مفادات کی جنگ اور عوام
شیئر کریں
پاکستان اس وقت ان گنت مسائل ومشکلات سے دوچار ہے۔ مہنگائی کا جن اپنے پورے جاہ وجلال کے ساتھ بازاروں میں دندناتا پھر رہا ہے، بیروزگاری کا عالم یہ ہے کہ اب تو دینے والا ہاتھ بھی بھیک مانگنے پر مجبور ہے، امن و امان کی داخلی صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،کراچی سمیت ملک بھر میںاسٹریٹ کرائم جس دیدہ دلیری سے دن کی روشنی میں ہو رہا ہے اسے ہر بینا آنکھ دیکھ رہی ہے، بلوچستان میں دہشت گرد پھر سر اٹھانے لگے ہیں، آئے روز ہمارے فوجی جوان اورسویلین ان ملک دشمنوں کے بارود کا ایندھن بن رہے ہیں ، جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارت کی جارحانہ سرگرمیاں روز کا معمول بن چکی ہیں، مقبوضہ کشمیر کو تو وہ عملی طور پر ہڑپ کر ہی چکا ، جسے اس کے منہ سے نکالنے کے لیے دانستہ بے حس عالمی برادری کو متحرک کرنے میں بھی پاکستان تاحال کوئی قابل ذکر کردار اداکرنے سے قاصر ہے۔ اب تک صرف تقریروں سے کام چلایا جا رہا ہے، ملک میں ہونے والے احتساب پر بھی چاروں جانب یکسوئی دکھائی نہیں دیتی بلکہ یہ امر زیادہ تکلیف دہ ہے کہ عدالت عظمیٰ بھی اس پر سوالیہ نشان لگا چکی ہے، کورونا کا رونا تاحال جاری ہے بلکہ اب پھر کہا جا رہا ہے کہ کیسز بڑھنے لگے ہیں اور عین ممکن ہے کہ پھر ملک میں لاک ڈائون کی مشقت سے عوام کو گزارا جائے جو پہلے ہی اس کے لگائے ہوئے زخم چاٹ رہے ہیں۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان ہمالیہ جیسے مسائل سے نظریں چرائے حکومت اور اپوزیشن سینگوں میں تیل لگاکر ایک دوسرے کو ٹکریں مارنے میں مصروف ہیں، پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور کراچی کے پاور شوز کے اثرات زائل کرنے کے لیے وزیراعظم سمیت پوری حکومتی مشینری ملک کے سارے مسائل چھوڑ چھاڑکر میدان میں اتر چکی ہے۔ وزرائ، معاونین خصوصی، مشیر اپوزیشن کی بدکلامی پر جس طرح بدزبانی کر رہے ہیں اس نے ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو جو پہلے ہی اعتدال کی حدیں عبور کررہا تھا کئی گنا زیادہ بڑھا دیا ہے۔ حکومتی رہنما دونوں جلسوں کو بری طرح ناکام جبکہ اپوزیشن کے مطابق ان جلسوں نے حکمرانوں کی نیندیں اْڑا کردی ہیں اور جلد ہی اْن کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے اور نیا سال عام انتخابات کا سال قرار دیا جا رہا ہے۔ دونوں فریق کچھ بھی کہیں لیکن پاکستان کے عوام اورساری دنیا حقیقی صورتحال دیکھ رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن لیڈروں کی تقاریر میں ایک دوسرے کی تضحیک کا تمام مواد موجود ہوتا ہے، لگتا ہے معاملات اب پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف جا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے صاف کہہ دیا ہے کہ لوگ اب ایک بدلا ہوا عمران خان دیکھیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پی ڈی ایم کی تحریک کو روندنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن رہنما حکومت کو گھر بھیجنے تک خاموش نہ بیٹھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں مہنگائی میں پسے عوام کو مزید پسلیاں تڑوانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ملک کے دگرگوں حالات کو دیکھتے ہوئے افہام و تفہیم کا راستا نکالتی ،عوام کو مہنگائی کے جن سے آزاد کرانے کی سعی کرتی، بیروزگاری کے گہرے ہوتے ہوئے کنویں کو بھرنے میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی، امن و امان ، اسٹریٹ کرائم کو روکنے کے لیے کابینہ کے ساتھ سر جوڑتی، بلوچستان میں سراٹھاتی دہشت گردی کے آگے بند باندھنے کی کوئی حکمت عملی بناتی، سرحد پر بھارت کی بڑھتی ہوئی بدمعاشیوں کا توڑ کرتی، جموں و کشمیر کو اس کے ناجائز قبضے سے چھڑانے کے لیے عالمی برادری کو جھنجھوڑتی اور ملک میں ہونے والے احتساب پر سے یکطرفہ کی چھاپ ہٹانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھاتی ۔ دوسری جانب اپوزیشن کا بھی فرض تھا کہ وہ ان مشکل حالات میں ملک و قوم کی خاطر حکومت کے ساتھ سینگ لڑانے کے بجائے صبر و تحمل کا معاملہ کرکے پاکستان کی سربلندی کے لیے انہیں پانچ سال برداشت کرتی لیکن اب حالت یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت گرانے اور حکومت خود کو بچانے میں ملک اور قوم کے مسائل کو بالائے طاق رکھ چکے ہیں اور یہ حالات عوام غور سے دیکھ رہے ہیں، حقیقت یہی ہے کہ دونوںکا انداز درست نہیں،حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ کشیدگی اتنی نہ بڑھائیں کہ نتیجے میں دونوں کو پچھتانا پڑے، اب دونوں کو ملک اور قوم کی خاطرمحاذ آرائی کے بجائے افہام وتفہیم کی طرف جانا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔