اِس حادثہ وقت کو کیانام دیا جائے
شیئر کریں
راؤ محمد شاہد اقبال
سیاست ”ساس” سے مشتق ہے ،جو یونانی زبان کا لفظ ہے اور اِس کے معنی شہر اور شہر نشین کے ہیں ۔نیز، اصطلاحی معنوں میں حکومت کرنے کا فن اور لوگوں کو اَمن سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کا نام سیاست ہے۔ جبکہ اِس فن کے اسراررموز جاننے والے کو سیاست دان کہا جاتاہے۔ دراصل سیاست سماج میں نظم وضبط قائم کرنے کی ایک اجتماعی سرگرمی ہے۔لہٰذا، جب بھی کوئی سیاسی جماعت معرض وجود میں لائی جاتی ہے تو اُس کے بنانے والے زیادہ سے زیادہ عام لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے اپنی سیاسی جماعت کے منشور میں چُن چُن کر اعلیٰ آدرش ،شامل کرتے ہیں ۔اگر آپ دنیا کی کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور کو اُٹھاکر پڑھنا شروع کریں تو ایسا محسوس ہوگاکہ جیسے آپ کسی اخلاقی صحیفہ کا مطالعہ کررہے ہیں ۔کیونکہ ہر سیاسی جماعت کے منشور میں جابجا انسانی حقوق، اَمن و آشتی ،مساوات اور انصاف کی گردان ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے ابتدائی سیاسی نعرے بھی جمہوری اور پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے فساد فی الارض کو ختم کرنے کے پختہ عزائم کا اظہاریہ لیے ہوتے ہیں ۔مگر جیسے جیسے ایک سیاسی جماعت کو عوامی مقبولیت اور عددی برتری حاصل ہونے لگتی ہے ، ویسے ویسے اُس جماعت کی قیادت خبط ِ عظمت کا شکار ہوکر اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے اعلیٰ و ارفع سیاسی منشور کو فراموش کرتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ جب وہ سیاسی قیادت شہرت ، مقبولیت، عوامی رُسوخ اور اقتدار کی حرص میں مبتلا ہوکر اپنے سیاسی منشور کو اپنے ہاتھ سے ہی پھاڑ کر کوڑے دان کی نذرکردیتی ہے۔ ماضی میں کئی سیاسی جماعتیں عروج و زوال کے اِن عبرت ناک مراحل سے گزر چکی ہیں اور آج کل پاکستان تحریک انصاف بھی اُن ہی گم کردہ راہوں کی مسافربنی ہوئی ہے ،جن تاریک راہوں پر چلنے والوں کی مخالفت میں اِس جماعت کے سربراہ نے اپنی جمہوری سیاسی جدوجہد کا آغازکیاتھا۔
بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے صرف دودہائی قبل کا واقعہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے بانی ایم کیوایم کی جانب سے شہر کراچی میں روارکھی جانے والی پرتشدد سیاست کے خلاف عَلم بغاوت بلند کرکے پاکستانی عوام کے سامنے اپنے بھرپور سیاسی عزائم کا کمال بہادری اور جواں مردی کے ساتھ کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں اور میری جماعت بانی ایم کیوایم کی ریاست ِ پاکستان کے خلاف شروع کی جانے والی پرتشدد سیاست کے خلاف ملک بھر میں سیاسی جدوجہد شروع کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے خلاف لندن میں بھی قانونی جنگ کرے گی”۔یاد رہے کہ عمران خان نے بانی ایم کیوایم کے خلاف لندن میں قانونی معرکہ چھیڑ کربانی ایم کیو ایم کے جس سیاسی زوال کے تابوت میں پہلی کیل ٹھونکی تھی، اُس تابوت میں آخری کیل گزشتہ دنوں لندن جائیداد کے مقدمہ میں تاریخی شکست کی صورت میں لگائی جاچکی ہے ۔ مگر یہاں سب سے زیادہ فکر اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ بانی ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی رِٹ کو چیلنج کرنے کا جو بیانیہ کبھی عمران خان نے بنایا تھا،آج بالکل ویسا ہی اظہاریہ، خود عمران خان کے اپنے خلاف بھی ملک بھر میں بننا شروع ہوگیاہے۔
لطیفہ ملاحظہ ہو کہ کل جن سیاسی حرکتوں پر عمران خان، بانی ایم کیوایم اور اُن کی جماعت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا کرتے تھے ، آج وہی سب کچھ اُن کی اپنی جماعت فخریہ انداز میں کر رہی ہے۔ یعنی عدالتوں سے راہ فرار اختیار کرنا، پولیس پر تشدد کے لیے کارکنان کو اُکسانا ، سیاسی احتجاج میں جلاؤ گھیراؤ کا تڑکا لگانا اور بیرون ملک قومی ریاستی اداروں کے خلاف منظم اور بھرپور انداز میں نفرت آمیز پروپیگنڈا مہم چلانا ۔ سب سے بڑھ کر زمان پارک کو نوگو ایریا میں تبدیل کرنا ۔یقینا زمان پارک کو نو گو ایریا بنانے کی ضد کے پیچھے عمران خان کے پاس بہت سے خود ساختہ لایعنی جواز ہیں لیکن وہ تمام وجوہات کم وبیش و ہی ہیں، جو کبھی بانی ایم کیوایم یا اُن کے ترجمان پیش کیا کرتے تھے۔ مانا کہ ابھی پاکستان تحریک انصاف، تشدد آمیز سیاست کے اُس ساتویں آسمان پر نہیں پہنچی ہے ، جس پر بانی ایم کیو ایم کی جماعت ایک زمانے میں جاپہنچی تھی ۔ مگر زادِ راہ سفر بتا رہا ہے کہ اگر مسافر کو بروقت رُکنے پر آمادہ نہیں کیا گیا تو یہ راہی بھی اُسی منزل پر بالآخر ایک نہ ایک دن ضرور جا پہنچے گا ،جس پر پہنچ کر پچھلا مسافر پچھتا رہا ہے۔
عمران خان کا دیرینہ موقف ہے کہ لوگوں کی اکثریت چونکہ اُن کے بیانیہ کے ساتھ کھڑی ہے،اس لیے ریاست پاکستان کو اُن کی مرضی و منشا کے مطابق چلنا چاہئے ۔ مگرماضی میں عوام کی غیر معمولی حمایت تو بانی ایم کیو ایم کو بھی حاصل تھی اور عین ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں کسی اور سیاست دان کو مذکورہ بالا سیاسی قائدین سے بھی زیادہ فقید المثال عوامی آشیر باد حاصل ہوجائے تو کیا پھر ریاستی اُمور نبٹانے کے لیے ریاست کو پہلے اُس مقبول عوامی رہنما سے دست بستہ پیشگی اجازت لینا ہوگی ؟اس سوال کا مختصراً جواب بس یہی دیا جا سکتاہے کہ کوئی بھی انتظامی کام انجام دینے سے قبل درخواستیں پیش کرنا یا کسی بھی سمت کوئی بھی انتظامی قدم اُٹھانے سے پہلے اذنِ باریابی حاصل کرنا،شاید دنیا کا کوئی بھی ریاستی ڈھانچہ افورڈ نہیں کر سکتا۔ دراصل ریاست نام نہاد مقبول سیاسی رہنما کی جائز سیاسی و انتظامی خواہشات تو ضرور پورا کرسکتی ہے ،لیکن ناجائز نہیں ۔ یہ بالکل ایسے ہی جیسے پانچ وقت مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے بعد پیش اِمام صاحب دُعا کرتے ہوئے باآواز بلند صدا لگاتے ہیں کہ ”ا ے اللہ رب العزت ، ہم حاضرین کی تمام جائز حاجات اور تمناؤں کو پورا فرما”۔ ذرا سوچئے! جب خدا سے بھی ہم ناجائز خواہشات کی قبولیت کی اُمید نہیں رکھتے تو پھر ریاست سے کیسے ہم اپنی ناجائز سیاسی خواہشات ،وہ بھی بزور طاقت پورا کرواسکتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭