میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
21دسمبرکواسمبلی کااجلاس بلایاہی نہیں گیاتووزیراعلی اعتماد کاووٹ کیسے لیتے؟ اسپیکر کا گورنر کو جوابی خط

21دسمبرکواسمبلی کااجلاس بلایاہی نہیں گیاتووزیراعلی اعتماد کاووٹ کیسے لیتے؟ اسپیکر کا گورنر کو جوابی خط

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۲ دسمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر بلیغ الرحمان کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میری رولنگ مکمل آئینی و قانونی ، آپ کے خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اسمبلی آج(جمعہ کو) نہیں ٹوٹ سکتی، شاید جنوری کے پہلے ہفتے میں جا کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ وغیرہ کا مرحلہ مکمل ہوگا۔ اسپیکر نے گورنرپنجاب کو لکھے گئے خط میں اپنی رولنگ کے حوالے سے آئینی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا لکھا گیا خط حقائق کے منافی ہے، پنجاب اسمبلی رولز آف پروسیجر کے آرٹیکل 209 اے کے تحت 20 دسمبر کو دی جانے والی رولنگ کے تحت آپ کا طلب کردہ اجلاس غیرآئینی تھا۔ خط میں کہا گیا کہ اسپیکر کو ایوان میں پیش ہونے والے ہر معاملے پر رولنگ دینے کا اختیار ہے، اسپیکر اسمبلی کی کارروائی پر آزادانہ فیصلہ کر سکتا ہے، سپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ کو آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اسپیکر نے کہا کہ آپ کی جانب سے بھجوائے گئے خط کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں ہے، آپ کا یہ کہنا کہ میری وجہ سے وزیراعلی اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکے، غلط ہے، 21 دسمبر کو اسمبلی کا کوئی اجلاس بلایا ہی نہیں گیا تھا تو وزیراعلی کیسے اعتماد کا ووٹ لیتے، میری 20 دسمبر کی رولنگ مکمل آئینی و قانونی اور آپ کا اس کے جواب میں 21 دسمبر کے خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔دوسری جانب سبطین خان نے اسمبلی احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گورنر نے ایک خط لکھ کر اعتماد کا ووٹ لینے کا لکھا، میں نے جواب میں کہا کہ گورنر اجلاس بلوا سکتے ہیں اعتماد کے ووٹ کیلئے مگر وزیراعلی کو ڈی نوٹیفائی نہیں کر سکتے، آرٹیکل 130 (7) کے مطابق گورنر کو نیا اجلاس طلب کرنا ہوتا ہے، موجودہ چلتے ہوئے سیشن کے دوران گورنر نیا سیشن نہیں بلانا سکتے تھے اور میں نے یہی جواب لکھ کر بھیج دیا۔ سبطین خان کا کہنا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ چاہے ایوان میں دی جائے یا چیمبر میں، وہ موثر ہوتی ہے، مجھے وزیراعلی کو بچانے کا نہ بچانے کا کوئی مسئلہ نہیں، میں آج دوبارہ گورنر کو خط لکھ رہا ہوں، آرٹیکل 209 اے اور 235 کے تحت میرے پاس مکمل اختیارات ہیں، گورنر غیرآئینی احکامات جاری نہ کریں، آئین و قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں ہوگا۔ اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق سوال کے جواب میں سبطین خان نے کہا کہ ابھی تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہے، اس پر کارروائی کرنے میں اتنا وقت لگے گا کہ کل کیسے ٹوٹ سکتی ہے، ابھی اس پر نوٹس ہونا اور اسے ارسال کرنا ہے، اس میں وقفہ بھی ہوتا ہے، ایم پی ایز کو بلایا جاتا ہے، بہت جلدی بھی ہوئی تو شاید جنوری کے پہلے ہفتے میں جا کر اس پر ووٹنگ وغیرہ کا مرحلہ مکمل ہوگا۔ اسپیکر اسمبلی نے کہا کہ سیشن چل رہا ہو یا نہ چل رہا ہو، گورنر وزیراعلی کو ڈی نوٹیفائی نہیں کر سکتے، اگر وہ ڈی نوٹیفائی کرتے تو ہمارا صدر کو لکھا جانے والا خط تیار ہے، وہ ہم بھیج دیتے، ہم فوری طور پر اسمبلی توڑنا چاہتے ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد کا معاملہ آ گیا جس کی وجہ سے معاملہ تاخیر کا شکار ہوا۔ سبطین خان نے مزید کہا کہ میرے اور ڈپٹی اسپیکر کیخلاف تحاریک عدم اعتماد پر قانون کے مطابق کارروائی ہو گی، میں وزیراعلی اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کے اجلاس کی صدارت کر سکتا ہوں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں