جمہوریت ، معیشت اور مذہب
شیئر کریں
سید عامر نجیب
جعلسازی کی کثرت نے اس حوالے سے معاشرے کی حساسیت بھی خطرناک حد تک کم کردی ہے ۔ بڑی بڑی جعلسازیاں بھی اب معمول کی بات لگنے لگی ہیں ۔ گوالہ اگر دودھ میں پانی ملائے تو اب اعتراض پانی ملانے پر نہیں ہوتا بلکہ اس بات پر ہوتا ہے کہ ” بھائی صاف پانی ہی ملایا کرو “ ۔ رشوت لینے والے اہلکاروں میں اسے بڑی نیک نامی حاصل ہوتی ہے جو سائل کی حیثیت سے بڑھ کر رشوت کا مطالبہ نہ کرے ، کہا جاتا ہے ” یار یہ افسر بہت اچھا ہے ایک تو زیادہ منہ نہیں پھاڑتا پھر کام پوری ایمانداری سے کرتا ہے “ ۔ معاشرے کا سب سے دلچسپ تبصرہ ان پیروں فقیروں کے بارے میں ہوتا ہے جنھوں نے دم ، درود ، تعویذکا پورا سیٹ اپ بنا رکھا ہوتا ہے انکا گھر اسی آمدنی پر چلتا ہے لیکن لوگوں کے حسن ظن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ” پیر صاحب دم درود اور تعویز کی کوئی قیمت نہیں لیتے ہاں لوگ اپنی مرضی سے کچھ دیں تو منع بھی نہیں کرتے “ ۔ کسی پروگرام میں اگر صاحب صدر یا مہمان خصوصی تاخیر سے آئیں تو کہا جاتا ہے ”شکر ہے آتو گئے “۔پھر جب گفتگو میں وہ اہم شخصیت بتاتی ہے کہ کتنی مجبوریوں کے با وجود وہ اس پروگرام میں شریک ہو سکے تو لوگ اس بات پر بھی انکی تحسین کرتے ہیں اور منتظمین ان کے احسان مند ہوتے ہیں ۔
چھوٹی جعلسازیوں کو اہمیت نہیں دی جا رہی اور بڑی جعلسازیاں سمجھ سے بھی بالا تر ہوتی ہیں ۔ مثلاً ہم جس جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں وہ جعلی ۔ حکومت جس معاشی استحکام کے دعوے کرتی ہے وہ جعلی ، مذہبی پیشوا جن تعلیمات کو اسلام بنا کر عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں، اسلام کے اصل ماخذ قرآن و سنت سے انکا دور کا بھی تعلق نہیں ۔آئیے ان جعلسازیوں کے بارے میں 21 نومبر کے اخبارات کی تین خبریں ملاحظہ فرمائیں ۔
1 ۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بیان کردہ اعداد و شمار کے مطابق مسلم لیگ ( ن ) کی حکومت نے قرضوں کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور سوا تین سالہ دور حکومت میں آٹھ ہزار ارب روپے کے ملکی اور غیر ملکی قرضے حاصل کئے جس کی وجہ سے ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 22 ہزار ارب روپے سے بڑھ گیا ۔ ان 22 ہزار ارب روپے میں غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 7 ہزار 200 ارب روپے سے بڑھ گیا ۔ موجودہ حکومت کے سوا تین سالوں میں ملکی قرضوں میں 5 ہزار 255 ارب اور غیر ملکی قرضوں میں ڈھائی ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ۔اسٹیٹ بینک کی دستاویزات کے مطابق 2008 میں قرضوں کا مجموعی حجم 6 ہزار 126 ارب روپے تھا جس میں ملکی قرضے 3 ہزار دو سو پچھتر ارب روپے اور غیر ملکی قرضے 2 ہزار 852 ارب روپے ہوگئے تھے یعنی جمہوریت کے تقریباً دس سالوں میں وطن عزیز پر قرضوں کا بوجھ تین گنا ہو گیا ۔تشویشناک بات یہ ہے کہ قانون کے مطابق قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے مگر اس وقت قرضے جی ڈی پی کے 68 فیصد تک پہنچ گئے ہیں ۔ قرض لینے میں موجودہ حکومت کس دیدہ دلیری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اسکا اندازہ وزارت خزانہ کی ایک دستاویز سے ہوتا ہے جسکے مطابق جولائی سے ستمبر 2016 تک یعنی محض تین ماہ کے عرصے میں حکومت نے 369 ارب روپے کا مقامی اور 181 ارب روپے کا غیر ملکی قرض لیا ۔
ملکی معیشت کے بارے میں حکومت اور بالخصوص وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو خوشنما دعوے کرتے رہے ہیں ان کی حقیقت اسٹیٹ بینک کی مذکورہ رپورٹ سے عیاں ہو جاتی ہے ۔ جہاں تک عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ان حوصلہ افزاءکلمات کا تعلق ہے جو وہ ہماری معیشت کے بارے میں فرما گئے اور حکومت کے ایوانوں میں انکا بڑا چرچا رہا ۔ انکے بارے میں ممتاز کالم نویس پرفیسر سید اسرار بخاری نے ایک مشہور شعر میں معمولی تحریف کر کے صورتحال واضح کردی ، فرمایا
انکے” قرضوں“ سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
2 ۔ جعلی معیشت کے بعد دوسری خبر جعلی جمہوریت کے بارے میں ،اور یہ خبر گھر کے بھیدی کی ہے ۔ منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جمہوریت کے موجودہ دور میں جمہور کی حالت میں مزید ابتری آئی ہے اور وطن عزیز میں غربت کی شرح بڑھ کر 38.8 فیصد ہوگئی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ غربت دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے فاٹا میںہے جہاں کا تناسب 73.7 فیصد ہے، دوسرے نمبر پر قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان ہے جہاں غربت کی شرح 71.2 فیصد ہے، باقی صوبوں میں بالترتیب خیبر پختونخوامیں 49.2 فیصد ، گلگت بلتستان میں 43.2 فیصد، سندھ میں 43.1 فیصد ، پنجاب میں 31.4 فیصد اور آزاد جموں و کشمیر میں سب سے کم 24.9 فیصد ہے۔ اس رپورٹ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس وقت تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ غریب صوبہ پنجاب میں رہتے ہیں جہاں کی گڈ گورنینس ایک طبقے میں مثالی قرار دی جاتی ہے ۔
جس چمن کی بہار یہ ہو اس کی خزاںنہ پوچھ
باقی صوبوں کی گورنینس کا کیا حال ہوگا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، جعلی جمہوریت کے ثمرات عوام تک کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے کیونکہ اس قسم کی جمہوریت جمہور کے دلالوں اور عوامی حقوق کے سوداگروں کے ہاتھوں یرغمال ہوتی ہے، اس لیے اسکے ثمرات بھی صرف وہی سمیٹتے ہیں ۔
3 ۔ تیسری خبر بھی گھر کے بھیدی کی ہے ، مذہب کے ٹائٹل تلے جو کاروبار چل رہے ہیں اس کا سب سے زیادہ علم خود مذہبی شخصیات ہی کو ہو سکتا ہے ۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے نامور عالم دین مفتی منیب الرحمن نے وہاڑی میں ایک یونیورسٹی کی سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” پاکستان کے جا گیر دار ملک و قوم کے لیے اتنے نقصان دہ نہیں جتنے درباروں ، خانقاہوں اور درسگاہوں پر قابض مذہبی جا گیردار اسلام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اکثر خانقاہیں نیلام ہو چکی ہیں ۔ خانقاہوں سے نفس کی اصلاح کے بجائے نذرانوں کا کاروبار ہو رہا ہے اور مذہبی جاگیرداروں کے چنگل سے قوم کو آزاد کرانا فرض ہو چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں گدی نشینی کو وراثت میں تبدیل کردیا گیا ہے اور بعض نام نہاد علماءانکے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں “ ۔ مفتی صاحب نے جس جعلی مذہبیت کا پول کھولا ہے ، مسلمانوں کا کوئی مکتبہ فکر شایدہی اس سے محفوظ ہو۔ کہیں خانقاہوں کے سودے ہیں اور کہیں مساجد و مدارس کے ، کہیں نذرانے وصول ہوتے ہیں اور کہیں چندے ، کہیں خانقاہوں میں موروثی نظام ہے اور کہیں مدارس میں ۔ اصلاح نفس کا بنیادی کام کہیں نہیں ہو رہا ، ہر طرف اپنی اپنی فرقہ وارانہ شناخت پر زور دے کر نفرتوں اور تعصبات کو بڑھایا جا رہا ہے ۔
المختصر یہ کہ ہمارا ملک جعلسازوں کی جنت بن چکا ہے ، زندگی کا کوئی شعبہ اس سے محفوظ نہیں ہے ، ہر ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے چکر میں ہے اور سب سے بڑا دھوکا ہم خود اپنے آپ کو دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ ” دھوکابازی تو دنیا بھر میں ہو رہی ہے “ ۔
٭٭