میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کنن پورہ کے واقعے کی تلخ یادیں!!

کنن پورہ کے واقعے کی تلخ یادیں!!

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۳ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود

آج 23فروری ہے اور آج کا دن یوم مزاحمت ِ نسواں کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دراصل33سال پہلے 1991میں 23 فروری کی درمیانی شب انڈین آرمی نے وادیٔ کشمیر کے کندن اور پوش پورا گاؤں میں سرچ آپریشن کے دوران مبینہ طور پر 23 سے 100 کشمیری خواتین کا گینگ ریپ کیا تھا۔میرے پیش نظر کتاب اسی بھیانک رات کی وہ داستان ہے جب کشمیر میں دو جڑواںگاؤں کنن اور پوشپورہ میں 23فروری 1991کی رات تقریبا 170 سے زائد فوجیوں نے عورتوں کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ اتنا ہی نہیں مردوں پر بھی اس رات بے دردی سے تشدد ہوا اور تکلیف دی گئی۔ یہ کتاب دراصل مظلوم عورتوں کی داستان ہے جو تقریبا 33سال گزرنے کے بعد بھی انصاف کی منتظرہیں۔ اس کتاب کے لکھنے والی کشمیر کی پانچ بہادرلڑکیاں ہیں جن کا نام ایثار بتول افراہٹ سمرینہ مشتاق منزہ رشید اور نتاشہ راتر ہے۔ یہ کتاب کینیڈا کی طرف سے ار ڈی سی انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ریسرچ سینٹر پروجیکٹ کے تحت لکھی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش نیپال اور سری لنکا میں تقریبا آٹھ کتابیں جنسی تشدد پر لکھی گئی ہیں۔ سات ابواب پر مشتمل ہے۔ کنن پور اور پورا کشمیر میں دو جڑواں گاؤں کے نام ہیں۔ یہ دونوں گاؤں کشمیر کی راجدھانی سری نگر کے شمال میں تقریبا 90 کلومیٹر کی دوری پر ضلع کا پورا میں آباد ہیں ۔پہلے باب میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح فوج گاؤں کوحصار میں لے کر جنسی درندی کرتی ہے۔ پولیس کے بیان کے مطابق کنن پوش پورا کو اپنے حصار 23 فروری 1991 تیری گام ارمی کیمپ سے چار راج پوتالارائفل لینے نکلتے ہیں پہلے وہ ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر آف پولیس محمد سلطان کو انفارم کرتے ہیں جس پر وہ ان دوپولیس کانسٹیبل عبدالغنی اور محمد سلطان کو انفارم کرتے ہیںجس پر وہ عبدالغنی اور بشیر احمد کو ان کے ہمراہ بھیج دیتا ہے۔یہ رات بہت ہی سرد ہے کیونکہ ہر طرف برف کی وجہ سے ہر شے منجمد ہے اور اسی رات میں فوج کنن پورا گاؤں کو اپنے حصار میں لیتی ہے ۔رات کے 11بجے مساجد سے اعلان کر کے مردوں کو عورتوں سے جدا کر کے عورتوں کو گھروں میں تن تنہاچھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد مردوں پر جسمانی تشدد کر کے گھروں کے اندر جا کر عورتوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں ایک مظلوم عورت کا کہنا ہے تین آرمی والوں نے مجھے پکڑ کر اور اٹھا لیااور10 آرمی والے مجھ سے باری باری ریپ کرتے رہے۔ ان کے پاس بڑی بڑی بیڑیاں تھیں وہ ان کو جلا کر روشن کرتے تھے اور میرے ننگے بدن کو دیکھتے رہے اور پھر فحش کمنٹس پاس کرتے تھے وہ میرے ساتھ یہ حیوانیت تقریبا چار گھنٹے کرتے رہے۔ جس سے میں بے ہوش ہو کر گر پڑتی تھی۔ عبدالغنی کانسٹیبل جو چشم دید گواہ تھا اس کو فوج نے 1993 میں بربریت سے مار ڈالا۔ کتاب میں صفحہ 85 پر اس کوتفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا۔ غنی فوج کے ساتھ اس رات موجود تھا اور اس نے ایک بچے کو برف سے اٹھایا تھا جس کو فوجیوں نے ہوس کی آگ میں ا کر باہر پھینک دیا تھا ۔بدقسمتی کی وجہ سے 15 دن
کے بعدمقدمہ درج ہوا۔ اس کتاب میں یہ سب تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ کتاب میں میں ایف آئی آر اس کیس کا پہلا باب میں بھی ریپ اور جنسی تشدد کا بیان ہے ۔ اس باب میں یہ دکھایا گیا کہ کس طرح 51 سے زائد عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد کوگورنمنٹ مشینری نے جھوٹ کا سہارا لے کر غلط ثابت کرنے کی کوشش کی اور کیسے مظلوم عورتوں کو انصاف دینے کے بجائے ان پر دغا بازی اور غداری کا الزام لگا دیا۔ ایف آئی آر درج کرنے کے بعد بھی کس طرح پولیس نے اس کیس کی دوبارہ جانچ پڑتال کرائی ۔کنن تب بھی سرکاری ہتھکنڈوں سے اس کو روکنے کی سعی کی گئی ۔پورا کے علاوہ کشمیر کے دیگر علاقوں میں فوج کے ہاتھوں جنسی تشدد بھی ہوا ہے۔ 1992 میں دو بہنوں کے ساتھ پانچ راسٹر یا رائفلز نے کس طرح ریپ کر کے ان کے گھر کو جلا دیا۔جس کی وجہ سے دو بہنوں کو ساری رات غسل خانے میں گزارنا پڑا۔ روزنامہ کشمیر ٹائمزکے مطابق 14 اکتوبر 1992 کو شوپیاں میں پولیس نے بی ایس ایف کے خلاف 13 اکتوبر کو گینگ ریپ کا مجربانہ مقدمہ درج کیا ۔گورنمنٹ آف انڈیا ٹو ایشیا واچ پی ایچ آر نے کہا کہ کیس کرائم برانچ کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس کی خصوصی شاخ اپریل 1993 تک حکومت نے نتائج کو عام نہیں کیا۔تحقیقات اور نہ ہی ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی اور سزا دینے کے لیے کوئی کارروائی کی گئی۔ حران میںاصل میں دری کا واقعہ 20 جولائی 1992 کو پیش آیا۔ سری نگر سے تقریبا 25 کلومیٹر مغرب میں حیران قصبے کے قریب فوج کے سرچ آپریشن کے دوران پیش آیا۔ صبح چھ بجے بھارتی فوجیوں نے تلاشی مہم کے دوران متحدہ لڑکیوں خواتین کی انہی کے گھروں میں عصمت دری کی علاقے میں یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا۔ یکم اکتوبر 1992 کو بی ایس ایف کا ایک گروپ کریک ڈاؤن سے واپس ا رہا تھا کہ ہندو اڑا ضلع کے بیکھر کے قریب عسکریت پسندوں کے حملے میں ایک بھارتی فوجی مارا گیا۔اس کے فورا بعد بی ایس ایف کے فوجیوں نے قریبی گاؤں بنی گٹمیںدھاوا بول دیا۔10 افراد کو ہلاک اور گھروں اور اناج کی دُکانوں کو جلایا اور کئی گھروں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ متعدد خواتین کی عصمت دری کی ۔بھارتی فوجیوں نے کئی خواتین کو ان کے معصوم بچیوں کو قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے بھی ان کو عصمت دری کا نشانہ بنایا۔ عصمت دری کا شکار ہونے والوں میں ایک 13 سالہ معصوم بچی بھی شامل تھی۔ یہ واقعہ بھی ایشیا واچ اور پی ایچ آر کی رپورٹ میں شامل ہے۔ ایشیا ہیومن رائٹس کی عصمت دری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ڈاکومنٹیشن پر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ار سہانی ناروان کمانڈ کے جنرل افسر کمانڈنگ ان چیف سے ریپ کے الزامات کا جواب طلب کیا گیا لیکن اس نے مصدقہ واقعات کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے جواب دینے سے انکار کر دیا۔عورتوں کے حقوق کی چیمپئن انسانی حقوق کی تنظیم جو ‘میرا جسم میری مرضی” کی دعویدار ہیں، کوچاہیے کہ23 فروری کوکشمیر کی خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیںاور ان خواتین کے لیے انصاف مانگیں جو انڈین آرمی کے ہاتھوں درندی کا شکار ہوئیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں