میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کشمیراورفلسطین پرہم ناکام ہوگئے ، وزیراعظم

کشمیراورفلسطین پرہم ناکام ہوگئے ، وزیراعظم

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۳ مارچ ۲۰۲۲

شیئر کریں

و زیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے، دہشتگردی کا کسی مذہب سے تعلق نہیں،مسلمان ڈیڑھ ارب ہیں ،اہمیت نہیں دی جارہی، کشمیراورفلسطین پرہم ناکام ہوگئے تمام مسلمان ممالک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی ہے،مسلم ممالک نے متحد ہوکر متفقہ موقف اختیار نہ کیا تو کوئی ہمیں نہیں پوچھے گا،ہمیں اپنا بیانیہ آگے بڑھانا ہوگا۔ منگل کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ او آئی سی اجلاس پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہورہا ہے ہے، او آئی سی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی آمد پر ان کا مشکور ہوں۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن قرار دیا، اس کیلئے 15مارچ کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ اس روز نیوزی لینڈ میں ایک شخص نے مسجد میں گھس کر مسلمانوں کو قتل کیا تھا، اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اس کے نزدیک تمام مسلمان دہشتگرد ہیں۔انہوں نے کہا کہ مذہب کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں اسلاموفوبیا بڑھتے ہوئے دیکھا، اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگردی سے جوڑ دیا گیا، بہت معذرت کے ساتھ میں کہوں گا کہ اس کے ذمہ دار ہم خود تھے کیونکہ اس بیانیے کا توڑ کرنے کے لیے ہم نے اقدامات نہیں اٹھائے۔انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک کو اس حوالے سے آواز بلند کرنی چاہیے تھی، دنیا کو یہ سمجھانے کی ضرورت تھی کہ دہشتگردی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ روشن خیالی کا نعرہ محض مغرب کو مطمئن کرنے کیلئے لگایا گیا، اسلام تو صرف ایک ہی ہے تاہم دنیا کی ہرکمینوٹی میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ کرنے والا بھی ان کے معاشرے کا ہی ایک حصہ تھا مگر دنیا کی کسی اور کمیونٹی کو اس طرح دہشتگردی سے نہیں جوڑا گیا۔انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک کی جانب سے اس بیانیے کا جواب نہ دینے کا نتیجہ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا، نائن الیون کے بعد غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مشکل ترین دور شروع ہوا۔انہوں نے کہا کہ 1989 میں ایک گستاخانہ کتاب سلمان رشدی نے لکھی، اس واقعے کے بعد بھی مسلم ممالک مغرب کو توہین رسالت سے متعلق مسلمانوں کی حساسیت سے آگاہ نہیں کرسکے۔انہوںنے کہاکہ مغربی ممالک میں مذہب کو اس طرح نہیں سمجھا جاتا جس طرح مسلم ممالک میں مذہب کو اہمیت حاصل ہے، اس لیے مغربی ممالک توہین اور گستاخی سے متعلق مسلمانوں کے جذبات نہیں سمجھ سکتے۔انہوں نے کہا کہ اسی لیے ہر تھوڑے عرصے بعد مسلم ممالک کی جانب سے گستاخیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والے ردعمل سے اسلاموفوبیا بڑھتا گیا۔انہوں نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں کہ پہلی بار عالمی سطح ہر یہ ادراک کیا جارہا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے اور اس حوالے سیاقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اب ہم دنیا کو یہ باورکرانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے کہ گستاخی اور توہین آمیز واقعات سے کس طرح ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہیں جو اسلام کے نام پر قائم ہوا، قرارداد مقاصد کے مطابق پاکستان کو مدینہ کے طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔ویزراعظم نے کہا کہ افسوس ہے کہ مسلمان خود مدینہ کی ریاست کے ماڈل سے آگاہ نہیں ہیں، میں لوگوں سے کہتا ہوں کے ایک عظیم انقلاب کے نتیجے میں بننے والی ریاست مدینہ کے ماڈل کو سمجھیں۔انہوں نے کہا کہ حضرت محمدۖ کو قرآن میں رحمت اللعالمین کا لقب دیا گیا، حضرت محمد ۖ کی دنیا میں آمد کا مقصد انسانیت کو متحد کرنا تھا، انہوں نے ایک جدید نظام تشکیل دیا، انہوں نے کہا کہ میری بیٹی بھی جرم کرے تو وہ بھی سزا کی حقدار ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر کے پسماندہ ممالک پر نظرڈالیں، ان تمام ممالک میں یکساں بات یہی ہوگی کہ وہاں امیر اور غریب کے لیے علیحدہ قانون ہے۔انہوںنے کہاکہ اسلامی تاریخ کے پہلے 2 خلیفہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ان میں سے ایک خلیفہ ایک یہودی سے مقدمہ ہار گئے تھے کیونکہ قاضی نے خلیفہ کے بیٹے کی گواہی قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں اقلیتوں کے برابرحقوق تھے، قانون کی نظر میں سب برابر تھے، ایک عام شہری ریاست کے سربراہ کے خلاف مقدمہ جیت جاتا تھا، یہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی جہاں انسانیت کا احساس تھا، کمزوروں، غریبوں اور بزرگوں کو سہارا دیا جاتا تھا۔انہوں نے کہا کہ آج میں مغربی ممالک کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وہاں فلاحی ریاست کا جو تصور موجود ہے وہ مسلم ممالک میں کہیں نہیں نظر آتا، ہمارے یہاں انسانوں کو وہ حقوق نہیں مل رہے جو مغربی ممالک میں جانوروں کو حاصل ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست میں خواتین کو پہلی باروراثت میں حق ملا، یورپی ممالک کو خواتین کو یہ حقوق فراہم کرنے میں کئی برس لگ گئے۔انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں 70 فیصد خواتین کو وراثت میں حق نہیں دیا جارہا تھا اس لیے ہمیں اس کے لیے خصوصی بل پاس کروانے پڑے۔انہوں نے کہا کہ او آئی سی کا ایک مقصد اسلامی اقدار کو محفوظ کرنا تھا جنہیں آج سب سے زیادہ خطردرپیش ہے، میں جب وزیراعظم بنا تو مجھے بتایا گیا کہ پاکستان میں جنسی جرائم سب سیزیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں، ہم نے اس کی وجوہات تلاش کیں تو پتا چلا کہ موبائل پر باآسانی دستیاب پورنوگرافی اس کی اہم وجہ ہے، اس لیے ہمیں اس پیلٹ فارم کے ذریعے اس چیلنج کا بھی مقابلہ کرنا چاہیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں