مادری زبان کا عالمی دن اور دلچسپ حقائق
شیئر کریں
ڈاکٹر جمشید نظر
پہلے وقتوں میں مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو گود میںلے کر لوریاں دیا کرتی تھیں اسی نسبت سے مائیں جس زبان میںاپنے بچوں کو لوریاں دیتی تھیں اسے مادری زبان کہا جانے لگا ۔اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہر سال مادری زبان کا عالمی دن 21فروری کو منایا جاتا ہے۔یونیسکو نے سن 1999میں 21فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا جس کے بعد سن 2000سے ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد مادری زبانوں کا تحفظ ہے۔دنیا کے تقریبا 200 ممالک میں مختلف زبانیں بولنے اور مختلف قومی ثقافتوں سے وابستہ افراد یہ دن مناتے ہیں۔ مادری زبان کا عالمی دن منانے کی نسبت ایک واقعہ سے دی جاتی ہے۔سن 1952میں جب مشرقی پاکستان میں اردو کو سرکاری درجہ دیے جانے کی وجہ سے فسادات نے زور پکڑا تو دفعہ 144 لگانی پڑی ۔اس پابندی کے باوجود ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے احتجاجی جلوس نکالا تو پولیس نے گولی چلادی جس کے نتیجہ میں متعدد مظاہرین ہلاک ہوگئے۔اس وقعہ کے چار سال بعد بنگالی زبان کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا۔مشرقی پاکستان جب بنگلہ دیش بن گیا تو اس کی جانب سے اقوام متحدہ کو مادری زبان کا عالمی دن منانے کی تجویز دی گئی جسے منظور کرلیا گیا۔
مادری زبان کے تحفظ کی خاطر نوبل انعام دینے والے ادارے کا کہنا ہے کہ اب تک 25ایسے افراد کو نوبل انعام دیا گیا ہے جنھوں نے اپنی مادری زبانوں میں تخلیقی کام کیے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر دو ہفتے بعد ایک زبان اپنے ساتھ مکمل ثقافتی اور فکری ورثہ لے کر غائب ہوجاتی ہے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں بولی جانے والی 7ہزار سے زائد زبانوں میں سے45فیصد خطرے سے دوچار ہیں۔تعلیمی نظاموں اور عوامی سطح پر صرف چند سوزبانوں کو حقیقی طور پر جگہ دی گئی ہے جبکہ ڈیجیٹل دنیا میں 100سے بھی کم زبانیں استعمال ہورہی ہیں۔ایک جائزے کے مطابق 537 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے افراد کی تعداد صرف پچاس رہ گئی ہے جبکہ 46 زبانیں ایسی ہیں جو ختم ہونے کے قریب ہیں کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والا دنیا میں صرف ایک ایک انسان ہی باقی بچا ہے جن کے بعدشائد یہ زبانیں بالکل ختم ہوجائیں۔مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے سن2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے28ویں نمبر پر تھا ،رپورٹ میں بتایا گیا کہ انڈیا میں سب سے زیادہ 196مادری زبانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہٹلر کے مظالم سے تنگ امریکہ اور برطانیہ میں نقل مکانی کرنے والے جرمنی افراد کی مادری زبان جرمنی کی بجائے انگریزی ہے۔
ہمارے معاشرے میں انگریزی زبان بولنے والے کو بڑا قابل سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر سٹوڈنٹس دیگر غیر ملکی زبانوں میں انگریزی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں حالانکہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چین کی ”منڈیرین زبان(Mandarin)” ہے جسے تقریبا ایک ارب لوگ بولتے اور سمجھتے ہیںاس زبان کے بعد دوسرے نمبر پر ہسپانوی زبان زیادہ بولی جانے والی مادری زبان سمجھی جاتی ہے جسے تقریبا 400 ملین لوگ بولتے ہیں اس کے بعد تیسرے نمبر پر انگریزی زبان ہے جس کو بولنے والے افراد کی تعداد تقریبا 335 ملین ہے۔ پاکستان میں ماہرین تعلیم کی جانب سے کئی مرتبہ یہ تصور پیش کیا گیا کہ بچوں کومادری زبان میں تعلیم دی جائے لیکن افسوس اس پرآج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا ۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے انگریزی میں تعلیم دینے کو اعلیٰ معیار شمار کرتے ہیں حالانکہ دیگر زبانیں سیکھنا علوم میں شمار تو ہوسکتا ہے لیکن اس کو قابلیت کا معیار نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ یہ بھی ہوسکتا ہے بہترین انگریزی بولنے والے میں یہ قابلیت ہی نہ ہو کہ وہ کسی ادارے کے لئے بہتر خدمات انجام دے سکے۔چین ،جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو مادری زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے اس لئے ہمیں ہر طرح کے علوم اور زبانیں ضرورسیکھنی چاہیئے لیکن اگر تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو بچے بہترین اور آسان انداز میں تعلیم حاصل کرکے ملک کا نام دنیا میںروشن کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔