عدالت کو ڈرانے کے بجائے ریکوڈک معاہدے کی شفافیت سے متعلق بتائیں،سپریم کورٹ
شیئر کریں
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریکوڈک منصوبے کی کیس کے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ کیا بیرک گولڈ پاکستان کی معاشی صورتحال پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے؟ بہتر ہو گا کہ عدالت کو ڈرانے کے بجائے ریکوڈک معاہدے کی شفافیت سے متعلق بتائیں۔سپریم کورٹ میں ریکوڈک صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی بنچ کا حصہ تھے۔ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کار بیرک گولڈ کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومتیں تجارتی بین الاقوامی منصوبوں میں داخل ہو سکتی ہیں، حکومتیں ریاستی سطح کے معاہدے نہیں کر سکتیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ریکوڈک منصوبے میں وفاق بھی حصے دار ہے، اس لیے صوبائی حکومت کی سرمایہ کاری کی اجازت کا مسئلہ نہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ بیرک گولڈ قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے عدالتی رائے چاہتی ہے، پاکستان کے ڈیفالٹ میں جانے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ریکوڈک معاہدے میں 4ارب ڈالرسے زائد کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا بیرک گولڈ پاکستان کی معاشی صورتحال پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے؟ بہتر ہو گا کہ عدالت کو ڈرانے کے بجائے ریکوڈک معاہدے کی شفافیت سے متعلق بتائیں، عدالت کو یہ نا بتائیں کہ معیشت دانوں کی کون سی غلطیوں کی ہم سزا بھگت رہے ہیں۔وکیل نے دلائل دیئے کہ بیرک گولڈ ملکوں کو دیوالیہ سے نکالنے کا کاروبار نہیں کرتی، اگر 15 دسمبر کو ریکوڈک معاہدہ طے ہو جاتا ہے تو پاکستان کا 9ارب ڈالر کا جرمانہ ختم ہو جائے گا، معاہدے کے بعد انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا متوقع جرمانہ بھی ختم ہو جائیگا، سونے اور تانبے کے نکالے گئے ذخائر کو بندرگاہ کے ذریعے بیرون ملک بھیجا جائے گا، بیرک گولڈ بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام سے بندرگاہ تک زیر زمین پائپ لائن بنائیگا، بیرک گولڈ بلوچستان میں سڑکیں اور کمیونیٹی ڈویلپمنٹ بھی کرے گی، منصوبے سے بلوچستان میں پہلے 7 ہزار اور طویل مدتی طور پر 4 ہزار نوکریاں دی جائیں گی۔