میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
الوداع عالی صاحب!

الوداع عالی صاحب!

منتظم
منگل, ۲۲ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

محمد زبیر جمیل
عالیصاحب کو ہم سے بچھڑے ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ آج بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔
مجھے یاد ہے مرزا جمیل الدین عالی صاحب سے پہلی ملاقات ‘جب ان کی سیکریٹری (راشدہ خاتون) کافی دنوں سے علیل تھیں تو عالی صاحب کے پاس ان کے گھر پر ملازمت کا موقع مجھے ملا۔ میں فکر مند تھا کہ میں اتنی عظیم ہستی کے ساتھ کیسے کام کروں گا۔ ایسے کاموں کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا لیکن تمام اندیشے اس وقت دور ہوگئے جب عالی صاحب سامنے آئے، ہشاش بشاش شخصیت، چمکتا ہوا چہرہ، گورا سرخ رنگ، وہ اپنے ڈرائنگ روم میں میرے سامنے تھے اور میں خود کو خوش قسمت سمجھ رہا تھا کہ ایک شفیق و عظیم ہستی کے سائے میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔ وہ مجھ سے مخاطب تھے اور کہہ رہے تھے کہ ”آپ میرے مہمان ہیں، میرے ساتھ کام کریں گے اور جب تک یہاں رہیں گے میرے یہاں ہی کھانا کھائیں گے۔میرے دفتری کاموں کے بارے میں جاننے کے لیے میری سیکریٹری سے رابطہ کرکے ساری معلومات حاصل کر لیجیے کہ کون سی فائل کہاں رکھی ہے“ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح میں تمام اُمور کو آہستہ آہستہ سمجھتا چلا گیا اور ان کی انجام دہی نیک نیتی سے کرتا رہا ۔یوں وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا۔
میں اس حوالے سے اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ اتنی عظیم ہستی، بے پناہ صلاحیتوں کے حامل، ممتاز دانشور، معروف کالم نگار، عظیم شاعر اور انسان دوست شخصیت کے ساتھ مجھے تقریباً آٹھ برس میسّر رہے۔ عالی صاحب ایک شجر سایہ دار تھے اس سائے میں کتنا سکون تھا وہ میں ہی جانتا ہوں۔
اس عرصے میں غیر شعوری طور پر میں نے انھیں ایک استاد کا درجہ دے دیا اور ان سے بہت کچھ سیکھتا رہا۔ ان کا رویہ بھی میرے ساتھ ایسا ہی تھا جیسا اپنے بچوں کے ساتھ تھا۔ مجھے اکثر ان سے ڈانٹ بھی کھانی پڑی جو دیر سے پہنچنے پر ہوتی تھی۔ وہ خود بھی وقت کے پابند تھے اور دوسروں سے بھی اس کی توقع کرتے تھے۔ انھیں یہ احساس بھی تھا کہ میں دور سے آتا ہوں تو ان کی ڈانٹ بس تنبیہ جیسی ہی رہتی مگر اپنے کاموں میں ذرہ برابر بھی لاپروائی برداشت نہیں کرتے تھے۔ ان کو میں نے اصولوں پر چلنے والا بہت باکردار شخص پایا۔ عزیزوں اور دفتری عملے دونوں کے ساتھ یکساں رویہ تھا۔عالی صاحب کے بارے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ عام زندگی میں سب کے لیے کیسے تھے۔ ہمیشہ میں نے یہ دیکھا کہ عالی صاحب نے کسی کے جائز کام کو منع نہیں کیا۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو، اگر وہ اپنی فریاد لے کر عالی صاحب کے پاس آتا تھا تو کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔روز مرّہ کی زندگی کے معاملات میں بھی وقت کی پابندی کرتے تھے۔ صبح کا ناشتہ آٹھ بجے، دوپہر کا کھانا ایک بجے اور رات کا کھانا آٹھ بجے تک کھالینا ان کا معمول تھا۔ دوپہر تین بجے تک کام کرتے پھر چھ بجے تک آرام، اس کے بعد ملاقاتوں کا وقت تھا۔ رات گیارہ بجے بستر پر چلے جاتے تھے۔
جمعہ کے دن اپنا ہفتہ وار کالم لکھتے جوایک قومی سطح کے اخبار میں ”نقار خانے میں“ کے نام سے اتوار کے دن شائع ہوتا تھا۔
عالی صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مسلسل پچاس برس سے زائد عرصے تک اس اخبار میں کالم لکھتے رہے۔ مئی ۳۶۹۱ءمیں پہلا کالم شائع ہوا اور فروری ۴۱۰۲ءکو آخری کالم شائع ہوا۔ یہاں تک کہ جب عالی صاحب اسپتال میں داخل ہوئے تو کئی کالم مجھے املا کروائے جس کا ذکر انھوں نے اپنے کالموں میں بھی کیا۔عالی صاحب کی زندگی میں اُن پر پی ایچ ڈی ڈاکٹر فہمیدہ عتیق (مرحومہ) نے کیا اور کئی کتابیں ان پر شائع ہوئیں۔ پاکستان کے علاوہ پاکستان سے باہر بھی عالی صاحب پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔عالی صاحب کی شخصیت، شاعری، دوہا نگاری، کالم نگاری، قومی ملّی نغمے وغیرہ پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مزید بھی لکھا جاتا رہے گا۔
عالی صاحب جیسے ہمہ جہت شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ وہ تمام تر سخت زندگی اور تمام تر سہولیاتِ زندگی کے باوجود کبھی بھی اپنی والدہ، زوجہ، بچوں اور انجمن کے کاموں سے غافل نہیں ہوئے۔ عالی صاحب نے پچاس سال سے زائد انجمن ترقی اردو پاکستان کے معتمد اعزازی کی حیثیت سے اپنے فرائض بخوبی انجام دیئے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان میں بھی اپنی نگرانی میں تقریباً ساڑھے تین سو سے زائد علمی و ادبی کتب شائع کروائیں اور ان کتابوں کے پیش لفظ تحریر کیے جو ”حرفے چند“ کے عنوان سے پانچ جلدوں پر مشتمل ہیں۔عالی صاحب کے بڑے کارناموں میںسے دو اہم کارنامے رائٹرز گلڈ بنوانا اور ”جامعہ اردو“ کا قیام عمل میں لانا تھا۔
رائٹرز گلڈ کا قیام ۹۵۹۱ءمیں عمل میں آیا اور اردو یونیورسٹی کا قیام جو بابائے اردو مولوی عبدالحق کا خواب بھی تھا ،ان کا یہ خواب نومبر ۲۰۰۲ءمیں تعبیر سے ہم کنار ہوا۔
عالی صاحب نے ہندی، اردو دونوں میں بے شمار دوہے لکھے، ان کی شاعری دل میں اتر جانے والی شاعری تھی۔ عالی صاحب کی پاکستان سے محبت کا احساس ان کے ملی نغموں سے ہوتا ہے۔ جس میں ”جیوے جیوے پاکستان“، ”اے وطن کے سجیلے جوانو“ اور ”ہم مصطفوی مصطفوی مصطفوی ہیں“ کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ حال ہی میں عدالت نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا جو حکم نامہ جاری کیا اس میں بھی عالی صاحب کا بہت بڑا کردار ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب بی کام کے نصاب سے اردو کو خارج کردیا گیا تھا تو ”بزم اساتذہ“ کا وفد عالی صاحب سے ملنے آیا تھا جس پر عالی صاحب نے اسی وقت وائس چانسلر کو خط لکھا اور بزم اساتذہ کے وفد کو یقین دلایا کہ اگر اب بھی بحال نہیں کروا سکے تو بھوک ہڑتال کریں گے اور میں سب سے آگے ہوں گا۔
میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ میں آخری وقت میں بھی اُن کے پاس تھا اور جب وہ اس دنیائے فانی سے ۳۲ نومبر ۵۱۰۲ئ، بروز پیر، شام چار بجے کے قریب رخصت ہو رہے تھے تو میں اُن کے سرہانے کھڑے ہوکر تلاوت کر رہا تھا۔
۴۲ نومبر ۶۱۰۲ئ، بروز منگل، بعد نمازِ عصر، آرمی قبرستان (ڈیفنس) میں اُن کی تدفین کی گئی۔ میں اُنھیں لحد میں اُتارتے وقت بھی شریک تھا ۔ اللہ تعالیٰ عالی صاحب اور اُن کی اہلیہ کے درجات بلند فرمائیں۔ آمین
عالی صاحب کے اس دنیائے فانی سے کوچ کرجانے سے دنیا ئے اردو میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے میں اپنے محسن، جن کے مجھ پر ان گنت احسانات ہیں ،کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ انھوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا ،وہ ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے کی جستجو کرنے کو کہتے تھے:
اک عجیب راگ ہے اک عجیب گفتگو
سات سروں کی آگ ہے آٹھویں سر کی جستجو
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں