لوٹ کے بدھو۔۔۔!! سندھ گورنمنٹ:چوردروازے سے بنے سرکاری افسران کی اصل محکموں میں واپسی
شیئر کریں
ذوالفقار بھٹو کے وقت سے ہی حکومتیں اقربا پروری کی بنیاد پر افسران تعینات کر کے میرٹ کا قتل عام کر رہی تھیں
سپریم کورٹ میں8سال سے مقدمہ جاری،عدالت کی سختی پر چیف سیکرٹری نے ایسے 102افسران کی فہرست پیش کردی
عقیل احمدراجپوت
ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے سیاست کو عوام کی جڑوں تک پہنچایا مگر یہ خراب کریڈٹ بھی بھٹو کو ہی جاتا ہے کہ انہوں نے اداروں کا وقار ختم کیا۔ سرکاری افسران کی عزت و احترام میںکمی،ذوالفقار بھٹو کے دور میں نوڈیرو کے رہائشی پنجل خان ایک باورچی تھے، بھٹو نے اس کو اے ایس آئی بھرتی کیا اور چند برسوں میں اس کو ڈی آئی جی کا چارج دلایا۔اس طرح سے اصل میں اداروں پر وار کیاجاتا ہے کیونکہ براہ راست افسر بھرتی کرنے سے محنتی نوجوانوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ بھٹو کے بعد ضیاءالحق کے دور میں براہ راست بھرتیوں کا سلسلہ جاری رہا مگر زیادہ افراد کو براہ راست افسر نہ لگایاگیا۔ تاہم پیرپگارا کے معتمدینِ خاص خان محمد مہر،غلام حیدر منگریو، چراغ الدین ہنگورو سمیت کئی افراد کو براہ راست اسسٹنٹ کمشنر بھرتی کیا گیا۔ پھر 88 ءمیں بےنظیر بھٹو کی حکومت آئی تو 100 سے زائد افراد کو براہ راست اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پی بھرتی کیاگیا۔ پھر جام صادق کی حکومت آئی ،اس نے بھی دل کھول کر براہ راست افسران بھرتی کیے۔ عبداللہ شاہ، لیاقت جتوئی، ارباب غلام رحیم، علی محمدمہر اور قائم علی شاہ کے دوسرے اور تیسرے دور میں200 سے زائد افراد کو براہ راست ڈی ایس پی اور اسسٹنٹ کمشنر بھرتی کیا گیا۔ مخدوم امین فہیم کے دو بیٹے، سابق صوبائی وزیر ظفر لغاری کا ایک بیٹا، موجودہ وزیراعلیٰ سندھ کے بہنوئی کو بھی براہ راست اسسٹنٹ کمشنر بھرتی کیاگیا۔ جب سپریم کورٹ نے اس مسئلے پر توجہ دی تو اب کہیں جا کر حکومت سندھ نے 102 افسران کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی ہے کہ ان افراد کو مختلف وزرائے اعلیٰ نے رولز 9-Aاستعمال کرکے براہ راست اسسٹنٹ کمشنر بھرتی کیا۔ اب ان میں سے اکثر افسران تو سیکریٹری بن چکے ہیں، آفتاب کھتری کو تو ریٹائرڈ ہوئے بھی پانچ سال ہوچکے ہیں ،اب بتایا جائے کہ کیا عوام نے اس لیے ووٹ دیے تھے کہ ایم پی اے ، ایم این اے اور سینیٹر اپنی اولادوں کو براہ راست افسران بھرتی کرائیں۔ گھوٹکی کے ایم پی اے احمد علی پتافی کے بیٹے عبدالقیوم پتافی کو ڈی ایس پی، گھوٹکی کے رکن سندھ اسمبلی جام سیف اللہ دھاریجو کے بھائی ظفر اللہ دھاریجو کو ڈی ایس پی، بھٹو اسٹیٹ کی زمینیں سنبھالنے والے خاندان کے فرد الطاف لغاری کو ڈی ایس پی بھرتی کیا گیا اور آج وہ ایس ایس پی بنے بیٹھے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان کی اہلیت اور قابلیت کیا تھی؟کیا یہی کہ وہ ایم پی اے، ایم این اے کے بیٹے ہیں؟
جو نوجوان دن رات محنت کرتے ہیں، پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرتے ہیں وہ صرف چند مارکس پر گھر بیٹھنے پر مجبورہو جاتے ہیں یا پھر ان کا میرٹ نہیں بن پاتا مگر ایم پی اے ، ایم این اے کے بیٹوںکی موجیں ہیں کہ ان کے لئے میرٹ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ تو سب اقربا پروری کی وجہ سے مفت میںاسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پی بن جاتے ہیں اور پھر وہ ترقی پاتے پاتے کمشنر، سیکریٹری اور ڈی آئی جی بن جاتے ہیں، ان کے لیے ترقی کی راہیں بھی کھلی رہتی ہیں۔
سپریم کورٹ پچھلے 8 سال سے یہ مقدمہ سن رہی ہے مگر حکومت سندھ کی دیدہ دلیری دیکھنے کے قابل ہے کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہورہی کہ ایک مرتبہ ان افسران سے جان چھڑالے ،آٹھ سال سے سپریم کورٹ متواتر احکامات دے رہی ہے اور حکومت سندھ اس پر عمل کرنے سے گریز کررہی ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ تین چیف سیکریٹریز نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدر آمد کیا تو ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ اب اس مرتبہ سپریم کورٹ نے ذرا سختی سے حکم جاری کیا ہے تو چیف سیکریٹری رضوان میمن نے بھی ان افسران پر واضح کیا ہے کہ اب حکومت سندھ ان کا عدالتوں میں دفاع نہیں کرے گی ،بہتر ہوگا کہ وہ خود جاکر عدالتوں میں اپنا کیس پیش کریں اور عدالتیں جو حکم دیں گی حکومت سندھ اس پر عمل کرے گی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شرقی کراچی محمد خان رند کو بدھ کی شام عہدے سے ہٹا کر واپس سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں گریڈ 16 میں بھیج دیا۔ اس طرح باقی افسران کی اصل محکموں میں واپسی بھی اب شروع ہوجائے گی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومتوں نے جس طرح اندھیر نگری چوپٹ راج کے مصداق اپنی مرضی سے کلرک یا نان گزیٹیڈ ملازمین کو براہ راست اسسٹنٹ کمشنر بھرتی کرایا اس سے میرٹ کا قتل عام کیاگیا۔ بھلا ہو سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جنہوں نے قانون وانصاف کا بول بالا کیا اور چور دروازے سے افسر بننے والوں کو اصل محکموں میں واپس بھیجا۔ایسے اقدامات ہوتے رہے تو کم ازکم اب سندھ میں میرٹ پر وان تو چڑھے گا!!!