پی ٹی آئی اندرونی اختلافات کا شکار، وزیر اعلیٰ بلتستان سے لانے کیلئے پارٹی میں رسہ کشی
شیئر کریں
(رپورٹ: شعیب مختار) پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان میں کامیابی کا سہرا سجانے کے بعد اندرونی اختلافات کا شکار ہو گئی، وزارت اعلیٰ کا منصب نہایت اہمیت اختیار کر گیا اگلا وزیر اعلیٰ بلتستان سے لانے کیلئے پارٹی میں رسہ کشی شروع ہو گئی تین امیدوارعہدے کے حصول کیلئے میدان میں آ گئے، ایم ڈبلیو ایم نے بھی وزیر اعلیٰ بلتستان سے لانے کی حمایت کر دی 6آزاد امیدواروں کو رام کرنے کے بعد پی ٹی آ ئی نے اپنے کھلاڑیوں سے مذاکرات شروع کر دیے۔تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان میں اپنی حکومت لانے میں مکمل طور پر کامیاب دکھائی دیتی ہے جس کے تحت پارٹی کی جانب سے چھ آزاد امیدواروں کو رام کر لیا گیا ہے، جن میں جی بی اے 5نگر سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار جاوید منوا،جی بی اے 9اسکردو3 سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار وزیر سلیم،جی بی اے 10اسکردو4سے آزاد امیدوار راجہ ناصر،جی بی اے 15دیا مر 1سے آزاد امیدوار حاجی شاہ بیگ،جی بی اے 22گھانچھے 1سے آزاد امیدوار مشتاق حسین،جی بی اے 23گھانچھے 2سے آزاد امیدوار عبدالحمیدشامل ہیں، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 16ہو گئی ہے، جبکہ جی بی اے 2گلگت 2کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں تنازع جاری ہے جس میں آخری گنتی میں پی ٹی آ ئی کے امیدوار فتح اللہ خان کو کامیاب قرار دیاگیا ہے، جبکہ حتمی فیصلہ آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔ پی ٹی آ ئی کی مرکزی قیادت نے وزارت ِ اعلیٰ کے منصب کے لیے گلگت سے تعلق رکھنے والے فتح اللہ خان اور دیامر سے تعلق رکھنے والے خالد خورشیدکے ناموں پر غور شروع کر دیا ہے، جس پر بلتستان کے تین امیدوار احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی امجد زیدی،ذکریا خان مقپون اور راجہ ا عظم خان خود کو وزیراعلیٰ کا امیدوار ظاہر کرتے ہوئے بلتستان کو مذکورہ قلمدان سونپنے پر بضد دکھائی دیتے ہیں جنہیں آزاد امیدواروں سمیت حکومتی اتحادی جماعت ایم ڈبلیو ایم کے جنرل سیکریٹری سید علی رضوی کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔ مذکورہ امیدواروں کی جانب سے قیادت پر بلتستان کا وزیرا علیٰ لانے پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور مسلسل انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والے ڈویژن پر توجہ مبذول کروائی جا رہی ہے، جس پر پی ٹی آ ئی قیادت نے کھلاڑیوں کو منانے کی کوششیں تیز کر دیں ہیں۔ واضح رہے حکمران جماعت کو وزیر اعلیٰ لانے کے لیے 13اراکین کی ضرورت ہے جس میں پی ٹی آئی کے نمبرز مکمل دکھائے دیتے ہیں۔