کراچی کی شاہراہیں بھی آنسوبہارہی ہوں گی
شیئر کریں
یہ ہماری وہ بدقسمتی ہے کہ جس کی کوئی حد اور سرحد نہیں ہے، اور نہ ہی اندازے کی گنجائش ہے۔ آج ہمارے وطن عزیز پر اُس سیاست کا قبضہ ہے جس نے قوم کو یرغمال بنارکھا ہے اور قوم افسوس اور ماتم تو کرتی آرہی ہے مگر اس کو کوئی ایسا مسیحا نہیں مل سکا جو اُس کے سرپر دست شفقت رکھتا اور مشکلات کے تدارک کے لیے ہاتھ بڑھاتا۔ یہ بھی صداقت کا آئینہ دار ہے کہ جب انسان مایوس ہوکر اپنی امیدوں کے چراغ بجھادیتا ہے تو پھر وہ اپنے ہاتھ بد دعا کے لیے اپنے کندھوں سے اوپر اٹھالیتا ہے، پھر جو حکومت یا حکومتی ذمہ دار بد دعا کی زد میں آجاتے ہیں تو پھر وہ خشت پا بن جاتے ہیں اور طرفہ تماشا بن کر خانہ بدوشوں اور بھکاریوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ نشانہ عبرت بن کر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے اور اُس کے کردار و عمل سے وہی سبق حاصل کرلیتے ہیں جن پر اللہ کا کرم اور فضل شامل حال ہوجاتا ہے۔
ہم نے ہمیشہ یہ صداقت قلم بند کی اور ایوان اقتدار تک یہ آواز پہنچائی کہ پاکستان دنیائے اسلام کا عظیم ملک اور اقوام عالم میں بڑی انفرادیت کی حامل قوم ہے اور اس ملک کی مٹی اور مٹی کا ذرہ ذرہ گرانقدر ہے اور یہاں تک کہ اس کی مٹی کا احترام بھی ہم پر واجب ہے مگر ہمیں آج تک کوئی ایسا سیاسی قائد نہ مل سکا جو ملک اور قوم کے تقدس کی پاسداری میں اپنی کوئی تاریخ رقم کرتا۔ آج سیاسی رسہ کشیوں کے نت نئے انداز ایجاد ہورہے ہیں اور قوم طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہورہی ہے۔ کراچی بین الاقوامی، منی پاکستان اور ملک کی اقتصادی ترقی کی شہ رگ کا شہر تو ہے جو بھی اس کے دارالخلافے میں آیا نہ صرف نام کا سیاستدان آیا بلکہ اپنے آپ کو صوبے کا افلاطون، ارسطو اور لقمان حکیم ہی ثابت کرتا رہا، آج شہر کراچی ناگفتہ بہ حالت میں ہے۔ یونیورسٹی روڈ ہو یا شارع فیصل ،ہرسڑک کی کھدائی کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس پر تعمیری سرگرمیاں سست روی سے چل رہی ہیں، پیش رفت کے لیے کوئی منصوبہ نہیں جن کی وجہ سے ہر روز حادثات بڑھ رہے ہیں۔ شارع فیصل وہ شاہراہ ہے جس پر ہر روز لاتعداد ملکی و غیر ملکی شخصیات سمیت ہزاروں شہریوں کا گزر ہوتا ہے مگر ہر گزرنے والے شرمندہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، اس کے علاوہ بھی شہر کے داخلی حالات پستی کے قبرستان میں داخل ہورہے ہیں، ہم اپنے گزشتہ ماتم کی طرح پھر ماتم کرنے پر مجبور ہیں کہ اس شہر کی گلیوں، محلوں اور گزر گاہوں کے راستے غلیظ پانی اور گندگی سے لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ بچوں کے اپنے اسکول پہنچنے تک میں بڑی مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔کوئی متبادل نظام نہیں ہے اور نہ ہی عوام کی سہولت کے لیے منصوبہ بندی ہے، ضرورت تو اس امر کی تھی کہ وفاقی حکومت بھی اس عظیم الشان شہر کی رونق اور خدمت پر پوری اور بھرپور توجہ دیتی، مگر تمام سیاستدان جو اقتدار میں ہیں وہ اقتدار بچانے اور جو اقتدار سے باہر ہیں وہ اقتدار کے حصول کی جنگ میں مصروف ہیں اور اہل فکر و نظر تو پر امید نہیں کہ کوئی امیدبر آئے مگر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے کہ مٹی سے سونا اگر اُگانا چاہے تو سونے کی فصل اُگ سکتی ہے۔ ہم نے تو ملک کے تمام سیاستدانوں کو اپنا خط لکھ کر بتادیا تھا کہ جس طرح ٹوٹے ستاروں اور قدموں سے اکھڑی قوموں کے واپسی کے کوئی راستے نہیں ہوتے اس طرح قوم کو شرمندہ اور برباد کرنے والوں کو کوئی طاقت شکست سے نہیں بچا سکتی اور اس سے بھی کوئی انکار نہیں کہ وطن کی مٹی بھی اس کو اپنے اندر دفن کرنے سے روک دیتی ہے اور میرا پھر یہ پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے کہ…. ”ملک کا تقدس اور احترام ہم سب پر واجب ہے۔“
٭٭