بلدیہ عظمیٰ، سعید غنی کی بڑھتی گرفت میں میئر کراچی بے بس
شیئر کریں
( رپورٹ جوہر مجید شاہ) بلدیہ عظمیٰ کراچی میں بڑی تبدیلی آگئی مئیر کراچی ترجمان بلاول بھٹو زرداری کا سہرہ سجنے کے بعد سے ‘ کے ایم سی ‘ کے معاملات میں دلچسپی کم ہوگئی بڑی شخصیت بڑا ترجمان دوسری طرف بلدیہ میں سعید غنی کے بااعتماد کھلاڑیوں کی گرفت مضبوط ‘ نجمی عالم ‘ اسلم سموں و دیگر چھاگئے مئیر کراچی قبل ازیں بھی وزیر موصوف کے بااثر کھلاڑیوں کے مد مقابل ٹھہر نا سکے ان سے میگا پروجیکٹ لیکر ‘ ادارہ ترقیات کراچی ‘ کے سپرد کئے گئے جبکہ کئی دیگر پروجیکٹس سندھ حکومت کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے حوالے کئے گئے ‘ ٹھیکوں میں بندر بانٹ کے معاملات زیر سماعت ہیں جبکہ کنٹریکٹر ایسوسی ایشن اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اس پر اپنا موقف دے چکیں ہیں ذرائع کہتے ہیں ٹھیکے نجمی عالم کے کہنے پر ہوئے ‘ ناصر حسین شاہ کے سفارشی افسران بھی فارغ کردیے گئے ذرائع کہتے ہیں کہ مئیر و ترجمان بلاول بھٹو اور وزیر بلدیات کے درمیان تاحال تناؤ موجود ہے ذرائع اسکی کئی وجوہات بتاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ ‘ بیرسٹر مرتضی وہاب جب ایڈمنسٹریٹر بنے تو سعید غنی نے انھیں کچھ ٹاسک دئے جس میں مخالفین کی کرپشن و دیگر غیرقانونی امور پر کاروائی اور وائٹ پیپر کا اجراء تھا جس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا جو بگاڑ کا سبب بنا اس بگاڑ میں مزید اضافہ و تلخی کو اور ہوا جب ملی جب ناپسندیدہ و نام چین افسران پر نوازشات کی بارش کی گئی جس پر وزیر اعلی ہاؤس میں سعید غنی نے مرتضی وہاب کو آڑھے ہاتھ لیا اور جھگڑا ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے تک چلا گیا وزیر اعلیٰ نے معمالہ رفع دفع کرایا واضح رہے کہ میئر کے الیکشن کے لئے سعید غنی نے بطور سفارشی نجمی عالم کو بطور مئیر اور اسلم سموں کو ڈپٹی میئر نام دئے مگر مراد علی شاہ کی مراد آڑے آگئی اور مضبوط لابنگ نے یہ نہیں ہونے دیا بعد ازاں بلاول بھٹو نے آخری وقت میں مرتضی وہاب اور سلمان مراد کو بامراد کیا میئر کراچی کے فیورٹ افسران کو بھی ان سے وفاء کی قیمت کھڈے لائن کی صورت چکانا پڑی ملیر اور گڈاپ سمیت متعدد چیئرمینوں سے میئر کے ٹکراؤ کو ہوا دی گئی۔ سعید غنی کے آشیرباد پر چیئرمین گڈاپ نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ سلمان مراد جو میئر کے سیٹ اپ میں تھے وہ بھی میئر کے خلاف ہوگئے۔ اب جبکہ میئر بلاول بھٹو کے قدم با قدم ساتھ ہیں تو ڈپٹی میئر کو میئر کی مکمل ذمہ داریاں دینے کے لئے سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔ گزشتہ اجلاس میں کونسل کی صدارت بھی سلمان مراد نے کی جبکہ اب اہم فیصلے بھی وہی لے رہے ہیں۔میئر کراچی کے ہاتھ سے تیزی سے چیزیں نکل رہی ہیں۔ میئر کے دست راست افضل زیدی کے تبادلے کی بھی تیاری کرلی گئی ہے۔ سسٹم افسر اور سعید غنی کے دست راست سید شجاعت حسین جو سبکے لئے قابل قبول ہیں ان پر سعید غنی کی نوازشات بھی بڑھ چکیں ہیں کے ڈی اے کی گورننگ باڈی کا طویل عرصے سے موخراجلاس بھی کرلیا گیا۔ لیکن سعید غنی نے ‘ حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی ‘ سہیون ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( لاڑکانہ ) لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اجلاس نہیں کئے جو کہ بربادی کے آخری دہانے پر ہیں جبکہ ‘ حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو ‘ نیب نے جکڑ رکھا ہے جبکہ لاڑکانہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پاس کوئی پروجیکٹ ہی نہیں محض تنخواہوں کی ادائیگی کے علاؤہ جسکی گرانٹ حکومت دیتی ہے پیپلز پارٹی اپنے ہی ہوم ڈسٹرکٹ میں ترقیاتی پروجیکٹ سے محروم ہے سہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی جہاں ملک سکندر نے اتنی کرپشن کی کہ سپریم کورٹ نے یہاں کاکنٹرول ججز کو دے دیا تھا۔ اب جبکہ یہ ادارہ خود مختار ہے تو اسکے پاس سوائے تنخواہ کے کچھ نہیں۔ جعلسازی بھی دوبارہ عروج پر پہنچ گئی ہے۔ انکی گورننگ باڈیز کے اجلاس کرکے انہیں فنکشنل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی ‘ ایل ڈی اے ‘ ایم ڈی اے ‘ کراچی بھی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں سسٹم افسران نے انہیں نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ میئر کے لئے طے ہوا تھا کہ انہیں واٹر کارپوریشن کے ساتھ ‘ ایم ڈی اے ‘ کے ڈی اے ‘ ایل ڈی اے ‘ کا کنٹرول بھی دے دیا جائے گا جو کہ لالی پاپ سے آگے نا بڑھ سکا کراچی کی تعمیر و ترقی کے وعدے اور دعوے عملی طور حقیقت کا روپ دھار سکیں گیں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے یا پھر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا یہ مذموم عمل شہریوں کے دکھوں میں مزید اصافہ کریگا۔