میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد....قسط31

سفر یاد....قسط31

منتظم
جمعرات, ۲۲ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan

شاہد اے خان
خان صاحب واپس اپنی سائٹ پر جا چکے تھے، گلزار بھی کچھ کھنچا کھنچا سا تھا، کالج میں وقت جیسے تیسے گزر ہی جاتا تھا لیکن کیمپ میں وقت کاٹنا مشکل ہو رہا تھا، ہم نے اپنی رہائش تبدیل کرانے کے لیے روز جا کر مصری منیجر کی جان کھانا شروع کردی، مصری منیجر کے پاس ایک ہی جواب ہوتا تھا کالج سائٹ کی رہائش جنادریہ میں ہے اس لیے جنادریہ کیمپ میں ہی رہنا ہوگا۔ کالج میں ہمیں ایک مہینہ گزر چکا تھا کافی لوگوں سے سلام دعا بھی ہو گئی تھی ایسے میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری کمپنی کے کچھ لوگ جنادریہ کیمپ کے بجائے نسیم شرقی کے علاقے میں بھی رہتے ہیں۔ ہم نے تصدیق کی تو معلوم ہواکہ ایچ وی اے سی ڈپارٹمنٹ کے تین لوگ نسیم شرقی میں واقع کمپنی کے ولِا میں رہتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ولا میں کمپنی کی ایک دوسری سائٹ کے کارکنان کی رہائش ہے لیکن ہماری سائٹ سے بھی کچھ لوگ وہاں رہ رہے ہیں۔ جلال صاحب سے ہمیں معلوم ہوا کہ کچھ پاکستانی نسیم شرقی کے ولا میں رہتے ہیں، ہمارے لیے اتنا جاننا ہی بہت تھا،اگلے روزچھٹی کے بعد ہم جلال صاحب والی گاڑی میں سوار ہوگئے کیونکہ یہی گاڑی نسیم شرقی کے ولا سے ہوکر جاتی تھی۔ جلال صاحب کو ہم نے بتادیا کہ ہم ولا میں موجود پاکستانیوں سے ملیں گے اور اگر یہاں جگہ ہوئی تو مصری منیجر سے کہیں گے ہمیں بھی اس ولا میں رہائش دلوادے۔ نسیم شرقی ریاض کے مضافات میں واقع ایک علاقہ ہے جہاں سعودی باشندے رہتے ہیں، درمیانے طبقے کے اس رہائشی علاقے میں بنگلے بنے ہوئے ہیں جنہیں یہاں ویلا کہا جاتا ہے یہ دراصل انگلش کا لفظ ولا ہے اردو میں بھی ہم ولا ہی کہیں گے۔ اس علاقے میں ”اجانب“ یعنی غیر ملکی باشندے کم ہی رہتے ہیں اور اگر رہتے بھی ہیں توزیادہ تر غیر ملکی وہ ہیں جو بقالوں یعنی پرچون کی دکانوں یا مغسلوں یعنی لانڈری یا کیفے ٹیریا وغیرہ پر کام کرتے ہیں، اس علاقے میں اصلی تے وڈے عربیوں کے مکانات کے درمیان دو بنگلوں میں کمپنی کے ملازمین کی رہائش واقع تھی۔ سعودی عرب میں پردے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مکانات کے گرد اونچی چار دیواری ہوتی ہے، چاردیواری کے درمیان مکان بنا ہوتا ہے جو عام طور پر سنگل اسٹوری ہوتا ہے ،کچھ مکانات دومنزلہ بھی ہوتے ہیں تاہم ان میں کھڑکیاں بہت چھوٹی اور باہر سے مکمل بند ہوتی ہیں، گیلری یا ٹیرس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ سعودی عام طور پر اپنے معاملات میں دخل در معقولات پسند نہیں کرتے اس لیے محلے میں ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا چلن نظر نہیں آتا۔ گرمی اتنی شدید ہوتی ہے کہ بچے بھی گلیوں میں کھیلتے نظر نہیں آتے، ہاں موسم اچھا ہو تو سعودیوں کے بچوں کو گھر سے باہر سائیکل چلاتے یا فٹ بال کھیلتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہماری کمپنی کے دونوں وِلا ساتھ ساتھ تھے اور ان کے درمیان کی دیوار نکال دی گئی تھی۔کراچی کے حساب سے دونوں بنگلے چار چار سو گز کے تھے، پنجاب کے دوست بیس بیس مرلے کے سمجھ لیں۔ ہماری سائٹ کے جو لوگ یہاں اترے ہم بھی ان کے ساتھ ہی اتر کر ولا کے اندر چلے گئے۔
وہ لوگ تو اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے اور ہم سوچتے رہے کہ جانا کہاں ہے۔ پھر ایک صاحب سے پوچھا کہ یہاں کچھ پاکستانی رہتے ہیں ان سے ملنا ہے ۔ہمیں بتایا گیا کہ ابھی کچھ دیر میں گاڑی کارکنان کو ڈراپ کرنے آئے گی توان سے پتہ چلے گا، خیر ہم گاڑی کے انتظار میں وہیں ولا کے اندر بنے چھوٹے سے لان کے پاس بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد باہر وین آکر رکی اور لوگ ولا میں آنا شروع ہوئے، ہم نے لوگوں کا جائزہ لینا شروع کیا کہ کوئی پاکستانی نظر آئے تو سلام دعا کریں۔ سب سے آخر میں آنے والے تین افراد کے بارے میں ہمیں گمان ہوا کہ یہ پاکستانی ہو سکتے ہیں ،اس سے پہلے کہ وہ سیڑھیوں تک پہنچیں ہم دوڑ کر ان کے قریب پہنچے اور سلام دعا کی، پتہ چلا ہمارا گمان ٹھیک تھا۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا جس پر انہوں نے ہمیں اپنے ساتھ اپنے کمرے میں چلنے کی دعوت دی، یہ کل چار لوگ تھے جو ولا کی چھت پر بنے دو کمروں میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی ڈیوٹی ریاض میں ایک اسپتال کی سائٹ پر ہے،تین ڈیوٹی سے واپس آگئے تھے جبکہ چوتھے صاحب کا اوور ٹائم تھا اس لیے ان کی واپسی رات کو ہونا تھی۔ تینوں کے نام مقبول ، دلاور اور شفیق تھے جبکہ چوتھے کا نام ریاض معلوم ہوا۔ تینوں ہی اخلاق سے پیش آئے، ہمارے لیے چائے بھی بنائی۔ ہم نے پوچھا ہم بھی اس ولا میں شفٹ ہونا چاہتے ہیں کیا یہ ممکن ہے۔ اس پر بحث شروع ہو گئی کہ ہم کیونکہ جنادریہ کالج کی سائٹ پر ہیں اس لیے ہماری رہائش وہیں کیمپ میں رہے گی، یہی کمپنی کی پالیسی ہے۔ یہاں صرف وہی لوگ ہیں جن کی سائٹس ریاض شہرمیں ہیں۔ ہم نے بتایا کہ ہماری سائٹ کے چار لوگ یہاں رہتے ہیں چاروں ہی انڈین ہیں اور شائد ایک ہی علاقے کیرالہ کے رہنے والے ہیں، تو کوئی تو صورت ہوگی ہمارے یہاں رہنے کی۔ دلاور نے کہا بھائی یہ تو آپ ان لوگوں سے ہی پوچھیں کہ وہ کیسے اس سائٹ پر رہ رہے ہیں۔ ہم نے ان تینوں سے اجازت لی اور تلاش کرتے ہوئے ان لوگوں کے روم تک پہنچ گئے جو ہماری سائٹ پر کام کرتے تھے۔ ان انڈینز نے کوئی خاص لفٹ تو نہیں کروائی لیکن یہ بتا دیا کہ انہوں نے یہاں رہائش کی شرط پر ہی کمپنی جوائن کی تھی ہم بھی اگر یہاں رہنا چاہتے ہیں تو کمپنی کے ایم ڈی سے بات کریں شائد کام بن جائے۔ ولا سے نکل کر ہم نے لیموزین یعنی ٹیکسی پکڑی اور اپنے کیمپ پہنچ گئے۔ اگلے روز ہمارا کمپنی کے ہیڈ آفس جانے کا پروگرام تھا تاکہ ایم ڈی سے بات کرسکیں۔۔۔ ۔۔ جاری ہے
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں