میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بیرون ملک سکھوں کی زندگیوں کو بھارت سے خطرہ

بیرون ملک سکھوں کی زندگیوں کو بھارت سے خطرہ

ویب ڈیسک
منگل, ۲۳ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمد چودھری

بھارت اور کینیڈا کے درمیان سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل پر پیدا ہونے والے تنازع کے اثرات نہ صرف بھارتی پنجاب کے سکھ محسوس کر رہے ہیں بلکہ ان کو خوف ہے کہ اس سے ان کے دیگر ممالک میں اچھی زندگی کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔ ہردیب سنگھ نجر جو بھارت کو 25 سال قبل خیرآباد کہہ کر کینیڈین شہری بن گئے تھے، کو گزشتہ برس جون میں ایک گردوارے کے باہر گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔ وہ خالصتان تحریک سے وابستہ رہنما تھے۔اس کے بعد امریکہ میں مقیم سکھ رہنما پتونت سنگھ پنون کو ہدف بنانے کا منصوبہ تھا،مگر بروقت اطلاع کے پیش نظر یہ منصوبہ نہ صرف پکڑا گیا بلکہ بھارتی سرکار کے ایک افسر کو بھی شامل تفشیش کیا گیا۔ کینیڈا، امریکا میں مقیم سکھوں کے بعد اب برطانوی سکھوں کو بھی مودی سرکار سے جان کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور انہیں بھارت کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگی ہیں جس کے بعد برطانیہ کے ارکان پارلیمان نے سیکیورٹی منسٹر سے ملاقات کی درخواست کر دی ہے۔برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے برطانیہ کے سیکیورٹی منسٹر سے ہنگامی اجلاس بْلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایس این پی کے کرسٹن اوسوالڈ اور مارٹن ڈوچرٹی ہیوز نے لارڈ ٹام واٹسن کے نام خط لکھا جب کہ ارکان پارلیمان کی جانب سے خط برطانوی سیکیورٹی منسٹر ٹگینڈہاٹ کو لکھا گیا ہے۔ ٹام ٹگینڈ ہاٹ کو باضابطہ درخواست دینے والوں میں رکنِ پارلیمان پریت کورگل، افضل خان، تنمن جیت سنگھ ڈھیسی، کنزر ویٹوو کیرولین نوکس شامل ہیں اور انہوں نے بھارتی حکومت کی جانب سے دنیا بھر میں سکھوں کو لاحق خطرے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ارکان پارلیمان کا اپنے خط میں کہنا ہے کہ اس ہفتے کئی برطانوی سکھوں کو پولیس نے نوٹس دیا ہے جس میں انہیں ان کی زندگیوں کو لاحق خطرات سے خبردار کیا گیا ہے۔برطانوی سکھ فیڈریشن (یو کے) کے مشیر جس سنگھ نے خطرے کو تشویشناک قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ آزاد وطن کی مہم چلانا افراد کا قانونی حق ہے، چاہے وہ برطانیہ میں ہو یا بیرون ملک۔ برطانیہ میں خالصتان تحریک کے لیے سرگرم اوتارسنگھ کھنڈا گزشتہ جون میں پراسرار طور پر انتقال کرگئے تھے، جس کے چند روز بعد سکھ فار جسٹس کے کینیڈا چیپٹر کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کردیا گیا تھا۔لواحقین کوشبہ ہے کہ اوتارسنگھ کھنڈا کو بھی بھارت نے زہر دے کر ہلاک کیا ہے۔
اس حوالے سے برطانوی پولیس نے وارننگ بھی جاری کردی ہے۔ برطانیہ میں جان کو درپیش خطرے کی وارننگ پولیس کے پاس خطرے کی نشاندہی کے ثبوت پر جاری کی جاتی ہے۔ترجمان ویسٹ مڈلینڈزپولیس کا کہنا ہے کہ لوگوں کی جان کے خطرے کی معلومات ملنے پر ایکشن لیتے ہیں۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ کینیڈا کے پاس قابل اعتبار شواہد ہے کہ نجر کے قتل میں ممکنہ طور پر بھارتی ایجنٹ ملوث ہیں۔ بھارت، جس نے ہردیب سنگھ نجر کو 2020 میں ‘دہشت گرد’ قرار دیا تھا، نے کینیڈا کے الزامات کو برہمی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے بھارت میں کینیڈین انٹیلیجنس کے چیف کو ملک سے نکال دیا، کینیڈا کے سفر کے لیے ٹریول ایڈوائزی جاری کی اور کینیڈین شہریوں کو ویزے جاری کرنا بند کیا۔کینیڈا میں غیرملکی طالب علموں میں سب سے زیادہ کا تعلق بھارت سے ہے اور گذشتہ برس کینیڈا میں بھارتی طالب عملوں کی تعداد 47 فیصد یعنی تین لاکھ 20 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔وہ طالب علم جو کینیڈا جانا چاہتے ہیں،کو خدشہ ہے کہ کینیڈا اب سٹوڈنٹ ویزا نہیں دے گا یا بھارتی حکومت اس میں رکاوٹیں پیدا کرے گی۔
بھارت اب بہت پریشان ہے اور بھارتی حکومت کی جانب سے برطانیہ اورکینیڈا کی حکومتوں کو خطوط لکھے گئے ہیں کہ وہ اپنے ممالک میں سکھ تنظیموں کو بھارت کے خلاف کسی تحریک اور جدوجہد سے روکیں لیکن دونوں حکومتوں نے ان خطوط میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے پرامن احتجاج سکھوں کا حق قرار دیا ہے۔ 1984میں جب اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سکھ علیدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے آپریشن کا حکم دیا تو یہ سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان تنازع کا فلیش پوائنٹ بن گیا تھا۔ اس آپریشن کے بعد اندرا گاندھی کے سکھ باڈی گارڈز نے ان کو قتل کر دیا تھا۔کوئی بھی خالصتان کی حق خودارادیت کی جنگ لڑتا ہے تو بھارت ان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
تحریک خالصتان درحقیقت سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو، بھارت سے الگ کر کے ایک آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔زیادہ تر سکھ بھارتی پنجاب میں آباد ہیں اور امرتسر ان کا مرکزی شہر ہے۔ 1980 کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی حکومت نے آپریشن بلیو سٹار کر کے اس تحریک کو کچل ڈالا۔جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے، سکھوں کی اکثریت اب خالصتان کو بنانے کے لئے متحد ہوچکی ہے اوردنیا کے کئی ممالک ان کے ساتھ ہیں۔پنجاب کے سکھوں اور نریندر مودی کی حکومت کے درمیان تعلقات اس وقت سے کشیدہ چلے آرہے ہیں جب سکھ کسانوں نے نئے زرعی قوانین کے خلاف سال بھر تحریک چلائی اور دارالحکومت نئی دہلی کا گھیراؤ کیا جس کے بعد مودی حکومت نئے قوانین کو واپس لینے پر مجبور ہوئی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں