میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ

محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۲ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

میر افسر امان

علامہ اقبال نے ایک مسلمان عادل اور دینداربادشاہ ہونے کی وجہ سے محمود غزنوی کے کی شان میں اپنے جواب شکوہ نظم میں ایک مشہورشعر کہا تھا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
سطنت غزنویہ کا بانی ایک ترک غلام سنکتگین تھا۔ محمود غزنوی اس کا بیٹا اس کی وفات کے بعد سلطنت غزنویہ کا حکمران بنا۔ بات اس طرح تھی کہ سامانی حکومت کمزرو ہو گئی تھی۔ اس کے صوبہ دار خود مختیار ہو گئے۔ ان ہی میں سے ایک صوبہ دار سبکتگین نے افغانستان کے جنوب میں شہر غزنوی میں366ھ میں ایک آزاد حکومت قائم کر لی۔ یہ حکومت تاریخ میں دولت غزنویہ اور آل سبکتگین کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ حکومت 976ء تا1186ء تک 210 سال قائم رہی۔ اس کا درالحکومت افغانستان کا شہر غزنوی تھا۔ اس سلطنت کے سب سے مشہور بادشاہ محمود غزنوی تھا۔محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے تھے۔ سومنات پر جب حملہ کیا تو مندر کے پجاریوں نے مال و دولت کا ڈھیر محمود کے سامنے پیش کر دیا۔ مگر محمود غزنوی نے مشہور تاریخی جملے کہے تھے کہ محمود غزنوی بت شکن ہے بت فروش نہیں۔ اس طرح محمود مسلمان عوام میں بہت مشہور ہوا تھا۔سبکتگین نے غزنوی پر حکومت قائم کرنے کے بعد خرسان پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ سبکتگین کے زمانے میں مسلمان پہلی مرتبہ ہندوستان میں درہ خیبر کے راستے داخل ہو ئے تھے۔ اس زمانے میں لاہور میں ایک ہندو راجہ جے پال کی حکومت تھی۔ اس کی حکومت پشاور سے آگے کابل تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی سرحدیں سبکتگین کی حکومت تک تھیں۔ جب راجہ پال نے دیکھا کہ سبکتگین کی حکومت پھیلتی جارہی ہے تو اس نے ایک بڑی فوج کے ساتھ سلطنت غزنویہ پر حملہ کر دیا۔ لڑائی میں سبکتگین نے راجہ جے پال کی ایک بڑی فوج کو شکست فاش دی۔ راجہ جے پال کو سبکتگین نے گرفتار کر لیا ۔ راجہ جے پال نے خراج دینے کے وعدے پر رہائی حاصل کی۔ اس کے بعد وہ لاہور چلا گیا۔ لاہور پہنچ کر اپنے دعدے سے منکر ہو گیا۔ اس بد عہدی کی وجہ سے سبکتگین نے راجہ جے پال کی حکومت پر حملہ کر دیا۔ راجہ جے پال کو شکست فاش ہوئی۔ سبکتگین نے پشاور کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ سبکتگین بیس سال حکومت کرنے کے بعد وفات پا گیا۔ اس کے بعد اس کے بہادر اور نڈر بیٹے محمود غزنوی نے سلطنت غزنویہ کی حکومت سنبھال لی۔
محمود غزنوی سبکتگین سے بھی بڑ ا بادشاہ ثابت ہوا۔ محمود غزنوی بچپن سے ہی بڑانڈر اور بہادر تھا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ ساری لڑائیوں میں شریک رہا تھا۔ بادشاہ بننے کے بعد اس نے سلطنت غزنویہ کو بڑی وسعت دی۔ محمود کامیاب سپ سالار اور فاتح تھا۔ شمال میں اس نے اس وقت کی حکومت خوارزم پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد اس کا پالا سمر قند کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں سے پڑا۔ ان چھوٹے چھوٹے حکمرانوں نے محمود کی اطا عت قبول کر لی۔ اس زمانے میں بخارا اور سمرقند کاشغر کے ایک خانی حکمران کے قبضے میں تھی۔ خورازم کی ایک چھوٹی سی حکومت آل مامون کے نام سے قائم تھی۔ محمود نے ان سب پر بڑی مہارت سے قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد مغرب میں رے، اصفہان، اور ہمدان کو فتح کیا جو بنی بویہ کے قبضے میں تھی۔ مشرق میں موجودہ ،سندھ، پنجاب اور بلوچستان وغیرہ فتح کر لیے۔ محمود عدل و انصاف کی وجہ سے بھی مشہور ہوا۔ اس کے دور کے سب سے زیادہ مشہور لوگ فردوسی اور البیرونی گزرے ہیں۔ محمود کے آخری دور میں اس کے بیٹے مسعود کے زمانے میں غزنوی سلطنت کے شامل اور جنوب کے حصوں پر وسط ایشیا سلجوقی ترکوں نے قبضہ کرلیا۔ سلطنت غزنویہ اس وقت مشرقی افغانستان اور موجودہ پاکستان کے علاقوں تک رہ گئی تھی۔ غزنویہ سلطنت کے سلطان ابراہیم کا نام بھی مشہور ہے۔ اس نے چالیس سال تک حکومت کی تھی۔ اس نے سلجوقیوں سے اچھے تعلوقات قائم کیے۔ ہندوستان میں مزید فتوحات کیں۔ اس کے عہد میں ہندووں نے مسلمانوں کو پنجاب سے نکالنے کی کوششیں کیں۔ مگر ابراہیم کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ابراہیم نے اس کے بعد دہلی تک کا ہندوستانی علاقہ فتح کر لیا۔ اس نے بنارس تک کامیاب حملے کیے۔ ابراہیم بڑا دیندار اور پرہیز گزار حکمران تھا۔ رات کو غزنوی کی گلیوں میں گشت کرتا، محتاجوں اور بیوائوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کرتا تھا۔ ہر سال ایک قرآن شریف اپنے ہاتھ سے لکھتا۔ یہ قرآن ایک سال مکہ اور دوسرے سال مدینہ بھیجتا۔ اس کو محلات سے زیادہ عمارتیں بنانے کو شوق تھا۔ اس کے زمانے میں چار سو سے زاہد مدرسے،خانقائیں، مسافر خانے اور مساجد تعمیر ہوئیں۔ محمود غزنوی کے دور میں فردوسی اور البیرونی کے کارنامے آج بھی دنیا یاد کرتی ہے۔ فردوسی کا شاہنامہ فارسی شاعری کا ایک شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ البیرونی ایک بڑا محقق، اور سائنس دان تھا۔ اس نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں عمدہ کتابیں لکھیں ،جو اب تک پڑھائی جاتی ہیں۔ غزنوی دور میں پہلی مرتبہ لاہور علم و ادب کا مرکز بنا۔ لاہور میں علی بن عثمان ہجویری بہت مشہور ہوئے۔ محمود غزنوی نے ہندوستان کے بت پرستوں پر سترہ حملے کر کے اسلامی دنیا میں شہرت پائی۔ ہندوستان پر حملے کے دور ان بت پرستی کے بڑے مرکز سومنات کے مندر کو مٹا دیا۔ پجاریوں نے دولت کے ڈھیر محمود کے سامنے لا کر رکھے مگر محمود نے تاریخ کلمات کہے تھے کہ میں بت شکن ہوں بت فروش نہیں ہوں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں