میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
غزہ میں انتفاضہ کی تاریخ : ہُوئے احرارِ مِلّت جادہ پیما کس تجمّل سے

غزہ میں انتفاضہ کی تاریخ : ہُوئے احرارِ مِلّت جادہ پیما کس تجمّل سے

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۳ فروری ۲۰۲۵

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

٧ اکتوبر کاحملہ غزہ کے پرعزم انتفاضہ کا تیسرا پڑاو ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ مزاحمت نے ہر حملے میں نہ صرف زبردست کامیابی درج کرائی بلکہ وہ اپنی منزل سے ایک قدم قریب تر ہوگئی ۔ قیامِ اسرائیل کے بعد فلسطینیوں کو پہلی مرتبہ ہجرت پر مجبور ہونا پڑا تھا مگر ٦ روزہ جنگ کے بعد دوسری بار جبری نقل مکانی کی نوبت آن پڑی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو تیسری بار غزہ کے باشندوں کو وہاں سے نکالنے کی نت نئی سازشیں رچ رہے ہیں لیکن اس دوران مجاہدین کا ایک زبردست لشکر تیار ہوچکا ہے اس لیے ا ب یہ ہدف ناممکن لگتا ہے ۔ اسرائیل اور امریکی استعمار کے راستے میں یہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کیسے تعمیر ہوئی اس کی ایمان افروز تفصیل اس آیت کی ترجمان ہے جس میں فرمایا گیا : ”بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے ”۔ ہوا یہ کہ دسمبر 1987 میں غزہ کے اندرایک اسرائیلی ٹرک نے فلسطینی مزدوروں کو لے جانے والی دو وینوں کو ٹکرّماردی ۔ اس ظلم کے خلاف نوجوان فلسطینیوں نے اسرائیلی فوج کے ٹینکوں اور فوجیوں پر پتھراؤ کرنا شروع کر دیا۔اسرائیل نے مظاہرین کو کچلنے کی خاطر چار فلسطینیوں کو شہیدکردیا مگر پھر بھی یہ احتجاج تیزی کے ساتھ مغربی کنارے تک پھیل گیا ۔
یہ پر عزم مزاحمت مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر پہلی فلسطینی انتفاضہ یا بغاوت کا آغازتھا ۔ اس احتجاج کے بطن سے حماس نامی تحریک کا جنم ہوا۔ اخوان المسلمون کی یہ فلسطینی شاخ اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کی قائل تھی اور اب بھی ہے ۔ عالمی قوانین بیرونی تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد کے حق کو تسلیم کرتے ہیں ۔ حماس کے قیام نے فلسطینی آزادی کی تحریک کو ایک نئے دور میں داخل کردیا کیونکہ اب اس کی کمان دین بیزار قیادت کے بجائے دیندار مجاہدین کے ہاتھ میں تھی۔ دو سال بعد( 1989میں) حماس نے اسرائیلی فوجی اہداف پر اپنا پہلا حملہ کیا جس میں دو اسرائیلی فوجیوں کا اغوا اور قتل شامل تھا۔٧ ستمبر 2023کے حملے اور یرغمال بنانے کے واقعہ پر حیرت کا اظہار کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ چھوٹے پیمانے پر اسی حکمتِ عملی پر 34 سال قبل عمل ہوچکا ہے ۔ انتفاضہ نامی یہ عوامی تحریک صرف فوجی حملوں تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کے تحت بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے ، سول نافرمانی کے ساتھ باہمی تعاون کے ساتھ منظم ہڑتالیں کی گئیں ۔
اس ہمہ گیر مزاحمت نے ساری دنیا کی توجہ مسئلۂ فلسطین کی جانب مرکوز کردی اور امریکہ و روس دونوں نے مل کرمیڈرڈ میں اسے حل کرنے کی خاطر گفت و شنید کا آغاز کردیا۔ پہلی انتفاضہ کی یہ بڑی کامیابی تھی کہ 1993 کے اندرخود سر اسرائیل کو اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔اس معاہدے کا مقصد اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم کرنا تھا۔ حماس نے اس کی مخالفت کی اور اسرائیل میں بم دھماکوں اور اور فائرنگ کے متعدد واقعات انجام دیئے ۔ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور انتفاضہ کا خاتمہ ہو گیا۔ فلسطینی اتھارٹی کی عبوری حکومت قائم ہوئی تو اس کو مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے کچھ حصوں میں محدود خود مختاری بھی ملی۔٤ مئی 1994 کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان غزہـجیریکو معاہدے پر دستخط کے ساتھ اوسلو معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوا۔اس کے تحت اسرائیلی انتظامیہ نے نوتشکیل شدہ فلسطینی اتھارٹی کو اقتدار منتقل کیا نیز غزہ اور مغربی کنارے کے شہر جیریکو سے اسرائیلی افواج کو نکلنا پڑا۔
سامنے رکھتا ہوں اُس دورِ نشاط افزا کو مَیں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میَں
1995 کے اندر اوسلو معاہدے کی آڑ میں اسرائیل نے بڑی چالاکی سے غزہ کی پٹی کے گرد الیکٹرانک باڑ اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرکے فلسطینی علاقوں کے درمیان رابطہ منقطع کردیا۔اسرائیل کو امن کا علم بردار بتا کر فلسطینی مجاہدین آزادی پر دہشت گردی کا الزام لگانے والا مغربی میڈیا یہ نہیں بتاتا کہ اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے والے پانچویں اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن کو کس نے اور کیوں گولی مار کر ہلاک کیا تھا اور اس قتل کا مقصد کیا تھا ؟ ٤ نومبر 1995 کو وزیر اعظم رابن تل ابیب میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی امن ریلی کو مخاطب کرکے نکلے تو 20 سالہ انتہا پسند یہودی حملہ آور یگل امیر نے خود اپنے ہی ملک کے وزیر اعظم کا قتل کردیا ۔ گرفتاری کے بعد ناتھو رام گوڈسے کی ماننداس سفاک قاتل نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ اس کے اس جرم کی بنیاد مذہبی تھی۔ وہ اوسلو معاہدے کی مخالفت اس لیے کررہا تھا کیونکہ اسے مقدس سرزمین کو فلسطینیوں کے حوالے کرناگوارہ نہیں تھا۔یگل امیر نے فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین واپس کرنے سے روکنے کے لیے یہ مذموم قتل کیا تھا۔
اسرائیل میں موجودہ برسرِ اقتدار لیکوڈ پارٹی کے انتہائی شر پسند اپوزیشن لیڈر ایریل شیرون نے 28 ستمبر 2000 کو ہزاروں سیکورٹی فورسز کے ساتھ مسجد اقصیٰ پر چھاپہ مارا۔اس بے حرمتی کے خلاف احتجاج کے دوران دو دنوں کے اندر مظاہرین اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں پانچ فلسطینی شہید اور 200 زخمی ہو گئے ۔ اس طرح دوسری انتفاضہ کا آغاز ہوگیا ۔25 سال قبل بھی اسرائیل نے فلسطینیوں کی مزاحمت کو کچلنے کے نہ صرف بے شمار لوگوں کو شہید کیا بلکہ معیشت اور انفراسٹرکچر کو بھی زبردست نقصان پہنچایا تھا ۔ اس لیے اس کی حالیہ تباہی و بربادی بھی نئی نہیں ہے ۔ اسرائیل جس طرح اب حماس کو غزہ کے اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتا ہے اسی طرح اس نے دوسری انتفاضہ کا بہانہ بناکر فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا اور فلسطینی خطے کو تقسیم کرنے والی دیواروں کی تعمیر شروع کر دی تھی ۔ یہ دراصل بڑے پیمانے پر یہودی بستیاں تعمیرکرکے فلسطینیوں کو تباہ کر نے کی ایک سازش تھی۔ اس کے تحت لاکھوں یہودی غاصب فلسطینیوں کی ہڑپ کردہ زمین پر بنائی گئی کالونیوں میں منتقل کیے گئے اور ٹرمپ پھر ایک بارغزہ میں رویرا کا خواب دِ کھا کر یہی کرنا چاہتا ہے بقول اقبال
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات
ایک چوتھائی صدی قبل اسرائیل نے جو لوٹ مار مچائی اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے اوسلو معاہدے پر دستخط کے وقت مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں صرف ایک لاکھ دس ہزار یہودی رہتے تھے ۔ آج یہ تعداد سات لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے ۔ یہ سارے لوگ فلسطینیوں سے چھینی گئی ایک لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زمینوں پر قابض ہیں۔ 2004 میں پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کا انتقال ہوا نیز پی ایل او زوال پذیر ہوگئی۔ اس کے بعد فلسطینی عوام کے سامنے حماس ایک واحد متبادل رہ گیا۔ اسرائیل نے حماس کے حوصلے پست کرنے کی خاطر 22 مارچ 2004ء کو ایک میزائل حملے میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو فجر کی نماز کے لیے جا تے ہوئے شہید کردیا ۔ اس حملے میں ان کے دو محافظ سمیت لوگ جاں بحق ہوگئے ۔ان کے بعد حماس کی کمان سنبھالنے والے عبدالعزیز رنتیسی کو بھی شہید کیا گیا مگر مزاحمت جاری رہی ۔ موجودہ مزاحمت کے دوران اسماعیل ہنیہ اور یحیٰ سنوار کو شہید کرنے والے بھول گئے کہ اگر اس طرح کے بزدلانہ حملوں سے حماس کو روکنا ممکن تھا تو وہ 20 سال قبل ختم ہوجاتی لیکن ان کا عقیدہ تو یہ ہے کہ ‘شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے’ ۔ علامہ فرماتے ہیں
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا
2005میں جب دوسری انتفاضہ اختتام پذیر ہو ئی تو اس کے نتیجے میں غزہ سے اسرائیلی فوجی سمیت 9 ہزار یہودی آباد کار پٹی چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ یہ حماس کی دوسری بڑی فوجی کامیابی تھی ۔ 2006 میں فلسطین کے اندر پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر اس الیکشن کے شفاف اور غیر جانبدار ہونے کی گواہی دی ۔ عوام نے انتخاب میں حسب توقع حماس کو اکثریت سے نواز ہ مگرالفتح نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ حماس کے خلاف اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت کرکے سازش میں ملوث ہوگئی مگر اسے بھی ناکام کردیا گیا۔ الفتح کی غداری کے بعد غزہ سے نکا سی ہوگئی اوراس کا دائرۂ کار مغربی ساحل کے کچھ حصوں تک محدود ہوگیا حالانکہ انتخابی نتائج کے مطابق وہاں بھی حماس کا ہی حق تھا۔اپنی تماتر کوششوں اور سازشوں میں ناکامی کے بعد جون 2007 میں اسرائیل نے حماس پر دہشت گردی کا الزام لگاکر غزہ کی زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی۔ اس طرح گویا غزہ کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کرنے کی سازش رچی گئی ۔٧ستمبر کا حملہ اسی غیر قانونی حصار کو توڑنے کی ایک کامیاب کوشش تھی ۔ علامہ اقبال کی شاعری میں اس کی منظر کشی ملاحظہ فرمائیں
ہُوئے احرارِ مِلّت جادہ پیما کس تجمّل سے
تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زِندانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں