گاڈ فادر بنتے کیسے ہیں؟
شیئر کریں
امام غزالی ؒ کی کتاب نصیحتہ الملوک سماج میں روشنی کرتی ہے، فرمایا : دیانت داری کا انحصار حکمران کے کردار پر ہے۔کتاب میں ساسانی حکمرانوں کی کھلی کچہری کی ایک سالانہ روایت کا بھی ذکر ملتا ہے، عام لوگ اپنی معروضات اور شکایات پیش کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ تب طاقت ور سب سے کمزور اور کمزور سب سے طاقت ور ہوجاتے۔ یہاں تک کہ بادشاہ قاضی القضاہ یعنی منصف اعلیٰ (چیف جسٹس) کے سامنے دو زانوں بیٹھ جاتا اور اپنے اوپر شکایتوں کا فیصلہ لیتا۔انصاف کی روشنی حکمران کے کردار سے پھوٹتی ہے اور احتساب کی امید بھی اُس کے میلے دامن کی صفائی سے بندھتی ہے۔ یہ نہ ہو تو پھر بابا سب کہا نیاں ہیں۔ عرب کہاوت جوہری طور پر اس پورے مقدمے کا احاطہ کرتی ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔کوئی نوازشریف کے کان میں چپکے سے کہے کہ مچھلی سڑر ہی ہے۔
عربی کہاوت کا پیغام بالکل واضح ہے۔ حکمران کے باب میں معاشرے اور اداروں کو زیادہ بے رحم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر اُنہیں رعایت ملنے لگے تو پھر سماج بے رحمی کے پھندے پر جھولتااور ناانصافی کے ہاتھوں جھونجھتا رہے گا۔امام غزالی نے توریت کی ایک آیت کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں فرمایا گیا کہ’’ اہلکاروں کی بے انصافی اور ظلم جو بادشاہ کی نظر میں آئے اور وہ خاموش رہے تو یہ اُس کی اپنی ہی بے انصافی میں شمار کیا جائے گا، اور اس پر اُسے سزا ملے گی‘‘۔ یہاں معاملہ اہلکاروں کا ہی نہیں خود اپنے خاندان اور اُس کے ہر فرد کا ہے۔ پاکستان اپنے حساس ترین دور میں داخل ہوچکا۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے جب 20؍ اپریل کو اپنا فیصلہ سنایا اور اس میں محترم منصف آصف سعید کھوسہ نے 1969ء کے مشہور ناول ’’گاڈ فادر‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اُس کے ایک طویل ترین فقرے کو چند مختصر لفظوں میں سمیٹا کہ ’’ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔‘‘ تو اس کاچرچا توخوب خوب ہوا۔ مگر کم لوگوں نے غور کیا کہ گاڈ فادر بنتے کیسے ہیں؟گاڈ فادر ظلم پر قائم سماج میں جنم لیتے ہیں۔جہاں انصاف کی امید دم توڑتی چلی جائے۔ یہ فقرہ زیادہ صحیح معنوں میں ہمارے نظامِ انصاف پر ہی سوالات اُٹھاتا ہے۔جہاں نصیحتہ الملوک کا ظالم بادشاہ اور آج کے دور کا حکمران تمام چھلنیوں کو چھید تا ہوا غراتا پھرے اور نظام انصاف اُسے پنپنے کا موقع فراہم کرتا رہے۔اورعام لوگ جبر کی سان پر کَسے جاتے رہے۔ماریو پوزو کے ناول کا پہلا ہی باب اس امر کی تشریح کرتا ہے کہ آخر گاڈ فادر بنتے کیسے ہیں؟
یہ گاڈ فادر کے پہلے باب کا پہلا ورق ہے۔ جس پر نیویارک کی ایک کرمنل کورٹ نمبر 3 لگی ہوئی ہے۔ جہاں پر ایمریگو نامی شخص اپنی بیٹی پر بے رحمی سے تشدد اور بے آبرو کرنے کی زبردستی پر انصاف کا طالب تھا۔ منصف نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نہایت ترشی سے کٹہرے میں کھڑے دونوجوانوں کو کہا کہ ’’تم نے ذلیل لوگوں کی سی گھٹیا حرکت کی ہے‘‘۔’’جانور ۔ وحشی درندے‘‘۔جج بول رہا تھا کہ’’ تم لوگوں نے جنگلی درندوں جیسی حرکت کی ہے۔ شکر ہے کہ تم نے اس لڑکی کو جنسی تشدد کا نشانا نہیں بنایا، ورنہ تمہیں بیس برس تک جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جاتا۔‘‘
جج دم بھر توقف لیتا ہے۔اورپھر یوں گویا ہوتا ہے کہ : مگر تمہاری جوانی، ستھرے ماضی کا ریکارڈ، اعلیٰ خاندانی پس منظرا ور قانون کی عدم انتقام کی خواہش کے باعث تمہیں تین سال کے لیے اصلاحی قید خانے کی سزا سنائی جاتی ہے او ریہ سزا معطل کی جاتی ہے۔‘‘
انصاف کے طالب باپ نے اپنی اُس خوب صورت بیٹی کو یاد کیا جو ابھی بھی اسپتال میں اپنے ٹوٹے ہوئے جبروں کے ساتھ پڑی تھی۔ اور اس مضحکہ خیز ناٹک پر اپنے چہرے پر پھیلتی نفرت اور مایوسی کو چھپایا۔تب مجرم بچے کٹہرے سے باہر اپنے عزیزوں کے گر دجمع ہو کر فاتحانہ مسکراہٹیں اور طنزیہ لاپروائی کے ساتھ انصاف کا منہ چڑا رہے تھے۔باپ ایمریگو ،رومال سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اپنی بیوی کی جانب مڑتا ہے ، جو اب تک کچھ بھی سمجھنے سے قاصر رہی تھی۔وہ اُسے نفرت، مایوسی اور بے بسی کے ساتھ سمجھاتا ہے کہ کس طرح اس پورے نظامِ انصاف نے مل کر اُنہیں بے وقوف بنایا ہے۔ پھر وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ
’’ہمیں اپنا انصاف ڈان کارلیون ہی دے سکتا ہے۔ ہمیں اس کے پاس ہی جانا ہوگا۔‘‘
ڈان کارلیون کون؟ گاڈ فادر۔ گاڈ فادر اس طرح پیدا ہوتے ہیں۔ نظام کی ناکامیاں لوگوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ متوازی طور پر قائم نظام کی طرف دیکھے جو قانون سے بالا ہے اور جہاں طاقت کاراج ہے۔ اگر لوگ انصاف کی دہلیز سے مایوس ہوجائے یا انصاف کی دہلیز طاقت کے آگے سجدہ ریز رہے تو پھر اس معاشرے میں گاڈ فادر امید کا مرکز بن کر اُبھرتے ہیں۔ قانون کے خلاف اپنے قانون کا سکہ چلانے والے یہ عناصر مایوسی کی تجارت کرتے ہیں۔اُنہیں امید بیچتے ہیں اور پھر اُنہیں اپنے مذموم عزائم کی بھینٹ چڑھاتے ہیں ۔ پورا پاکستان اس کی تصویر بن چکا۔
مایوس باپ نے عدالت سے مایوس ہو کر جس ڈان کارلیون سے انصاف کی امید باندھی، وہ وہی ڈان کارلیون ہے جو گاڈ فادر نامی ناول کا مرکزی کردار ہے۔ عدالت عظمیٰ کے معزز منصف نے اپنے فیصلے میں اسی ناول کا فقرہ لکھا تھا۔ ’’ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے‘‘ ۔انصاف! جناب والا انصاف! معاشرے کا آہنگ اس کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتا۔ پاکستان میں عام لوگوں کی امیدیں اب نظام سے وابستہ نہیں رہی۔ وہ اپنی مصیبتوں کا حل متوازی ذرائع میں ڈھونڈتے ہیں۔گاڈ فادرکو اب کو ئی اور نہیں عدالتیں ہی روک سکتی ہیں۔ وگرنہ لوگ مایوس باپ ایمریگو کی طرح عدالت سے باہر نکلتے ہوئے ڈان کارلیون کا راستہ ڈھونڈتے رہیں گے۔
٭٭…٭٭