درد کا پیوند
شیئر کریں
ڈاکٹر کلور لی اس ہفتے تل ابیب اسرائیل میں اللہ کو پیاری ہوگئی۔
وہ جمائما گولڈ اسمتھ کی بچپن کی،لیڈی ڈائنا کی پرانی ،کاشف مصطفی کی دوران طالب علمی کی اور ہماری کچھ ماہ پہلے کی دوست تھی۔
پکی اشک نازی یہودن تھی۔گوری بے داغ جلد، دھیمی، ترازوصفت آنکھیں جو آپ کو بہت غیر محسوس انداز میں تولتی رہتی تھیں ۔ دم گفتگو شائستہ پر اعتماد لہجہ ہوتا تھا ،بلا کی ذہین،قابل رشک حد تک محنتی اور مرکوز۔
اہل یہود میں بھی کئی طبقے ہیں ۔دو البتہ بہت نمایاں ہیں ۔ اشک نازی اور سفاردی ۔اشک نازی یہودیوں کی اکثریت جرمنی، مشرقی یورپ اور روس سے تعلق رکھتی ہے۔ جب کہ سفاردی جنہیں یہود العرب بھی کہتے ہیں مشرق وسطیٰ سے جاکر اسپین اور پرتگال میں آباد ہوگئے تھے۔ عرب انہیں اپنا گرائیں سمجھتے ہیں ۔مرتے مارتے وقت اس کا لحاظ کرتے ہیں کہ ہلاک شدگان میں یہ نہ ہوں ۔اشک نازی بہت حریص، بے رحم،متعصب ،ذہین ہیں ۔دنیا بھر کے تعلیمی،طبی، اشاعتی،مالیاتی ،تحقیقی اداروں پر ان ہی کا راج ہے۔مجال ہے جو کسی کو پاس پھٹکنے دیں ۔
ڈاکٹر کلور لی ہرگزایسی نہ تھی۔دوسروں کے دکھ درد پر تڑپ تڑپ اٹھتی تھی۔مذہبی تعصب سے بلند و بالا ہوکر سب کے معالجے میں اپنے طبی حلف سے مکمل طور پر وفاداری نبھاتی تھی۔جہاں بھی ملازمت کرتی ہسپتال کی انتظامیہ سے اس کے جھگڑے غریبوں کو مطلوبہ سہولتیں فراہم نہ کرنے کی خاطر ہوتے تھے۔ان جھگڑوں کی تعداد اور تواتر میں فلسطینیوں کی وجہ سے اور اضافہ ہوگیا تھا۔دوست اور یہ پسماندگان عارضہ اسے کوئین کہتے تھے کہ اس کا ہر انداز بہت شاہانہ تھا۔انگلستان میں پیدا ہوئی تھی۔ رائل کالج سے امراض قلب کے معالجے کی ڈگری لے کر جنوبی افریقا چلی آئی ،لگے ہاتھوں وہیں سے پی ایچ ڈی بھی کیا۔وہاں اس کا شمار دل کے امراض کے بڑے طبیبوں میں ہوتا تھا۔ اہلِ یہودجہان بھی ہوں موقع ملتے ہی Aliyah کرتے ہیں جس کا مطلب معراج یا اسرائیل کی جانب واپسی ہے۔وہ بھی میاں کے ساتھ یہاں آن کر بس گئی۔میاں کا ارادہ ربائی بننے کا تھا مگر چونکہ والدہ یہودی نہ تھی لہذا ان کا بورڈ آف ڈپٹیز اسے امتحان میں فیل کردیتا تھا۔زچ ہوکر اس نے کاریں بیچنا شروع کردیں ۔خوب دولت کمائی۔ اسی نے کاشف میاں کو بتایاتھا کہ ہماری مقدس کتاب تلمود ( بمعنی ہدایات )میں لکھا ہے کہ موجودہ عہد کی کل میعاد ہمارے کیلنڈر کے حساب سے 6000 سال ہے۔ اس کے بعد ہمارے مسیحا موعود Mossiach نے آنا ہے۔اس وقت تک 5776 برس بیت چکے ہیں اور کل برس 224 اس وعدے کے پورے ہونے میں باقی ہیں ۔ساری دنیا یہودی بن جائے گی۔دنیا بھر سے یہودی اسرائیل میں آ کر آباد ہوجائیں گے اور سلطنت داؤد ( Kingdom of David)دوبارہ اپنی آب و تاب سے قائم ہوجائے گی۔جس کے لیے ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر مسجد اقصیٰ کو مسمار کرکے ہونی ہے۔ ذکر تھا ڈاکٹر کلور لی کا۔
ڈاکٹر کلور لی نے چند ہی دن پہلے ہسپتال سے ڈاکٹر کاشف کو فون کیا کہ اسے کسی نسوانی عارضے کے سلسلے میں آپریشن کی خاطر لے جایا جارہا ہے۔فکر نہ کرنا۔دورانِ تشخیص رحم کا کینسر وہ بھی ایڈوانس مراحل کا سامنے آیا ۔معالجہ کام نہ آیا اور وہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔عمر تو کل چھیالیس برس ہی تھی مگر فٹنس کی دلدادہ، ہمہ وقت چست، پھرتیلی اور جامہ زیب۔شائبہ بھی نہ ہوتا تھا کہ وہ اس جان لیوا عارضے میں مبتلا ہے۔یوں بھی چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے۔معالج اپنی ہی بیماری سے بے خبر ہوتے ہیں ۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اہل معاملہ کے نزدیک ڈاکٹر کلور جیسی اشک نازی بیبیاں بھی اللہ کو پیاری ہوتی ہیں کہ نہیں مگر سرجن کاشف مصطفی کا غریب فلسطینی ٹیکسی ڈرائیور عبدالقادر اس کی موت کی خبر پر پھوٹ پھوٹ کر رویا۔اس کے لیے گڑ گڑاکر مسجد اقصیٰ کے سجادوں پر دعا بھی کی۔ وہ اس کا وہاں سب سے بڑا سہارا تھی،خود کو بھی بہت شدید عارضہ قلب ہے۔اس کا علاج اپنے خرچ پر کرتی تھی۔
غریبوں کو اگر بمشکل کوئی سہارا ملتا ہے تو وہ دلی کے محاورے میں ـ”منہ لگائی ڈومنی ، بال بچوں سمیت "کے مصداق جوتوں سمیت دیدوں میں گھس جاتے ہیں ۔عبدالقادر اپنے ساتھ دوسرے درمندوں اور غریبوں کو اس کے حوالے سے ارد گرد کے ہسپتالوں میں لیے لیے پھرتا تھا۔ان فلسطینی پسماندگان الفت کا المیہ یہ ہے کہ یہ سب اس کی آخری رسومات میں شریک ہونے کے لیے بے تاب ہیں ۔ اسرائیل کادار الحکومت تل ابیب ان کے لیے "سی” ایریا ہے۔فلسطینی اپنے ہی وطن میں صرف” اے” ایریا میں رہ سکتے ہیں ،”بی” ایریا میں رہ نہیں سکتے مگر ملازمت کرسکتے ہیں اور "سی” ایریا ان کے لیے ہر اعتبار سے نوگو ایریا ہے۔
سرجن کاشف مصطفی جن کی وہ دوست تھیں وہ بہت زیرک آدمی ہیں ۔ ان کی کتاب جس کا اردو ترجمہ ان کے لکھے ہوئے انگریزی نوٹس کی مدد سے خاکسارنے کیا ہے۔اپنے طباعت کے آخری مراحل میں تھی۔ڈاکٹر کلور لی ’’وجود ڈاٹ کام ‘‘میں اس کی اشاعت سے بہت زچ ہوئی۔ پاکستانی مردوں نے اسے فیس بک پر ڈھونڈ نکالا تھا۔ وہ اسے تواتر سے مسلمان ہونے، پاکستان آنے اور شادی کی پیشکش کرتے تھے۔یہ جان کر بھی کہ وہ پکی یہودن ہے، اسرائیلی ہے اور خیر سے میاں کو بھی پیاری ہوچکی ہے۔ وہ خواہش مند تھی کہ کتاب میں اس کو اس کے اصلی نام ڈاکٹر کلور لی اور میاں کو بھی کسی فرضی نام سے موسوم کیا جائے۔
سرجن کاشف مصطفی نے تجویز دی کہ ہم سے فیس بک پر میسنجر کے ذریعے رابطہ کرے۔فون پر ہم سے رابطہ ہوا تو کہنے لگی کہ میرا اور میاں کا نام بدل دو۔ہم نے کہا ارے وہ کیوں کلور تو ہماری شہد کی بوتل پر بھی "Clover Honey” لکھا ہے۔کہنے لگی تمہارے پاکستانی مرد میرے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔ ہم نے کہا یہودی عورتوں اور شریفوں کی کرپشن سے جنگ لڑنے کا حوصلہ ہمیں کپتان عمران خان نے دیا ہے۔ہنسنے لگی۔سرجن کاشف مصطفی ، کلور، پرنسس ڈیانا،جمائما اور ڈاکٹر حسنات کا ٹولہ لندن میں ساتھ گھومتا تھا۔ ہم نے تجویز دی کہ اس کا نام سفیرہ اور میاں کا نام لیوی رکھ لیتے ہیں ، کہنے لگی تمہیں اسرائیل کی حسین لڑکیوں کے نام بہت یاد ہیں ۔میرا نام کچھ جینرک ہو تو اچھاہے۔ فلسطینیوں کی ہمدردی کی وجہ سے ویسے ہی میری بہت کھنچائی ہوتی ہے۔ طے ہوا کہ کتاب میں وہ سارہ اور میاں سنگر کے نام سے موسوم ہوگا۔ کتاب چھپی تو بہت خوش ہوئی،ہم سے کہنے لگی اس کا انگریزی ترجمہ بھی کردو۔ہم نے اسے روسی صدر پیوٹن کا پسندیدہ لطیفہ سنایا تو بہت ہنسی۔پیوٹن کسی پریس کانفرنس میں اپنے تین عدد وزراء کے ساتھ شریک تھے۔ دس میں سات سوال ان سے ہوئے تو چونک گئے۔کہنے لگے ایک اسرائیلی جنرل کو کسی خاص مشن کے لیے ایک نوجوان کپتان کی تلاش تھی۔ انٹرویو میں شریک کپتان سے سوال ہوا کہ اگر تمہارے سامنے ایک عرب دہشت گرد ہو تو کیا کرو گے۔ماردوں گا۔ اور اگر چار ہوں تو ؟انہیں بھی ماردوں گا۔وہ ٹینک میں بیٹھے ہوں تو؟ جواب ملا ان پر راکٹ فائر کرکے اڑا دوں گا۔وہ اگر کسی ہوائی جہاز میں موجود ہوں تو کیا کروگے؟ کپتان زچ ہو کر کہنے لگا کیا ساری اسرائیلی فوج میں ،میں اکیلا ہی کپتان ہوں ؟
کئی دن بعد ہم نے اس سے ہمت کرکے پوچھ لیا کہ یہ تمہاری دوست اب بھی اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر خود کو جمائما خان کہلانا کیوں پسند کرتی ہے؟ کچھ دیر کو سکتے میں آگئی۔پھر جواب دیا کہ میں نے جمائماسے کبھی یہ نہیں پوچھا مگر میرا خیال ہے کہ عمران کے پاکستان میں قیام اور سیاست میں دلچسپی کی وجہ سے یہ شادی "Workable” نہ سہی مگر دونوں کا تعلق بہت "Loveable” ہے۔ وہ اس کے بیٹوں کی ماں تو ہے اور اس کی بیٹی کو بھی بہت پیار اور ناز سے پالا ہے،عمران بہت اعلیٰ اقدار اور دلفریب شخصیت کا مالک ہے۔اس جیسے اوصاف بہت کم مردوں میں یکجا ہوتے ہیں ۔جواب ہمیں بہت پسند آیا۔
ہم نے بتایا کہ ہمارے ایک قریبی عزیز ان دنوں کسی کانفرنس میں تل ابیب آیا ہے۔ "Drop-dead Handsome” ہے۔ اصرار کرنے لگی کہ اس کا نمبر دو میں اسے ڈنر پرلے جاؤں گی۔بہت دن ہوئے کسی ہینڈ سم مرد کے ساتھ ڈنر پر نہیں گئی۔ہم نے کہا میاں سے پوچھو۔ دولت میں آدھا حصہ دیتا ہے تو ہم پہلے مسلمان کے طور پر”Aliyah” کرلیتے ہیں ۔کہنے لگی تمہیں تو موساد جہاز سے ہی غائب کردے گی۔تمہاری اسلام، پاکستان اور عربوں سے محبت کا ان کے پاس مکمل پروفائل ہوگا،ہمیں کاشف کا میسنجر پر پیغام ملا کہ "ڈاکٹر کلور لی۔”1971-2017 تو ہم نے جواب میں سوالیہ نشان لکھا اور فون پر اس کی موت کی اطلاع ملی۔
غالب نے کہا دوسروں کی موت پر وہ سوگوار ہو جسے خود نہ مرنا ہو۔یہ شاید اپنے لے پالک عارف خان کی موت پر لکھے گئے دل نشین نوحے ـ’’کیا تیرا بگڑتا جو مرتا نہ کوئی دن اور‘‘ سے پہلے کی بات ہے ۔
ڈاکٹر کلور لی کی وفات حسرت آیات پر سرجن کاشف، غریب فلسطینی ٹیکسی ڈرائیور عبدالقادر اور ہم سوگوار ہیں ۔