میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اشرف غنی اور نواز شریف

اشرف غنی اور نواز شریف

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۲ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔

نواز شریف کی پاکستان بلا کرجس انداز سے تاج پوشی کا اہتمام کیاگیا ہے اس نے موجودہ نظام حکومت کو بری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ مبصرین کی رائے میں سب کچھ ایک مذاق بن گیا ہے، اب تو ایک عام شخص بھی اس کو بڑی جعلسازی اور دونمبری ہی سمجھے گا۔ملک بھر سے مختلف لالچ کے طریقہ واردات سے کارکنوں ،غریبوں کو سرکاری سرپرستی میں مینار پاکستان پر جلسے کاڈرامہ حکومت حاصل کرنے کابھونڈا اورمصنوعی طریقہ کار ہے، عوام پر ٹھونسنے کے مترادف ہے۔ انہیں عوامی پزیرائی حاصل نہیں ہے بلکہ کہیں اور سے پذیرائی مل رہی ہے۔ اس کا اندازہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور ان کے دیگر عہدیداران کے بیانات سے لگایا جاسکتاہے ۔ا فغانستان کے سابق صدر سے اس کاموازنہ کسی حد تک ہوسکتاہے یا نہیں ہوسکتا ہے ،اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ 2001 کے اختتام پر جب افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو کی افواج نے کابل پر گرفت مضبوط کرلی تھی اس موقع پر افغانستان کے ایک سیاست دان اشرف غنی جو امریکا میںمقیم تھے، عرصہ دراز سے تدریس اور معیشت کے شعبہ سے وابستہ تھے ،وہ افغانستان واپس آگئے، ممکن ہے انہیں لایا گیا ہو، 2002میں وہ حامد کرزئی کی حکومت میںوزیر خزانہ کے عہدے پر فائز ہوئے بعد ازاں 2014 کے متنازع عام انتخابات میں وہ ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ اس انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی اور ہیرا پھیری کے الزامات لگائے گئے تھے۔ اگست 2014کے وسط میں جب ہزاروں طالبان نے کابل کاگھیرائو کرلیا اور افغان فوجی بھی طالبان سے سمجھوتہ کرنے لگے تو اشرف غنی ڈالروں کی بوریاں بھر کے جہاز میں بیٹھ کر فرار ہوگئے۔ ان کا اقتدار برقرار رہتا تو شاید وہ مغرب اور بھارت نواز پالیسی میں مزید آگے چلے جاتے اور آج کے حالات میں ان کی پالیسی بھی اسی انداز کی ہوسکتی تھی۔ عالمی تناظر میںپاکستان میں بھی ایک اسٹیج نواز شریف کے لیے سجایا گیا ہے اس وقت بہت کچھ اندرون خانہ چل رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کو بذریعہ انتخابات اقتدار حوالے کرنا پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کو راضی کرنااور بقیہ سیاسی جماعتوں کو محدود کرنا وغیرہ کے منصوبے شامل ہیں ۔اسی لیے انتخابات کی تاریخ میں بھی ابہام ہے کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا سیاستدانوں کے سروں پر گرفتاری کی تلوار لٹکا دی گئی ہے، ساتھ ہی ا نہیں وزارتوں کا لالچ بھی دیا جارہاہے تاکہ وہ ان دیکھی زنجیر میں بندھے رہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے بیشتر سیاسی معاملات کے اہم فیصلے پس پردہ طے کیے جاتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خا تمے سے قبل تک ملکی امور کو عمومی طور پر آئین کے دائرہ کار میں طے کرلیا جاتا تھا یا ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا جاتا تھا لیکن اب سب کچھ چوپٹ ہے ۔موجودہ مسلسل بڑھتے ہوئے عدم استحکام کی ابتدا اس وقت ہو ئی تھی جب مارچ 2022 کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سابق وزیر اعظم شوکت خانم کے بیٹے کی حکومت کے خاتمے کے بعد آئین کے دائرہ کار میں رہ کر حکومت کے نظام کو برقرار رکھنے کا سلسلہ دم توڑ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عدالتی نظام بری طرح متاثر ہوا ۔اس کی ساکھ مجروح ہوگئی۔ پارلیمنٹ غیر فعال ہوگئی اوراپنے اندر مزیدخرابی پیدا کر گئی۔ میڈیا پابندیوں کی زد میں آگیا اور اس پر عوام کا اعتبار ختم ہوگیا۔ معاشرہ عمومی لاقانونیت کی جانب گامزن ہے پاکستان اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے عالمی حالات سے متاثر ہوتا ہے اور اس کی سیاست بھی شدید دبائو کا شکار رہتی ہے۔
یوکرین اور روس کی جنگ کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتّب ہوئے ہیں۔ اتفاق سے پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئر مین عین اس وقت روس کے دورے پر چلے گئے جب روس نے یوکرین پر حملہ کردیا تھا، ان کے بقول انہیں اس حملے سے پہلے اس کا علم نہ تھا ،ان کی تصویر روسی صدر پیوٹن کے ساتھ اس وقت دکھائی جارہی تھی جب یوکرین پر روسی حملے کی خبریں بھی سامنے آرہی تھیں ۔امریکا اور مغرب کی ناراضگی فطری تھی۔ بھارت بھی عرصے سے پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ چاہتا تھا۔ اس کی لابی بھی دنیا بھر میں متحرک ہو گئی اور اس دبائو کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا لیکن عوامی سطح پر اس تبدیلی کو پزیرائی نہ مل سکی۔ معیشت پر اس کے انتہائی منفی اثرات ہوئے غربت میں اضافہ ہوا، مہنگائی نے لوگوں کی زندگی کو مشکلات میں مبتلا کردیا۔بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور عدم تحفّظ کی وجہ سے موجودہ نظام پر عوام کی بھاری اکثریت یقین نہیں رکھتی ہے جس کی وجہ سے موجودہ نظام مسلسل کمزور ہورہا ہے آئین اور قانون سے ہی معاشرہ نظم و ضبط کے تحت انتشار اور افراتفری سے محفوظ رہتا ہے جس طرح کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح معاشرے میں بھی ایک موثر آئین اور قانون کی ضرورت ہوتی ہے وہ معاشرے جہاں پارلیمنٹ نہیں ہے وہاں بھی قانون پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ اس وقت جس انداز سے ملکی نظا م چل رہا ہے، اس کا نتیجہ مزید عدم استحکام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بڑی طاقتیں بھی حالات کو ٹھیک نہیں کرسکتی ۔دنیا کی تمام قوتیں مل کر بھی لاقانونیت کے نظام کے ذریعے کسی معاشرے میں استحکام پیدا نہیں کرسکتی ہیں، نہ ہی معاشی نظام کام کر سکتا ہے پاکستانی سیاست میں جو تباہی اور بربادی ہو چکی ہے، اسے راہ راست پر لانا آسان نہیں ہے ۔اس کے لئے ایک بڑے اتفاق رائے کی ضرورت ہے جو وقت طلب ہے۔
دوسری جانب پاکستان پر عام انتخابات کا دبائو ہے یہی وجہ ہے کہ ایک وقتی حل تلاش کیا جارہاہے جس میں مسلم لیگ ن کواقتدار منتقل کرنے کی تجویز کا تذکرہ ہر جگہ موضوع بحث ہے ۔نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ وہ ایک شہنشاہ کے طور پر واپسی چاہتے تھے جس کے لیے ان کی جماعت کو بھرپر آزادی اور خاموش حمایت حاصل ہے جبکہ پی ٹی آئی پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہیں۔ امکان یہ ہے کہ انہیں عمر قید یا سزائے موت سنادی جائے گی۔ انہیں نو مئی کے بغاوت کے مقدمے کا مرکزی ملزم قرار دیا جا رہاہے ۔ایسی صورت میں اگر مسلم لیگ ن ایک ووٹ کی اکثریت سے بھی حکومت حاصل کرلیتی ہے تو نواز شریف اسے دو تہائی اکثریت میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔وہ امریکا ، مغرب اور بھارت کامکمل تعاون حاصل کرلیں گے جبکہ پاکستان کے تمام اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر اپنے وفادارافسران اور سیاست دانوں کی نامزدگی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا سیدھا فامولا کام کریگا کہ خریدلو یا برطرف کردو ایک مرتبہ وہ اقتدا ر میں آگئے تو وہ پاکستان کے طول و عرض میں اپنی حکمرانی کو مستحکم کر لیںگے۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں