مبارک ثانی کیس: مذہبی حلقوں کا شدید ردِ عمل، سپریم کورٹ کا علمائے کرام سے معاونت لینے کا فیصلہ
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے مبارک ثانی نظر ثانی کیس میں علمائے کرام سے معاونت حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی مخصوص پیراگراف کو حذف کرنے کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظر ثانی میں جب آپ نے فیصلہ دیا تو پارلیمنٹ اور علما ئے کرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کر کے کہا کہ حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے خط ملا تھا اور وزیراعظم کی جانب سے بھی ہدایات کی گئیں تھی، ظاہر ہے دوسری نظرثانی تو نہیں ہو سکتی، اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے آئے ہیں،عدالت کی جانب سے فریقین کو نوٹسز جاری کیے گئے تو فریقین عدالت میں اور ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے ہیں، انہوں نے استدعا کی کہ کیونکہ معاملہ مذہبی ہے تو علمائے کرام کو سن لیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن مجبور ہوں کہ میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے، انسان اپنے قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے، پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر ہے، آئین کی 50 ویں سالگرہ پر میں خود پارلیمنٹ میں گیا، میری ہر نماز کے بعد ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ کوئی غلط فیصلہ نہ ہو، آپ کا شکریہ کہ آپ ہمیں موقع دے رہے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے مولانا فضل الرحمن ،مفتی شیر محمد اور کمرہ عدالت میں موجود علمائے کرام سے معاونت لینے کا فیصلہ کرلیا، ابو الخیر محمد زبیر اور جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بھی عدالت کی معاونت کریں گے۔ بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ ہم نے مفتی تقی عثمانی سے بھی معاونت کا کہا تھا لیکن وہ ترکیہ میں ہیں، ہم نے مفتی منیب الرحمن کو آنے کی زحمت دی تھی لیکن وہ نہیں آئے، اس پر مفتی منیب کے نمائندے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مجھے مفتی منیب الرحمن نے مقرر کیا ہے۔ اس موقع پر مولانا تقی عثمانی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوگئے۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہے تو ہمیں بتائیں، ہم دیگر اکابرین کو بھی سنیں گے۔ مفتی تقی عثمانی نے بتایا کہ فروری کے فیصلے اور نظرثانی پر بھی تبصرہ بھیجا، مجھے نہیں معلوم آپ تک میری رائے پہنچی یا نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم وہ منگوالیں گے لیکن زبانی طور پر بھی آپ کو سننا چاہتے ہیں کیونکہ فروری کا فیصلہ نظرثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے، میرا مؤقف ہے کہ ہم امریکا اور برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اپنی کیوں نہ دیں؟ میں قرآن مجید ،احادیث اور فقہ کا حوالہ دیتا ہوں مگر شاید میری کم علمی ہے، اگر سب علمائے کرام کی رائے فیصلے میں شامل ہوتی تو فیصلہ نہیں کتاب بن جاتی۔ اس پر مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نظر ثانی فیصلے میں بتائیں کون سے پیراگراف غلط ہیں؟ مفتی تقی نے جواب دیا کہ آپ فیصلے میں طے شدہ مسائل سے زیادہ اصل مسئلے کو وقت دیتے، اسی کے ساتھ مفتی تقی عثمانی نے پیراگراف 7 اور 42 میں غلطی کی نشاہدہی کردی۔ انہوں نے کہا کہ نظرثانی فیصلے میں شروع کے پیراگراف درست ہیں اور یہ طے شدہ ہیں، آپ نے فیصلے میں لکھا کہ احمدی نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دے رہا تھا، تاثر مل رہا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دے سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ مفتی تقی عثمانی نے 29 مئی کے فیصلے سے دو پیراگراف حذف کرنے کا مطالبہ کر دیا، انہوں نے فیصلہ کے پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا۔ مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ پیراگراف 42 میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا یعنی غیر مشروط اجازت دی۔ اس پر چیف جسٹس نے سیکشن 298 سی پڑھ کر سنایا۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سیکشن کے مطابق غیر مسلم کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے تبلیغ کی اجازت نہیں، قادیانی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیر مسلم نہیں تسلیم کرتے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تقی عثمانی صاحب میں معذرت چاہتا ہوں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت ساری دستاویزات ملے، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلے کی پوری کتاب بن جاتی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ان تمام دستاویزات کو دیکھ نہیں سکا وہ میری کوتاہی ہے، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں، میں کوئی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔ بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کئی نشستیں عدالت کی ہوئی ہیں اور اب نظرثانی کا معاملہ ہے، اس پر چیف جسٹس نے بتایا کہ یہ نظرثانی نہیں ہے، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ نظر ثالث ہے، علمائے کرام کی اپنی رائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی سامنے آ چکی ہے، آپ کے فیصلے کے خلاف یہ آرا آئی ہیں، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ کوئی اور بھی فیصلہ تھا آپ نے جمع کا صیغہ استعمال کیا۔ اس پر سربراہ جے یو آئی (ف) نے بتایا کہ آپ نے فرمایا کہ آپ سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، ہمارا بھی جمع کا صیغہ اگنور کریں، میں 72 سال کی عمر میں پہلی بار کسی عدالت کے سامنے کھڑا ہوا، مجھے اللہ نے عدالت سے بچائے رکھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اتنے برے نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ قادنی پوری امت مسلم کو غیر مسلم کہتے ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی کہتا تھا جو اس پر ایمان نہ لائے وہ غیر مسلم ہے، یہ تو کہا جاتا ہے کہ ہم انہیں غیر مسلم کہتے ہیں لیکن جو وہ کہتے ہیں اس پر بات نہیں ہوتی، قادیانی مرتد ہیں تو ہم نے انہیں غیر مسلم کا نام کیوں دیا یہ سوال بھی ہے؟ ہم پاکستان میں غیر مسلوں کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں چند علمائے کرام نے احتجاج شروع کردیا۔ احتجاج کرنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ خاموش ہو جائیں، انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے مکالمہ کیا کہ مولانا صاحب ان کو سمجائیں، مولانا فضل الرحمن نے جواب دیا کہ آپ کی عدالت ہے آپ کا حکم چلے گا، آپ اس کیس کو کسی نتیجے تک پہنچائیں۔ اسی کے ساتھ عدالت نے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔ یاد رہے کہ 18 اگست کو سپریم کورٹ نے مبارک احمد ثانی کیس کے فیصلے میں سے بعض حصوں کو خارج کرنے کی حکومت پنجاب کی درخواست 22 اگست کو سماعت کے لیے مقرر کر دی تھی۔ تین صفحات پر مشتمل درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیراگراف 49 کو خارج کرنے اور تصحیح کی ضرورت ہے کیونکہ 24 جولائی کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) کا 1985 کا مجیب الرحمن بمقابلہ حکومت پاکستان کا فیصلہ اور سپریم کورٹ کا ظہیر الدین بمقابلہ ریاست کیس میں 1993 کا فیصلہ پابند نظیریں تھیں اور یہ کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے 6 فروری کے فیصلے میں ان پابند نظیروں سے انحراف نہیں کیا ہے۔ درخواست میں وضاحت کی گئی ہے کہ فیصلے کے کچھ دوسرے پیراگراف میں شامل کچھ مشاہدات اور نتائج سپریم کورٹ کی طرف سے بیان کردہ نظیروں کے برعکس ہونے کی وجہ سے ایک حادثاتی غلطی معلوم ہوتے ہیں۔ اس طرح نظرثانی درخواست میں فیصلے کے اس طرح کے حصوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل کی جانب سے درخواست کو 24جولائی کے فیصلے میں ترمیم کے لیے ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) 1898 کے سیکشن 561 اے کے تحت پیش کیا گیا جو سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر 33 رول 6 اور کوڈ آف سول پروسیجر 1908 کے سیکشن 152 اور 153 کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ جن علمائے کرام نے وفاقی حکومت سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی درخواست کی ان میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے مفتی محمد تقی عثمانی، دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے مفتی منیب الرحمن، گوجرانوالہ سے مولانا زاہد الراشدی، بھیرہ سے مفتی شیر محمد خان، جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن، جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر پروفیسر ساجد میر، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا انوار الحق، چیف خطیب خیبرپختونخوا مولانا طیب قریشی، جامعہ عروۃ الواسقہ لاہور کے سید جواد علی شاہ، ر ملی یکجہتی کونسل کے صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر اور مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے امیر مولانا محمد اعجاز مصطفی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ 6 فروری کو، چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے مبارک ثانی کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا، جن پر 2019 میں پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) (ترمیمی) ایکٹ کے تحت ایک جرم کرنے کا الزام تھا۔ اپنے فیصلے میں، عدالت نے نوٹ کیا کہ مدعا علیہ پر جس جرم کا الزام لگایا گیا ہے اسے 2021 تک مجرمانہ قرار نہیں دیا گیا، نتیجتاً، عدالت عظمیٰ نے سزا کو ایک طرف رکھتے ہوئے درخواست گزار کی فوری رہائی کا حکم دے دیا تھا۔جس پر مذہبی حلقوں سے شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا جس نے سپریم کورٹ کو وضاحت جاری کرنے پر مجبور کردیا۔ اس فیصلے کو بعد میں پنجاب حکومت نے اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ آئین کے آرٹیکل 20 سے متعلق آرڈر کے پیراگراف 9 میں ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ شہریوں کے حقوق جیسا کہ اس شق کے تحت تصور کیا گیا ہے مطلق نہیں بلکہ قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے تابع تھے۔ درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے، سپریم کورٹ نے 24 جولائی کو مبینہ طور پر قرار دیا کہ مذہب اور مذہبی آزادی کا دعویٰ کرنے کا حق جیسے آئین نے یقینی بنایا ہے، قانون، اخلاقیات اور امن عامہ کے تابع ہے۔ فیصلے میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل ایمان ہی اسلام کی بنیاد ہے، یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کے بغیر کسی کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔ 19 اگست کو عوامی مجلس تحفظ ختم نبوت کی جانب سے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ سے اپنا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کرنے کے بعد مظاہرین نے سپریم کورٹ کی سیکیورٹی کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی تھی۔ پولیس نے مظاہرین کو سپریم کورٹ پہنچنے سے روکنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی، پولیس نے بتایا کہ اس سے پہلے مظاہرین دوپہر کے وقت ایکسپریس چوک پہنچے تھے اور انہوں نے تقریر کرنے کے لیے ایک گاڑی پر ایک اسٹیج بنایا جس میں ساؤنڈ سسٹم نصب تھا۔ ایک دن بعد، دارالحکومت پولیس نے ریڈ زون میں داخل ہونے پر 6000 سے زیادہ مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) اور پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت ایک پولیس اہلکار کی جانب سے سیکریٹریٹ پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی، ایف آئی آر میں 7 افراد کو ناموں سمیت جب کہ 5 ہزار سے 6 ہزار افراد کو نامعلوم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ اس کے علاوہ 21 اگست کو اینکر پرسن اوریا مقبول جان کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے لاہور سے سوشل میڈیا پر مبارک ثانی کیس کے بارے میں پوسٹ کرنے پر گرفتار کرلیا تھا۔ ایڈووکیٹ میاں علی اشفاق نے بتایا کہ اوریا مقبول جان کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے گرفتار کیا اور گلبرگ آفس میں نظر بند کر دیا، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں آج جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ یڈووکیٹ اشفاق نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس اس کیس میں کوئی اختیار نہیں، ہم مضبوط دلائل پیش کریں گے۔ ہمیں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کی تفصیلات نہیں بتائی جا رہی ہیں۔