میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جارحانہ اور ہنگامہ خیز صدارت

جارحانہ اور ہنگامہ خیز صدارت

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۳ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

دوروز قبل بیس جنوری کو ڈونلڈٹرمپ نے امریکہ کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھا لیا ہے ۔عام خیال یہ ہے کہ ٹرمپ کی نئی صدارتی مدت خاصی ہنگامہ خیز اور جارحانہ ہوگی کچھ کا خیال ہے کہ رپبلکن کے پاس اقتدار ہو یا ڈیموکریٹس کی حکمرانی، داخلی و عالمی حوالے سے امریکی سوچ یا رویے میں زیادہ تبدیلی نہیں آتی۔ دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ پہلی مدتِ صدارت کے دوران ٹرمپ کو مقتدرہ کا آزادانہ کام کرنے سے روکناہے یہاں تک کہ پہلی بارجوہری حوالے سے امریکی صدر کے اختیارات پر قدغن لگائی گئی مگر ٹرمپ کی جارحانہ طبیعت کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ پہلی صدارت کے دوران جو نہیں کرپائے وہ سب کچھ موجودہ صدارتی مدت کے دوران کرنے کی کوشش کریں گے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدرہ کو شکست دیکرمنتخب ہوئے ہیں اِس لیے بعیدنہیں کہ وہ مان کر چلنے کی بجائے منواکر چلنے کی کوشش کریں۔ انھوں نے حلف اُٹھانے سے قبل مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے جن خیالات کا اظہارکیا ور قیدیوں کی عدم رہائی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی کا اثرہی تھا کہ اُن کے حلف سے ایک روزقبل ہی 19 جنوری اتوارکے روز حماس اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا۔ فریقین میں قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی جاری ہے ،اگلے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے ساتھ انتظامی امور جیسے معاملات بھی طے پانے کا امکان ہے۔ دراصل مشرقِ وسطیٰ میں روس اور ایران کی گرفت کمزور ہوچکی ہے۔ اسی لیے امن معاہدہ امریکہ نے ضروری سمجھا تاکہ خطے کامنظرنامہ اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دے سکے وگرنہ تو جب تک صورتحال موافق نہ سمجھی تب تک امن کی کوششوں سے گریز کیا گیا ۔
حلف برداری سے قبل ٹرمپ عندیہ دے چکے کہ وہ درآمدات پر ڈیوٹی بڑھائیں گے اِس حوالے سے صدر شی جن پھنگ نے ٹرمپ سے بات چیت بھی کی تاکہ مستقبل میں متوقع تجارتی جنگ کے خدشات کم ہوں مگر ٹرمپ ہر صورت عالمی معاشی و تجارتی منظرنامہ امریکہ کے لیے سازگار بناناچاہتے ہیں اور اِس کے لیے وہ ہر حدتک جا سکتے ہیں امریکہ جسے معاشی نمو برقرار رکھنے کے لیے تعلیم ،صحت،زراعت اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں افرادی قوت کی قلت کا سامناہے لیکن ٹرمپ غیر قانونی تارکینِ سے کسی قسم کی نرمی پر تیارنہیں اور بڑے آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے مقصدڈالرکی ملک سے باہر ترسیل روکنا ہے لاکھوں کی تعدادمیں امریکہ میں آباد غیر قانونی تارکینِ وطن کو گرفتار اورملک سے بے دخل کرنااُن کا انتخابی وعدے تھا حلف اُٹھاتے ہی جنوبی سرحدپر قومی ایمرجنسی لگانا،مریخ پر امریکی جھنڈا لہرانے کا منصوبہ،کرپٹ مقتدرہ سے چھٹکارے اورآزادی اظہارکی بحالی جیسے اعلانات سے ظاہرہوتا ہے کہ ٹرمپ کا رویہ پہلے کی نسبت موجودہ دورصدارت میں زیادہ درشت اور بے لچک ہوسکتاہے۔
ٹرمپ لاکھ طاقتورسہی مگر عالمی منظرنامہ کچھ زیادہ سازگار نہیں جب فرانس کے جیسے طاقتورملک کے وزیرِ اعظم اپنے ملک سمیت یورپ سے سے مطالبہ کر چکے کہ ٹرمپ کے خلاف کچھ نہ کیا تو یورپ تباہ ہو سکتاہے ڈنمارک ،ہنگری،جرمنی اور اٹلی جیسے ممالک میں بھی پریشانی کی لہرہے ایسے کئی مسائل ہیں جنھیں ٹرمپ اگر حل نہیں کرتے توامریکہ نیٹو میں شامل اتحادیوں سے دورہو سکتاہے شنید ہے کہ نئی مدت کے اولیں سو روز کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ ایران کے حوالے سفارشات مرتب کرنے پر ہے ایسی اطلاعات بھی ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل کے لیے پریشانی کا باعث ہیں کہ عملی طورپر تجربات نہ کرنے کے باوجود ایران جوہری طاقت بن چکا ہے ایران کو مزید جوہری پیش رفت سے روکنے کے لیے امریکہ چاہتاہے جمہوریت کے فروغ کے لیے ایران میں متحرک عناصر سے کام لے اور جمہوریت نواز اور لبرل عناصر کی مالی ضروریات ضبط اثاثوں کے زریعے پوری کرتے ہوئے مضبوط کیاجائے علاوہ ازیں امریکہ چاہے گا کہ اتحادی اور عالمی شراکت دار ایک مشترکہ اور متفقہ موقف اپنائیں تاکہ ایرانی قیادت کو جوہری پروگرام کے حوالے سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا جا سکے بصورتِ دیگر ایک اتحاد کی صورت میں ایران کی دفاعی تنصیبات کے خلاف کاروائی کا آغاز ہو اگر ٹرمپ کے ہمرکاب اُنھیں قائل کر لیتے ہیں تو ہر انتہائی اقدام کی توقع کی جا سکتی ہے ۔
ٹرمپ جنگوں کے خلاف ہیں اِس حوالے سے وہ ایک سے زائد بار اظہار کر چکے مگر جس قسم کی کابینہ تشکیل دے رہے ہیں اُس سے خارجہ پالیسی پر انتہاپسندوں کا غلبہ ہو تانظرآتا ہے یہ درست ہے کہ افغانستان سے جلد انخلا میں ایسے ہی لوگوں کا کلیدی کردار تھا لیکن خدشہ ہے کہ یہی لوگ ٹرمپ مخالف لوگوں کے خلاف کاروائیاں کرنے سمیت عالمی تنازعات پر الگ موقف کی طرف جا سکتے ہیں بظاہریہ مداخلت کے قائل نہیں لیکن معاشی و دفاعی مضبوطی کا ایجنڈارکھنے کے ساتھ کسی عملی کاروائی کی طرف جابھی سکتے ہیں مشرقِ وسطیٰ سے فرصت مل چکی اب روس اوریوکرین تنازع ختم کرانے کی کوشش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر ڈالر کی بقا اِس میں ہے کہ روس کو شکست ہو اب دیکھنا یہ ہے کہ روس کو شکست دیے بغیر کیا ٹرمپ اور اُن کے ساتھی ڈالر کی بقاکی جنگ جیت پائیں گے ؟ قرین قیاس یہی ہے کہ ٹرمپ اور اُن کے ساتھیوں کی کوشش ہو گی کہ روس کو برکس ممالک کے ساتھ مل کر نئی کرنسی لانے سے روک جائے وگرنہ یوکرین کے میدان میں ایسی شکست سے دوچار کیا جائے کہ وہ پھرکبھی دوبارہ سنبھل نہ سکے۔
امریکی طاقت کی بحالی ٹرمپ کے پیشِ نظرہے جسے موجودہ حالات میں کئی چیلنج درپیش ہیں جس کے لیے پُرامن بقائے باہمی کی پالیسی اور آزادانہ تجارتی سرگرمیاں ناگزیرہیں مگر ٹرمپ نے ایسا کرنے کی بجائے بیک وقت کئی محازکھول دیے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ بحراوقیانوس اور بحرالکاہل کے درمیان روابط وتجارت کے لیے استعمال ہونے والے بڑے بحری راستے پانامہ نہر پراختیار امریکہ کے پاس ہو وہ محصولات ختم نہ کرنے کی صورت میں بزورقبضے کا اِرادہ ظاہر کر چکے کیونکہ اِس راستے سے بحری تجارت آسان وتیز ہے وجہ یہ ہے کہ یہ نہر ساڑھے بائیس سو کلومیٹربحری سفرکو ساڑھے نو سوکلومیٹرلانے کا باعث ہے جونصف سے بھی کم بنتاہے قبل ازیں بھی اِس نہری راستے کا اختیار امریکہ کے پاس تھا لیکن1999میں ایک معاہدے کے تحت یہ کنٹرول پانامہ کو منتقل کر دیاگیا یہ بحری راستہ دفاعی نکتہ نظرسے بھی بہت ا ہم ہے اسی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے امریکہ چاہتا ہے اِس راستے پر اجارہ داری پھربحال ہو مگریہ کوشش لاطینی ممالک میں بے چینی کوجنم دینے اور امریکہ مخالف لہرکوقوی تر بنا سکتی ہے ۔
ہر کام طاقت اور دھونس سے ممکن نہیں طاقت اور دھونس کے بے جا مظاہرے سے عالمی امن کے قیام میں مددنہیں مل سکتی مگرشایدٹرمپ
کواِس کا ادراک نہیں انھوں نے پہلے صدارتی دور میں دفاعی حوالے سے اہم ڈنمارک کے ملکیتی جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کی بات کی اب دوبارہ اسی جزیرے کو خریدنے وگرنہ بزورقبضہ کرنے کی تجاویز سامنے آرہی ہیں سارا سال برف سے ڈھکے رہنے والے بحراوقیانوس اور بحرمنجمد شمالی کے درمیان واقع اِس جزیرے گرین لینڈ کو حاصل کرنے کے لیے نئی امریکی انتظامیہ میں ہیجان کی کیفیت عیاں ہے اِس کے لیے وہ یورپی یونین اور نیٹو جیسے دفاعی اتحاد کا حصہ ڈنمارک کو ناراض کرنے پر بھی تیار ہے خیر ٹرمپ توکینیڈاسرحد کو بھی مصنوعی قرار دیتے چاہتے ہیں کہ کینیڈاضم ہوکر امریکہ کی 51ویں ریاست بن جائے ایسے اقدامات ٹرمپ کے موجودہ دورِ صدارت کو جارحانہ اور ہنگامہ خیز ثابت ہونے کی طرف اِشارہ کرتے ہیںظاہر ہے جس سے عالمی تقسیم کو وسیع کرنے کے ساتھ امن کونقصان ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں