میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آہ! سقوط یروشلم

آہ! سقوط یروشلم

منتظم
جمعه, ۲۲ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

یروشلم کا یہود کے ہاتھوں میں جانے کے بعدمیرا’’ عالم اسلام‘‘ کا کمزور تصور آج کے دھچکے کے بعد پتہ نہیں کیوں بکھر گیا؟اور میں نہ معلوم کیوں لکھنے میں وہ چاشنی اور مٹھاس ہی ختم ہو چکی ہے جو کل تک ناقص ہی صحیح پر کہیں تو تھی ۔شاید میں مایوس ہوا ہوں !ہاں جی میں مایوس ہوں ،آپ کہہ سکتے ہیں کہ مایوسی بزدلوں اور کمزور انسانوں کی صفت ہے ،آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قنوطیت پسندی بلندعزائم رکھنے والی قوموں کے لیے بہت ہی مہلک ہے ۔آپ اسے سو گنا زیادہ بھی کچھ کہنا چاہے تو کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ میں نے اب توبہ کی ہے اس بات سے کہ میں یہ مان کر چلوں کہ کہیں کوئی ’’عالم اسلام ‘‘ہے ۔عالم اسلام سے مراد اگر ڈیڑھ ارب مسلمان ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اگر اسے طارق بن زیادؒ،محمد بن قاسمؒاور صلاح الدین ایوبیؒ کی امت مرادہے تووہ بہت پہلے مر چکی ہے ۔اب ہم میں شاہ سلمان،بشار الاسد،عبدالفتاح سیسی،اشرف غنی،شیخ حسینہ ،نواز شریف اورزرداری ہیں کل کے چہروں کو بھی دیکھ لیجیے اور آج کے ’نامی گرامی‘ بھکاریوں کو بھی دیکھ لیجیے یقیناََ آپ بھی میرے ساتھ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کے کارِ خیر میں شامل ہو جائیں گے۔ اللہ کرے کہ میری یہ تحریر کسی عالم اسلام کے فتویٰ بازشیدائی کے ہاتھ میں نہ لگ جائے جو یہ کہنا شروع کردے کہ’’ مایوسی کفر ہے‘‘اور میں نے تحریراََمایوسی کے اقرار کے بعد ’’العیاذ باللہ کفر کا ارتکاب ‘‘کیا ہے اور وہ مجھ سے تجدید ایمان کا مطالبہ کرنے لگ جائے ۔برصغیر میں پروپیگنڈا مشنری سے کچھ بھی بعید نہیں لہذا احتیاطاََ عرض ہے کہ اللہ سے مایوس ہو ناممنوع ہے انسانوں سے نہیں (زمرآیت نمبر:53)۔
ملل و اُمم کے لیے بعض علامات ’’موت و حیات‘‘کی حیثیت رکھتی ہیں ۔شعائر اللہ ان علامات کو کہتے ہیں جن سے اللہ یاد آتا ہے اور ان کی بے حرمتی گناہِ کبیرہ ہے ۔ہماری مذہبی علامات کی جانب سفر کو بھی اللہ تعالیٰ نے عبادت کے دائرے میں داخل کر کے ہمارے اوپر احسان فرمایا ہے ۔القدس یایروشلم زمین کے ٹکڑے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے ایمان و اعتقاد کا مرکز ہے ۔یہ قبلہ اول ہے ۔یہاں قبۃ الصخرہ ہے ۔یہی معراج النبیﷺ کی پہلی منزل تھی ۔یہ انبیائِ سابقین کا مرکز و مرقد رہا ہے۔ اس سرزمین میں ہزاروں پیغمبر اور اصحاب محمدﷺ کے علاوہ لاکھوں شہداء کا خون جذب ہو چکا ہے جنہوں نے القدس احیاء کی قسم کھائی اور انھوں نے قرآن کی زبان میں اپنا وعدہ سچ کر دکھایا (الاحزاب آیت نمبر:23)۔ کعبۃ اللہ ، مدینہ نبویؐ اور مسجدِ اقصیٰ ہی ہمارا کل سرمایہ ہے جہاں اول سے آخر تک ہمارے دین و شریعت کی تاریخ وابستہ ہے ۔چودہ سو سال میں دورِ نبویؐ اور ایامِ خلافت کے بعد سے اب تک ہماری حالت ہر نئے روز پہلے سے پتلی بلکہ بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔ہم آپس میں ہی دست و گریبان ہیں ۔ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے سے ہی ہمیں فرصت نہیں مل رہی ہے کہ کچھ مثبت سوچتے ۔ہمارے سوچنے پر بھی بعض حلقوں نے پہرے بٹھا رکھے ہیں ۔ان کے ہاں درست سوچ صرف وہی ہے جو ان کے اپنے میعار کے مطابق درست ہے اور ہر وہ گمراہی ہے جو اسے باہر ہے۔ مسلکی اور تنظیمی تعصب نے اُمت کا ’’میعارِ بلند‘‘تباہ کر کے رکھدیا ۔ملوثین اس پر شرمندہ ہونے یا اظہارِ تاسف کرنے کے برعکس اس کے حق میں ’’بوسیدہ قسم کے دلائل‘‘ پیش کرتے ہیں ۔
القدس سے محرومی سے بہت پہلے جب خلافت ،اسلامی تہذیب و ثقافت ہمارے ہاتھوں سے نکلی تو مفاد پرست طبقے نے نوکِ قلم کو شمشیر جیسی تیزی دیکر اس کے حق میں دلائل پیش کرتے ہو ئے اس کے خلاف لکھنے اور بولنے کو گناہِ عظیم تک قرار دیدیا اور آج اسی جنس کا ایک طبقہ خلافت کے خاتمے پر ہاہا کار مچارہا ہے ۔یہ ہمارا ناقابل تصور المیہ ہے کہ ہم نے جو کام آج کرنا ہوتا ہے وہ ہم سو سال بعد شروع کرتے ہیں ۔چودہ سو برس میں ہم اجتماعی احتساب کے تصور سے خالی ایک امت کے برعکس ’’ماضی کے کارناموں میں گمشدہ ‘‘ایک پراگندہ اور رُخ سے محروم جماعت بن چکی ہے ۔القدس اور مسجدِ اقصیٰ سے محرومی جہاں ایک طرف ہماری بدعملی کی سزا ہے وہی دوسری جانب یہ ہماری اجتماعی غیرت کے لیے چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ہم جس عالم اسلام کو لیکر جینے کے عادی بنا دئے گئے ہیں وہ عالم اسلام ایک زندہ لاش ہے ۔باون ممالک کی بیڑ میں نہ غیرت ہے نہ جرات ! ان ممالک کے پاس بے انتہا وسائل اور قوت ہے ۔ان کا عالمی سطح پر اچھا خاصا اثرِ رسوخ بھی ہے ۔اگر یہ منتشر اور بے جان ممالک اجتماعی طور اس قوت کو استعمال میں لائیں تو یقیناََ تبدیلی آسکتی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان ممالک پر قابض حکمران ٹولہ انتہائی بد ضمیر ، بے غیرت اور بے حیا ہیں ۔ بڑے سے بڑا حادثہ بھی انہیں ظلمت سے نکالنے کا سبب نہیں بنتا ہے ۔
کچھ نام نہاد اور تنگ نظر دانشور عالم اسلام کا ہر دور میں روشن چہرہ دکھانے کے لیے الفاظ کا سہارا لیکر نوجوان طبقے کو پھر سو برس تک سونے پر مجبور کرتے ہیں اور وہ نئے خوابوں کو آنکھوں میں سجا کر لمبی تان کر سوتے ہیں بعد میں معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل پہلے بھی قلمی ساحروں نے اس کو سچائی تک پہنچنے نہیں دیا تھا ۔ نہیں تو ہم پوچھ سکتے ہیں کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے جو ہمارا حشر کیا اس کی کیا تاویل کی جا سکتی ہے اور عالم اسلام کا وہ خود ساختہ ’’جن‘‘کیا کبھی حرکت میں آیا ؟ پرانی کہانی دوہرانے کی ضرورت نہیں مگر حال میں برما کے قتلِ عام پر ہمارا عالم اسلام کیا کر سکا ؟حتیٰ کہ روہینگیائی مسلمانوں کا عملاَََ برما سے ہی صفایا ہو گیا ۔اگر باون(52)ممالک مل کربھی ہمارے روہینگیائی مسلمانوں کو ’’بے اثر برما‘‘ سے نہیں بچا سکتے ہیں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر یہ عالم اسلام اور ان کے ادارے کس مرض کی دوا ہیں ؟چلیے برما ،کشمیر اورافغانستان کی بات کو فی الوقت ملتوی کر دیتے ہیں تازہ ترین ’’یروشلم‘‘کے حوالے سے ہی ہمارا عالم اسلام کیا کچھ کر سکا ؟عوام نے احتجاج کرنا ہی تھا بے شرم حکمران بھی احتجاج میں شامل ہو کر عوام کی سطح تک آگئے بہ مشکل رجب طیب ایردوغان نے اُو،آئی ،سی کا اجلاس انقرہ میں بلا کرامریکہ اور اسرائیل کو جاندار پیغام دیدیا جو اتنے بڑے مسئلے کے لیے کافی نہیں ہو سکتا ہے اس لیے کہ اسے پہلے بھی عالم اسلام کے بعض لیڈروں نے سخت بیانات دیکر بظاہر عوام کے دل تو جیت لیے مگر اس کا اسرائیل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑاہے ۔
حد اور المیہ یہ کہ اس اجلاس میں بھی سعودی عرب نے شرکت نا کر کے غلط پیغام دیدیا اوراپنے اسٹینڈسے ان تمام ترقیاس آرائیوں کی تائید کرائی کہ سعودی عربیہ کے نا صرف اسرائیل کے ساتھ اچھے خفیہ مراسم ہیں بلکہ وہ اب آہستہ آہستہ اس قربت میں گرم جوشی کی طرف گامزن ہے ۔جس ملک میں حرمین ہے اس ملک کے حکمران اگر ملک کو امریکہ کے مطالبے پر مکمل تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور ان کے نزدیک درست اور ضروری تبدیلی یہی ہے کہ ملک کو ’’مغربیت ‘‘کی غلاظت میں پھینک کر دشمنوں کے دل جیت لیے جائیں تو انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ آج سے نوے برس پہلے مصطفیٰ کمال اتا تر ک نے یہی حال ترکی کا کر کے سوائے ذلت کے اپنے کھاتے میں کچھ بھی جمع نہیں کیا تھا؟اور نا ہی سعودی عربیہ ترکی ہے جو اتنی بد بختی کو سہنے کے لیے تیار ہو گااس لیے کہ یہ اخوان المسلمون اور حماس کو دہشت گرد قرار دینے کے برعکس ’’حساس اُمت‘‘کو شرمناک راستوں پر ڈالنے کی حماقت ہو گی ۔ جوسرزمین حرمین کی وجہ سے ’’مذہبی مرکز‘‘کادرجہ رکھتی ہے اگر وہاں اس قدر ذلتناک تبدیلیوں کا آغاز ہو چکا ہے تو دوسرے ممالک کا درون خانہ کیا حال ہوگا۔افسوس اس بات کا ہے کہ تمام تر عالم اسلام کو مغربیت کے رنگ میں رنگنے کے سنگین نتائج سے پریشان دنیا آخر سعودی عربیہ کو بھی اسی راستے پر ڈال کر ناکام فارمولے کو دوبارہ آزمانے کے چکر میں کیوں ہے ؟ اور سعودی عربیہ نے یروشلم پر منعقدہ اجلاس میں شرکت نا کر کے اتنا خوفناک پیغام کیوں دیدیا؟ چاہیے تو یہ تھا کہ خود سعودی عربیہ ہی اس اہم تاریخی نازک موڈ پر اس اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل کرتا۔ (جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں