اسرائیل کی عرب معاشروں کی جانب پیش قدمی
شیئر کریں
قابض صہیونی ریاست نے "خلیجی یہودی برادریوں کی انجمن” (اے جی جے سی) قائم کردی ہے، جس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ دو خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار ہونے کے بعد اب یہ اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔ یہ رابطے خلیج تعاون کونسل کے ممالک کے یہودی کے ساتھ قائم کیے جارہے ہیں۔ یہودی رابطے کی یہ انجمن جو 15 فروری 2021 ء کو باضابطہ طور پر شروع کی گئی تھی، خلیجی خطے میں اپنی نوعیت کا پہلا صہیونی ادارہ ہے، فی الحال یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کا صدر مقام کہاں ہوگا، لیکن اس کی سربراہی متحدہ عرب امارات کی یہودی کونسل کے چیف ربی کریں گے۔ جبکہ ڈاکٹر ایلن عبدی اور بحرین میں یہودی برادری کے سربراہ ابراہیم نونواس میں شامل ہیں جس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس صہیونی ادارے کا صدر مقام بحرین کے دارالحکومت منامہ میں ہی ہوگا۔ صہیونی برادری کے نئے رہنما کی بیٹی ھدی عذرا ابراہیم نونو ہیں، جو واشنگٹن میں بحرین کی سابق یہودی سفیر (2008-2013) رہی ہیں، لیکن ان کا کردار منامہ اور تل ابیب کے مابین تعلقات کو قریب تر لانا تھا۔
اس صہیونی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس ادارے کا ہدف "خلیجی ممالک میں یہودیوں کی زندگی میں مزید ترقی اور خوشحالی” لانا ہے، جبکہ خلیج کے اسلامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد خلیجی معاشروں میں صہیونی زہر داخل کرنا ہے اور اس صہیونی ادارے کا مقصد خلیجی ممالک میں بسنے والے یہودیوں کی زندگیوں میں مزید بہتری لانا نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی انتہائی قلیل ہیں اور مقامی عربوں سے زیادہ سہولتوں میں رہ رہے ہیں۔ اس صہیونی ادارے کی ایک ویب سائٹ بھی ہے جس میں خلیجی یہودیوں کی تاریخ اوران کے مذہبی واقعات کی فہرست دی گئی ہے، یہودی ویب سائیٹ میں ہر خلیجی ملک کے لیے ایک نشان یا لوگو مختص کیا گیاہے، حال ہی میں 19 اور 20 فروری کو یہودیوں کے مقدس دن ہفتہ یا یوم سبت سے متعلق مواد اپ لوڈ کیا گیا ہے۔
اگرچہ خلیج میں یہودی برادری کے نئے سربراہ ، ابراہیم النونو نے "اسرائیلی ٹی وی” میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ "سعودی عرب یا کویت میں کوئی حقیقی یہودی برادری موجود نہیں ہے ، لیکن کچھ یہودی لوگ موجود ہیں جن کو ہم ہر طرح کی سہولت مہیا کرسکتے ہیں۔ ان کی خدمات کی فراہمی نامی "لنک” میں دعوی کیا گیا ہے کہ ان کا مقصد خلیجی ملکوں میں رہنے والے یہودیوں کو خدمات فراہم کرنا ہے۔ اس حوالے سے اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے 15 فروری 2021 ء کو لکھا تھا کہ: بات یہ ہے کہ یہ خلیجی ممالک میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں میں یہودی ملازمین اور کارکنوں کے بارے میں تفاصیل ہے، اس خبر میں یہودی پارلیمنٹ کینست کے ایک رکن کے حوالے سے بتایا ہے کہ ماضی قریب میں عمان میں 40 یہودی کام کرتے تھے اور اب وہاں صرف 19 یہودی موجود ہیں۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن نے کویت، سعودی عرب اور قطر میں "یہودیوں کی ایک اقلیت” کی بھی بات کی ہے، اس کے مطابق یہاں یہودی اعلانیہ طور پر اپنے آپ کو یہودی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایسا کرنے سے اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صہیونی ٹی وی کا دعوی ہے کہ "اس ادارے کا مقصد متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد خلیج میں دیگر ممالک میں آنے والے یہودیوں کو مذہبی خدمات آسانیوں کے ساتھ کوشر (یہودی گوشت ) کھانے اور تدفین وغیرہ) کی سہولت کی فراہمی ہے۔ ان خلیجی ملکوں کے ساتھ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی استواری کا معاہدہ ہوا ہے اس کے بعد یہ اہم ترین کام ہوگا۔” اس صہیونی ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق ، یہ ادارہ تجارتی تنازعات کو حل کرنے کے علاوہ یہودیوں کی ذاتی حیثیت اور یہودی رسومات کے نام پر شہری تنازعات کے مقدمات کے لیے یہودی عدالت قائم کرنے کا کام کرے گا۔ اماراتی ریسٹورنٹ میں یہودی ربیوں کے زیر نگرانی یہودی کھانے کی اقسام پیش کرنا شروع ہونے کے بعد ، چھ خلیجی ریاستوں میں یہودی فوڈ (کوشر) کے قیام کے لیے ایک اور ایجنسی بھی قائم کی جائے گی۔
اس میں شک نہیں کہ خلیجی ریاستوں میں یہودیوں کی قلیل تعداد کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ یہودیوں کی جانب سے یہ اعلان متحدہ عرب امارات اور بحرین کے گذشتہ ستمبر میں "اسرائیل” کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کے تناظر میں سامنے آیا ہے، اسے وہ "ابراہیم” معاہدے کے ایک حصے کے طور پربیان کررہے ہیں جس میں گذشتہ موسم گرما میں وائٹ ہاؤس میں امریکا اور "اسرائیل” کے زیراہتمام دستخط کیے گئے تھے۔” اس کے بعد سوڈان اور مراکش کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے ہوئے۔ "یروشلم پوسٹ”نے 15 فروری 2021 کودعوی کیا تھا کہ بحرین اور متحدہ عرب امارات میں یہودی برادری خطے میں سب سے بڑی برادری ہے لیکن اس میں یہودیوں کی تعداد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ خلیج میں فرضی "اسرائیلی” سفارت خانے کے ایک ٹیوٹر اکاؤنٹ "اسرائیل” نے ٹویٹر پر کہا ہے کہ پوری دنیا کے یہودیوں کی تعداد کے مقابلہ میں سن 2019 میں عرب اور اسلامی ممالک میں رہنے والے یہودیوں کی تعداد 27 ہزار تک پہنچ گئی تھی جبکہ پوری دنیا میں اس وقت یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ 47 لاکھ ہے۔ دوسری جانب "اسرائیلی حکومت کی جانب سے یہ بیان بھی دیا گیا تھا کہتعلقات کی استواری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ستمبر 2020 میں، ایک لاکھ تیس ہزار "اسرائیلی” متحدہ عرب امارات کا دورہ کر چکے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے قابض صہیونی حکومت کے اس نام نہاد "خلیجی ریاستوں میں یہودی برادریوں کے ادارے” کو قائم کرنے کے خطرے سے خبردارکرتے ہوئے اسے خلیجی ریاستوں کی جانب خطرناک صیہونی پیش قدمی قرار دیا ہے۔ بیرون ملک "حماس” کے میڈیا کے سربراہ ، رفعت نے اہنے ایک بیان میں کہا ہیکہ اس اسرائیلی اقدام کا مقصد خلیجی خطے میں "اسرائیلی” کی موجودگی کو تقویت دینا ہے جو آگے چل کر مزید سیکیورٹی شعبے میں اور معاشرتی تخریب کاری کا باعث بنے گا۔ مقبوضہ فلسطین کی اسلامی تحریک حماس نے زور دے کر کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرکے عرب حکومتوں نے فلسطینی مقصد اور فلسطینی عوام کے حقوق کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ حماس کے ان خدشات کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ اس صہیونی ادارے کے سربراہ "ایلی عبادی” نے اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ یہ اس خطے کے لیے یہودی برادری کی موجودگی کا بہترین موقع ہے اس لیے اس بات پر زور دیا جائے کہ: خلیجی ریاستوں میں یہودی برادری کے لیے ضروری نفراسٹرکچربنایا جائے!
خلیج میں یہودیوں کی تاریخ گزشتہ برس رمضان میں سعودی چینل ایم بی سی نے "ام ہارون” کے نام سے ایک سیریل نشر کی تھی جسے بحرینی اور اماراتی فلمنگاروں نے لکھا تھا اورجس کی وجہ سے خلیجی عرب معاشرے میں ایک تنازعہ کو جنم دے دیا کیونکہ یہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی استواری کو ایک سمجھا جارہا تھا، کیوں کہ یہ تقریبا ان سو یہودیوں کے گرد گھومتا تھا جو 1940 کی دہائی میں خلیجی خطے میں رہتے تھے اور انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز کے دوران مبینہ طور پر بعض عرب حکمرانوں کے ناروا سلوک کی وجہ سے خلیج عرب فرار ہوگئے تھے یہ جن علاقوں میں اآباد تھے وہاں قدرتی آفات بھی بہت آتی تھیں اس کے علاوہ یہ یہودی بہتر معاشی مستقبل کی وجہ سے بھی اسرائیل بھاگ گئے تھے۔
جب ہم خلیج میں یہود کے تاریخی ریکارڈ کی جانب رجوع کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اٹھارہویں صدی کے دوسرے نصف میں بحرین میں یمن اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کے ایک گروہ وارد ہوا تھا جس کی تعداد 9 سے 10 ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے انہوں نے یہاں ایک چھوٹا ہیکل (یہودی عبادت گا) بھی تعمیر کی تھی۔ اٹھارہویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں یہودی عراق سے عمان ہجرت کرگئے، اسی طرح انیسویں صدی کی تیسری دہائی کے دوران بغداد کے گورنر ڈیوڈ پاشا نے ان کے ساتھ سخت سلوک اختیار کیا تھا، اس کے بعد 1830ء میں دیگر یہودیوں کی طاعون کی وجہ سے ہجرت ہوئی جبکہ دریائے دجلہ میں سیلاب کی وجہ سے 1831ء ایک اور ہجرت ہوئی۔ سلطان سید بن سلطان کی حکمرانی کا دور عمان میں یہودی اقلیت کی خوشحالی کا دور تھا، یہاں وہ مسقط، سوہر اور مطہرہ میں آباد تھے 1835ء میں اس کے یہودی گروہ کی تعداد لگ بھگ 1400 ہوگئی تھی۔
کویت کے محقق یعقوب یوسف الابراہیم نے کویت میں یہودیوں کی موجودگی کی تاریخ کا سن 1776 ء تک کا پتہ لگایا ہے، جب ایران میں زندیہ ریاست کے بانیوں کے ذریعہ اس شہر پر قبضہ کرنے کے بعد بصرہ کے یہودیوں نے کویت ہجرت کی تھی۔ فرانسیسی مستشرقین واٹل کینیٹ نے اپنی ایک کتاب میں جس تعداد کا ذکر کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1890 ء میں کویت میں کل اآبادی 20،000 افراد پر مشتمل تھی جبکہ اس میں تقریبا 50 یہودی تھے۔ کویت یونیورسٹی میں جدید اور عصری تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر یوسف المطیری کی تحقیق کے مطابق پہلی جنگ عظیم کے دوران کویت میں یہودیوں کے 200 کے قریب خاندانوں تھے، یعنی 800 اور 1000 افراد کے درمیان، ان میں سے بیشتر نے بعد ازاں 1930 اور 1947ء میں ہجرت کی ، جبکہ بحرین میں ان کی تعداد 600 سے 800 کے درمیان بتائی گئی ہے.
اس مختصر سے جائزے سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسرائیل صرف عرب ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرکے معاملات کو سفارتی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہتا بلکہ اپنی جبلت کے مطابق یہ صہیونی ریاست خلیجی اور دیگر عرب ملکوں کے مسلم معاشروں میں داخل ہوکر نہ صرف ان ملکوں کی سیکورٹی کے لئے خطرہ بنے گی بلکہ معاشرتی بگاڑ کا سب سے بڑا سبب بن جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔