعمال کررہاہے اورچین کی تجارتی ناکہ بندی کیلئے” کواڈ ” جیسے اتحادپربھی سرگرم ہے لیکن اب امریکی تجارتی ماہرین بھی سمجھ گئے ہیں کہ انہوں نے بھارت جیسے لنگڑے گھوڑے پربھروسہ کرکے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوالیکن اس کے مقابلے میں بھارت بے شمار فوائدسمیٹ چکا ہے۔اس وقت عالمی منڈی کے حالیہ اعدادوشمارکے مطابق عالمی ریزرومیں ڈالرکا59فیصدجبکہ یوآن کا28فیصدحصہ ہے۔امریکانے اپنے سوفٹ سسٹم کوبہتربنانے کیلئے مزید1.3 بلین ڈالرمختص کئے ہیں تاکہ عالمی طورپرڈالرکی بالادستی قائم رہے جبکہ برکس کی مشترکہ کرنسی کے اجرا میں حائل مزید رکاوٹیں ابھی باقی ہیں۔
ٹرمپ کی جانب سے وی اواے کی فنڈنگ روکنے کافیصلہ ایک انتہائی اہم اورمتنازع اقدام ہے،جس کے سیاسی اورسفارتی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔وی اواے کی بندش پرعالمی ردعمل اورمستقبل کے امکانات پرایک نئی بحث کاآغازہوگیاہے جس پرمیڈیاماہرین کاکہناہے کہ ٹرمپ کے اقدامات نے ایک طرف میڈیاکی آزادی کومجروح کیاہے،تودوسری طرف اس سے نہ صرف امریکی میڈیا کی غیرجانبداری پرسوالات اٹھیں گے بلکہ عالمی سطح پرامریکی اثرورسوخ پربھی گہرااثرپڑسکتاہے۔یہ معاملہ اس بات کاعکاس ہے کہ امریکامیں
میڈیا اورحکومت کے تعلقات کس حدتک سیاسی رنگ اختیارکرچکے ہیں۔مستقبل میں،اس فیصلے کے اثرات دور رس ہوسکتے ہیں،خاص طورپراس حوالے سے کہ کس طرح سرکاری میڈیاکوحکومتی پالیسیوں سے آزادرکھاجائے۔
وی اواے کے متعلق مجوزہ صدارتی حکم پرعالمی طورپرامریکی ثقافتی اثرورسوخ کافی کمزورہوجائے گااوریقینا بی بی سی اوردیگرعالمی ادارے اس خلاکوپرکرنے کی کوششیں تیزکردیں گے۔ٹرمپ کے اقدامات نے نہ صرف میڈیا کی آزادی پرسوالات کھڑے کیے ہیں بلکہ ایلون مسک جیسی شخصیات کوبے پناہ طاقت دی ہے۔جاپان کے تاریخی تجربات اوربرکس کی کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ معاشی اورثقافتی جنگ کانیادورشروع ہوچکاہے۔آنے والے سالوں میں یہ تنازعات امریکاکی عالمی قیادت کیلئے فیصلہ کن ثابت ہوں گے اوریہ بھی ممکن ہے کہ جاری امریکی پالیسیاں زوال کے عرصے کومختصرکردیں۔تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ ہرعروج کوزوال ہے۔