میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
23 مارچ 1940 ء کے تاریخی جلسے کا آنکھوں دیکھا حال

23 مارچ 1940 ء کے تاریخی جلسے کا آنکھوں دیکھا حال

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۳ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

23 مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قرارداد لاہور، برطانوی تسلط اور ہندو اکثریت کے منہ پر طمانچہ تھا جس کے نشان وہ آج بھی اپنے ناکام ارادوں کے چہروں پر محسوس کرتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے خود کو ایک قوم منوالیا تھا اور انگریز پرست ہندوؤں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا کہ یہ قرارداد لاہور نہیں بلکہ قرارداد پاکستان ہے۔ ہندو اکثریت اور برطانوی سامراج یہ ماننے پرمجبور ہو گئے تھے کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے اور مسلم لیگ ہی ان کی نمائندہ جماعت ہے۔
مارچ 1940 میں لاہور میں مسلم لیگ کا جلسہ ہوا۔ جس میں برعظیم کے مختلف علاقوں سے ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی۔ اس جلسے میں قراردادلاہور منظور کی گئی جس کو بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ میںنے اپنے دادا چودھری دین محمدمرحوم کے ساتھ منٹو پارک لاہور میں ، 22,23 مارچ کو منعقد ہونے والے تاریخی اجتماع میں شرکت کی۔ جلسہ گاہ میں رضاکار تعینات تھے۔ مجھے صدر آل انڈیا مسلم لیگ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیگ کے دوسرے رہنماؤں کو دیکھنے اور ان کو سننے کا موقع ملا۔ 19 مارچ 1940ء کو پنجاب حکومت نے خاکسار تحریک پر پابندی لگا دی۔لیکن انہوں نے پابندی کو مسترد کردیا ۔ جس کے نتیجے میں پنجاب حکومت نے بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گولی چلا دی اور خاکسار تحریک کے کئی کارکن شہیدہوئے۔ اس واقعے کے صرف چار روز بعد آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ منٹو پارک میں ہونا تھا اور صدارت کیلئے قائد اعظم تشریف لا رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد سمجھا جا رہا تھا کہ شاید مسلم لیگ اپنا جلسہ ملتوی کر دے مگر قائد اعظم نے نہ صرف پوری جرأت اور استقامت سے 23 مارچ کا جلسہ زور وشور سے منعقد کرنے کا اعلان کیا بلکہ خاکسار تحریک کے کارکنان اور قیادت کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔
21 مارچ 1940ء کی شام تک جلسے کے شرکاء قافلوں کی صورت میں منٹوپارک کے سبزہ زاروں میں خیمہ زن ہو گئے۔ 22 مارچ کو مسلم لیگ کے 27 ویں سالانہ اجلاس کا آغاز ہوا ۔ مینار پاکستان جس تاریخی قرارداد کا ترجمان ہے وہ 22 مارچ کو ہی پیش کی جانی تھی مگر شیر بنگال اے کے فضل الحق جنہوں نے قرارداد پیش کرنا تھی وہ نہ پہنچ سکے۔ لہٰذا اس تاریخی اور عظیم الشان واقعے کو 23 مارچ تک مؤخر کر دیا گیا۔ 22 مارچ کے جلسے میں قائد اعظم نے نسبتاً طویل تقریر کی۔ قائد اعظم نے دو قومی نظریے کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جاے تو قائد اعظم نے مغربی جمہوریت سے بالا تر ہو کر اسلامی جمہوریت کی بنیاد رکھی کیونکہ مغربی جمہوریت میں مذہبی بنیادوں پر تقسیم سیکولر ازم کے باعث ممکن نہیں۔
اگلے روز جلسے کی کارروائی کے دوران شیر بنگال اے کے فضل الحق نے پرتپاک نعروں کی گونج میں 427 الفاظ پر مشتمل قرارداد پیش کی ۔مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنماچوہدری خلیق الزماں ، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔ اس اہم دستاویز نے پاک و ہند کے مسلمانوں کیلئے قائد اعظم کی صدارت میں اسلامی نظریہ حیات کی بنیاد پر ایک واضح منزل کا تعین کیا۔ اللہ کریم نے اس قرار داد کو اتنا بابرکت بنایا کہ مسلم لیگ ایک فعال قوت بن گئی۔ 1946 ء کے انتخابات میں ووٹ کی طاقت سے وہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کے طورپر ابھری۔اپریل 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔
برصغیر پر مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی جس میں انہوں نے عدل، رواداری اور فراخ دلی کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کے اہل ہند پوری طرح معترف تھے لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے اپنا تشخص کھو دیا ۔ حکومت ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور ان کا مقابلہ ان ہندوؤں سے آن پڑا جو تعداد میں ان سے چار گنا تھے۔ ایک ہزار سال کی غلامی کی بھڑاس ان کی روحوں پر طاری تھی۔ ہندوؤں کے شدید ردعمل اور رویے کے باعث مسلمانوں نے ان کی نفر ت کا سامنا کرنا شروع کر دیا جہاں انکا ہاتھ کسی ہندو کے برتن سے بھی چھو جاتا تو وہ اسے بھرشٹ یعنی ناپاک گردانتے، انگریزی سرکار کے پرچم تلے مسلمانوں کا پانی تک ہر اسٹیشن پر ہندوؤں کے پانی سے الگ کر دیا گیا۔ معاشی، معاشرتی اور اقتصادی معاملات میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی سازشیں ہونے لگیں۔
ہندو ایک سازش کے تحت مسلمانوں کو اپنے زیر اثر رکھنے کیلئے مشترکہ جدوجہد آزادی کی باتیں کرتے تھے تاکہ انگریز سے چھٹکارا پانے اور وطن کو آزاد کرانے کیلئے مسلمانوں کو استعمال کرسکیں اور پھر آزادی کے بعد محکومیت کی دوسری شکل میں ہندوؤں کے زیر اثر زندہ رہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ہندوؤں کے ساتھ ایک قوم بن کر انگریز سے دفاع کی کوشش کریں۔ اس کے برعکس مسلمان غلامی کے فتنے سے نجات پا کر ایک ایسا دارالسلام چاہتے تھے جس میں اللہ کا دین اپنی پوری حکمتوں سے رائج ہو سکے۔ وہ ایسے ذرائع کی تلاش میں تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی زمین کو ایمان اور تقویٰ کا گڑھ بنا سکیں۔سرسید نے یہ بات واضح کر دی کہ ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک برصغیر ہے جہاں دو قومیں آباد ہیں۔ معروف انگریز اسکالر ہنڈرل مون نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ دو قومی نظریہ پیش کر کے سرسید احمد خان نے نہ صرف حقیقی مسئلے پر انگلی رکھ دی بلکہ بالواسطہ حل بھی تجویز کر دیا یعنی اگر دو قومیں ایک گدی پر نہیں بیٹھ سکتیں تو اسے کیوں نہ تقسیم کر دیا جائے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں