میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بیس سالہ افغان جنگ اور امریکا

بیس سالہ افغان جنگ اور امریکا

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۲ اگست ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

لارا جیکس

سقوطِ کابل کے بعد بائیڈن حکومت کو ایک ناقابل تصور مخمصے کا سامنا ہے کہ افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے ساتھ کیسے نمٹا جائے یاوہاں موجود اس شدت پسند گروپ کے ساتھ ہر طرح کے روابط ختم کردیے جائیں جس نے افغانوں کے خون سے ہاتھ رنگے اور اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں پناہ دی تاکہ وہ امریکا پر حملے کی منصوبہ بندی کر سکے۔امریکی حکومت کے دو عہدیداروں نے جو اعلیٰ مشاورت میں شریک تھے‘ بتایاکہ صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے صدر اشرف غنی کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی مگر ا س کے چند گھنٹے بعد ہی وہ افغانستان سے فرار ہو گئے۔اس طرح افغان طالبان کو موقع مل گیا کہ بحران میں گھرے افغانستان میں ایک عبوری حکومت کے قیام کے لیے باہمی مذاکرات کر سکیں۔
حکام نے بتایا کہ اشرف غنی اپنی کابینہ کو آگاہ کیے بغیر اورانتقالِ اقتدار کا کوئی پلان دیے بغیر ملک سے فرار ہوگئے۔اس طرح افغان طالبان کے لیے کابل پر قبضے کی راہ ہموار ہوگئی۔بائیڈن حکومت اب صرف یہی امید کر سکتی ہے کہ جس قدرجلد ممکن ہو یہ مرحلہ پرامن طریقے سے اپنے انجام کو پہنچ جائے۔اب امریکی حکومت کے امن مذاکرات کرنے کے تمام امکانات بھی دم توڑ گئے ہیں جن کا مقصد طالبان اور افغان منتخب نمائندوںکے مابین شراکت اقتدار کا کوئی نظام وضع کرنا تھا۔اب امریکیوں کو یہی ایک امید ہے کہ وہ گروپ جس نے حالیہ مہینوں میں اعتدال پسندی اپنانے کی تمام درخواستوں کو رد کر دیا تھا وہ خواتین اورشہریوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کر ے گا اوراپنے اس وعدے کی بھی پاسداری کرے گا کہ القاعدہ کے دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ نہیں دے گا۔وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے صحافیوں کو بتایاکہ امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد قطر میں تھے اور یو این او اور دیگر عالمی سفارت کاروں کے ساتھ مل کر یہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح اس مسئلے کاایک ایسا پرامن حل اور پرامن انتقال اقتدار ممکن ہو جائے جوافغان عوام کے لیے مفید ہو اور وہ مزید خونریزی سے بچ جائیں۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد سابق صدر حامد کرزئی اور مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سمیت افغان رہنمائوں میں اتفاق رائے قائم کر نے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کی جائے۔ان دونوں لیڈروں کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اتنا سیاسی وزن رکھتے ہیں کہ طالبان کوآئندہ کے لائحہ عمل پر بات چیت کے لیے آمادہ کر سکیں۔مگر نجی سطح پر بائیڈن حکومت سمجھتی ہے کہ اب وہ امن عمل کو آگے لے جانے کے قابل نہیں رہی ‘اب تو صرف شکست خوردہ افغان حکومت کے خاتمے کے لیے ہی بات چیت ہو سکتی ہے۔ صدر بائیڈن نے جب جنوری میں حکومت سنبھالی تو انہوں نے طالبان کے ساتھ ہونے والے دوحہ معاہدے کی پاسداری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اتوار کو مسٹر بلنکن نے بتایا کہ امریکا کے پا س ایک ہی آپشن تھا کہ معاہدے کے مطابق فوج کا انخلا کرے یا امریکی فوجیوں پر حملوں کے لیے تیا ررہے۔انہوں نے طالبان کی تیزرفتار پیش قدمی پر حیرانی کا اظہا رکیا۔کابل کے امریکی سفارت خانے کاآخری اہلکار بھی کمپائونڈ میں بکھرے امریکی جھنڈے چھوڑکر اتوار کو ایئرپورٹ پر قائم محفوظ بنکر میں منتقل ہو گیا تھا کیونکہ کسی خطرے کی صورت میں سفارت کاروں کے لیے ہوائی اڈے سے افغانستان چھوڑناآسان رہے گا۔مسٹر بلنکن کے مطابق افغان ایشوز کے لیے نائب وزیر خارجہ برائے وسطی ایشیا ڈین تھامسن کی قیاد ت میں ایک ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے۔
افغانستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری اوربیس سالہ جنگ میں ہزاروں فوجیوں کی قربانی کے باوجود کابل کی حکومت واشنگٹن کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب بائیڈن حکومت کے پاس طالبان حکومت پر اثر انداز ہونے کے لیے کون سا ہتھیار باقی بچا ہے۔عرصے سے امریکی حکومت کہہ رہی تھی کہ امید ہے کہ طالبان فارن فنڈنگ لینے اور سفارتی ساکھ قائم کرنے کے لیے اعتدال پسندی کی راہ اپنائیں گے۔نیز یہ کہ بزورِ بازو قائم ہونے والی حکومت اپنا جواز اور ساکھ برقرار نہیں رکھ سکے گی۔گزشتہ ماہ الجزیرہ کو انٹرویو میں انٹونی بلنکن نے کہاتھا کہ ایسا افغانستان جہاں انسانی حقوق اورخواتین کے احترام کا خیال نہ رکھا گیا تو ہم بیس سال میں حاصل کیے گئے ثمرات سے محروم ہو جائیں گے اور عالمی برادری بھی ایسی حکومت کو قبول نہیں کرے گی۔اتوار کو مسٹر بلنکن نے ایک مرتبہ پھر اسی بات کا اعادہ کیا کہ طالبان کو اسامہ بن لادن جیسے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ نہیں دینی چاہئے جنہوں نے یہاں بیٹھ کرامریکا پر حملے کیے تھے۔ اس میں طالبان کا اپنا بھی فائدہ ہے‘ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ کیا ہوا تھا جب یہاں پناہ لیے ہوئے گروپ نے امریکا پر حملہ کیا تھا۔یہ بات ان کے اپنے مفا دمیں بھی نہیں ہے کہ ایسا کوئی عمل ایک بار پھریہاں سے دہرایا جائے۔ امریکا میں پاکستان کے ایک سابق سفیر کہتے ہیں کہ امریکا نے 2001ء میں حملہ کرنے سے پہلے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کیا جائے مگر طالبان نے ایسا کرنے سے انکارکردیا تھا۔ افغان امور کے ماہر بل روجیو کے مطابق اتوار کو ایک ناخوشگوار بات یہ ہوئی کہ طالبان نے کابل کے قریب بگرام ایئر بیس پر قائم ایک جیل کے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا۔ آنے والے دنوں میں دیر تک اس واقعے کی بازگشت بھی سنی جائے گی۔
امریکا نے کابل میں اپنے سفارتی عملے کو نکالنے میں بڑی تیزی دکھائی ہے اس لیے انسانی اور مہاجرین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس نے بائیڈن حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اس نے اپنے افغان اتحادیوں کو طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہیومین رائٹس فرسٹ کی سینئر ڈائریکٹر جینیفر کوئگلی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب تک ان ہزاروں اتحادیوں اور ان کے خاندانوں کو نکال کر امریکا لانے کی ایک تیز رفتار کوشش نہیں کی جاتی تو یہ اس وعدے کی کھلی خلا ف ورزی ہوگی۔ا س مہینے کے شروع میں بائیڈن حکومت نے اعلان کیا تھاکہ کانگرس نے امریکی فوج کی مدد کرنے والے اور امریکا میں قائم میڈیا تنظیموں اور این جی اوز کے لیے کام کرنے والے افغانوں کے لیے سپیشل امیگرنٹ ویزا پروگرام کی منظور ی دی تھی۔مگر امریکی حکام نے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ایسے افغانوں کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے اور اس کے لیے انہیں پہلے اپنے طورپر افغانستان چھوڑنا ہوگا تاکہ ان کی ویزا درخواست پر دفتری کارروائی شروع کی جا سکے اور اس عمل میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔اب چونکہ تمام شہروں ‘شاہراہوں اورسرحدی کراسنگ پر طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے اس لیے اتنی تاخیر ہو چکی ہے کہ اب کسی کے لیے افغانستان کو چھوڑنااتنا آسان نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں