میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وقت بہت بے رحم ہے!!

وقت بہت بے رحم ہے!!

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۲ ستمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔
خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ سمیٹے تو اُنہیں دو مصرعے پڑھنے کو ملے: شکاری جب شکار کو نکلتے ہیں تو پوچھتے ہیں حقیقت میں شکاری کون ہے اور شکار کون”؟ قزّاقِ اَجَل کی نظروں سے کبھی دیکھا نہیں، طارق عزیز خود کو شکاری سمجھتے تھے۔ مگر ہائے یہ وقت!!
طارق عزیز سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی تھے۔ ان کے مشیر ہی نہ رہے، قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری بھی بنا دیے گئے ۔ مشرف کے دور میں وہ اُن لوگوں میں شامل تھے، جنہیں بے پناہ طاقت حاصل تھی۔ ایک سابق انکم ٹیکس افسر پر اختیار و اقتدار کی راہداریاں یوں کھلیں کہ پرویز مشرف کے کالج دوست تھے۔ دونوں ایف سی کالج لاہور میں پڑھتے رہے۔ مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد طارق عزیز ،جنرل کا سیاسی پہیہ بنے۔ صرف اتنا ہی نہیں، وہ ایک ایسے سوداگر بنے جن کا کام میجر جنرل احتشام ضمیر کے ساتھ مل کر ایک ”فوج حامی سیاسی اتحاد” قائم کرنا تھا۔ یہ کام سیاست دانوں کی صرف رضامندی سے نہیں بلکہ اُنہیں مجبور کرکے بھی کیا جاتا۔ 2002ء کے عام انتخابات سے پہلے اور بعد میں ایسے ”وفادار” تیار کیے گئے، جو جرنیلی بندوبست کو ٹھیلنے کے لیے سیاسی پہیوں کا کام کرتے رہے۔ اصحاب ق کا ذکر چھوڑئیے، چودھری برادران کو بھی رہنے ہی دیجیے!دو سیاست دانوں کو یاد کرتے ہیں، جو اب کٹی پتنگ کی طرح ایک سے دوسرے ہاتھ دکھائی دیتے ہیں۔ آفتاب شیر پاؤ اور مخدوم فیصل صالح حیات۔آدمی کو کیا سوچنا چاہئے اگر وہ دو مرتبہ وزیراعلیٰ کے منصب پر رہا ہو، ایک بہتر میراث ، جسے آنے والی نسلیں اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔ مگر سیاست دان کوئی موقع فراموش نہیں کرتے، کسی کوبھی باری نہیں دینا چاہتے۔ آفتاب شیر پاؤ منظم استبداد سے حکومت پر قبضہ دیکھتے ہوئے 1999ء میں پاکستان سے فرار ہو گئے۔ مگر پاکستان میں جو مواقع ملتے ہیں، وہ باقی دنیا میں کہاں؟ چنانچہ دل مچلتا ہے۔ آفتاب شیر پاؤ ، مشرف کے انسدادِ بدعنوانی کے ادارے ( جو دراصل بدعنوانی کے بھاؤ تاؤ کی سیاسی دُکان تھی) سے "دل بہلانے” کے بعد وزیر پانی و بجلی اور پھر وزیر داخلہ بنائے گئے۔ مخدوم فیصل صالح حیات کا معاملہ بھی مختلف نہ تھا۔ وہ سرکاری بینکوں سے قرضے ہڑپ چکے تھے۔ ایک نادہندہ کے طور پر جیل کی ہوا کھا چکے تھے۔ اُنہیں میرٹ پر پیپلزپارٹی کے ثابت قدم رہنما بنانے کے لیے یہ کوائف کچھ کم شاندار نہیں۔ مگر ایسے ہی کوائف فوج حامی سیاسی اتحاد کی بھی ضرورت تھے۔ اب یہاں پیپلزپارٹی کے زرخیز مالی مواقع یا عسکری پھندے سے گردن بچانے میں سے کسی ایک کاانتخاب درپیش تھا۔ تعاقب میں طارق عزیز اور احتشام ضمیر تھے۔ اُنہوں نے سوچا گردن بچے گی تو زرخیز مواقع بھی میسر آجائیں گے۔ چنانچہ پیٹریاٹ کی عجیب وغریب ترکیب پیپلزپارٹی کے نام کے ساتھ ایک لاحقے کے طور پر لگا کر اُن کے حوالے کر دی گئی۔ اُنہیں بھی وزیر داخلہ اور وزیر ماحولیات کے طور پر قوم کی "خدمت”  کے مواقع ملے۔ انصاف ، قانون اور دولت سے مناصب اور عہدوں کا کوئی فولادی دھاگے سے تعلق جڑا ہوا ہے، جو ٹوٹتا نہیں۔ چنانچہ قانون کو مطلوب لوگ اچانک اقتدار پر طلوع ہو جاتے ہیں، اس دوران میں وہ تھوڑی دیر کے لیے احتساب کے آرام گھر میں سستانے جاتے ہیں۔ پاکستان میں وزارتوں اور احتسابی اداروں کے درمیان ایک نامیاتی تعلق ہے، جو سب کو نظر آتا ہے، صرف عدالتوں کو نہیں۔ چنانچہ مشرف دور میں کوئی سیاسی شخصیت احتسابی اداروں کی گرفت میں آتی تو سرکاری ٹھکیدار فوراً اُن کے رشتہ داروں سے دوستیاں گانٹھنے لگ جاتے کہ اور کچھ نہیں تو کوئی نہ کوئی وزارت ضرور لے مرے گا۔
آپ بھول نہ گئے ہوں تو جنرل مشرف کے ایک چیف آف اسٹاف ہوتے تھے، جنرل حامد جاوید۔ تنہائی پسند تھے، مگر طاقت کے استعمال میں دبنگ بھی، چنانچہ پس ِ منظر میں رہ کر بروئے کار رہتے۔ مگر اسلام آباد کے زون فور کو ریگولرائز کرانے کے تنازع سے خود کو نہ بچا سکے۔ طارق عزیز اور حامد جاوید دونوں ہی اس میں ملوث رہے۔ فیصل صالح حیات تب اپنی وزارت داخلہ سے فراغت کو اس معاملے میں رکاؤٹ بننے سے منسلک کرتے تھے۔ بھارت کے ساتھ تب "بیک چینل ڈپلومیسی”  کا بڑا غلغلہ تھا۔ سابق وائس چیف جنرل(ر) یوسف پر بھی مختلف الزامات عائد ہوتے رہے۔ مگر ایک الزام وہ بھی اپنے ”باس” پر لگاتے تھے کہ بھارت کے ساتھ "بیک چینل ڈپلومیسی” کی دوڑیں طارق عزیز کے ہاتھ میں تھیں۔ تب سی جی ایس کے طور پر بروئے کار لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کا یہ انکشاف اب اپنی تازگی کھو چکا ہے کہ "باس یکطرفہ فیصلے کرتے تھے”۔ بھارتی سفیر آنجہانی ستیندر کمار لامبا اور طارق عزیز دراصل اُس بغیر دستخط  "نان پیپر” کی تیاری میں ملوث تھے، جس سے کشمیر مسئلے کو نمٹایا جانا تھا۔ یہ ایک مشکوک مشق تھی، جس کی تائید کبھی مردِ حریت سید علی گیلانی مرحوم نے نہیں کی۔ یہ راز بعدازاں جنرل شاہد عزیز سے منکشف ہوا کہ اس ضمن میں کورکمانڈرز سے بھی معاملات چھپائے گئے۔ یہاں تک کہ بعض اہم فیصلے بھی فوج کے اس اہم ترین ادارے کو اعتماد میں لیے بغیر کیے گئے۔
جنرل (ر) شاہد عزیز ، طارق عزیز کے ایک ٹیلی فون کا بھی ذکر کرتے رہے، جب وہ چیئرمین نیب تھے۔ وہی بدعنوانوں کے حکومت میں جانے سے پہلے کا آرام گھر۔ طارق عزیز نے فرمایا: صدر نے بے نظیر بھٹو کے خلاف تمام مقدمات بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، چنانچہ آپ تمام تحقیقات ختم کردیں” ۔ شاہد عزیز سے جیسے توقع کی جاسکتی تھی، اُنہوں نے منع کیا۔ جنرل(ر) شاہد عزیز کو طارق عزیز کے دوسرے فون کا سامنا کرنا پڑا جس میں اُنہیں کہا گیا کہ "ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ مقدمات بند نہیں کرتے تو استعفیٰ دے سکتے ہیں”۔ شاہد عزیز نے وضاحت چاہی کہ یہ "ہم” کون ہیں، جس نے فیصلہ کیا۔ طارق عزیز نے نام لیے: طارق عزیز(یعنی وہ خود) جنرل حامد جاوید اور جنرل کیانی (آئی ایس آئی چیف) ۔ بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان ہونے والے معاہدے کے سب سے اہم کھلاڑی طارق عزیز ہی تھے۔ جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو کے مابین مفاہمت کی کہانی تو خود بے نظیر بھٹو کی اپنی آخری کتاب میں تفصیل سے موجود ہے، مگر اس کا پورا راستہ ہموار کرنے والے یہی طارق عزیز تھے۔ اقتدار کی راہداریوں میں حشرات الارض کی طرح رینگتی سازشوں سے جنمتی اس "مفاہمت” نے احتساب کی رہی سہی آبرو بھی باقی نہ رہنے دی۔ مشرف دور کے اکثر معاملات کے پیچھے کارگزار طاقت طارق عزیز کی تھی۔ جن کی ذاتی زندگی وحشتوں اور شہوتوں میں لتھڑی ہوئی تھی۔ ریس کلب کے جوئے اس کی محض ایک جھلک تھے۔ مگر اس سے بہت آگے کی داستانیں جو سنائی جائیں تو آدمی کو دم بخود کردیتی ہے۔ طارق عزیز کی طاقت سب سے بڑھ کر تھی۔ ایسے لوگ ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ کہاں سے نمودار ہوتے ہیں، کیوں اتنی طاقت پالیتے ہیں؟ پورا نظام اور ادارے منہ تکتے کیسے رہ جاتے ہیں؟ اس پُرکاری و فنکاری کے پیچھے "قوت محرکہ” کیا ہوتی ہے؟ پھر وہ اپنے پیچھے کیا چھوڑ جاتے ہیں؟ سلطنت عثمانیہ میں بادشاہ کی تبدیلی حضرت ابوایوب انصا ری کی درگاہ پر ہوتی تھی جہاں شہزادے کی کمر پر خاندانِ عثمانیہ کی تلوار باندھی جاتی۔ سلطان سلیم کے بعد جب سلیمان عالی شان کی کمر سے تلوار باندھ دی گئی تو نئے سلطان نے اپنے خاص الخاص کے لیے جسے منتخب کیا وہ ایک یونانی تھا، ابراہیم یونانی۔ حاضر دماغ۔ یونانی تو اس کی مادری زبان تھی، مگر اطالوی، ترکی اور فارسی پر بھی ہاتھ صاف کرلیا تھا۔ وہ اپنے بادشاہ کو فارسی شعر سناتا، دانتے کی نظمیں پڑھتا۔ سلیمان عالی شان کے دل میں آنے والے خیال کو وہ شعر کے مضمون میں بیان کرتا۔ ایک روز کہا: محلوں کو بنانے سے کیا فائدہ، جب انجام کار اُن کو ویرانوں میں تبدیل ہوناہے”۔ تب سلطان نے پوچھا: پھر باقی کون سی چیز رہ جائے گی؟ابراہیم یونانی کا جواب تھا: دانش مندی، یہ راگ جو میں گا رہا ہوں اور انگورہ کی بکریاں”۔ ابراہیم یونانی کو تو کیا رہنا تھا، سلیمان محتشم بھی نہ رہے۔ کشمیر کے نان پیپر کا سازشی دماغ ستیندر لامبا آنجہانی ہوگیا۔ مگر علی گیلانی مردِ حریت کہلاتا ہے، صداقت اور بہادری کے ایک لہکتے استعارے میں جیتا ہے۔ مگر طارق عزیز کی زندگی میں اس کے آگے ہاتھ باندھنے والے اُس کی نماز جنازہ میں شامل نہ ہوئے۔ وہ اخبار کی بڑی سرخیوں میں بھی نہ ملا۔
دولت اور مناصب کی لالچ ایسی چیز ہے، جس کے لیے لوگ آخرت بیچنے کو تیار ہوتے ہیں۔ خلق خدا کی لعنتوں کا طوق گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ افتادگان خاک کی بددعائیں گوارا کرتے ہیں۔
زندہ اور مردہ لوگوں میں فرق سانسوں کے آنے اور جانے سے نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ مر جاتے ہیں ،مگر وہ زندوں سے زیادہ زندہ رہتے ہیں۔ اور کچھ زندہ ہوتے ہیں، مگر اُن کا شمار مردہ لوگوں میں ہوتا ہے۔ درحقیقت زندگی ایک برتر مقصد کے ساتھ ہی بامعنی بنتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر سانسیں لینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ وقت ایسے لوگوں کو چھان کر نسیان کے حوالے کردیتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے پیچھے صرف عبرت کے کچھ نقش چھوڑتے ہیں ۔ اطلس و کمخواب کی پوشاکیں یہیں رہ جاتی ہیں اور تن ِ بے جان ایک خاکی کفن سے اپنی عریانی ڈھانپتا ہے، پھر وہ بھی نہیں رہتا۔ کیا باقی رہ جاتا ہے، سلیمان عالی شان کے پاس جواب تھا، طارق عزیز کے پاس نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں