میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
این اے’’ دو سو ساٹھ‘‘ کا انتخابی معرکہ

این اے’’ دو سو ساٹھ‘‘ کا انتخابی معرکہ

منتظم
هفته, ۲۲ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

15جولائی2017ء کو قومی اسمبلی کی نشست این اے260پر ضمنی انتخاب کا عمل بخیر و خوبی اختتام کو پہنچا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار انجینئر محمد عثمان بادینی44ہزار898ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ اس سے قبل اس حلقے پر کامیاب کوئی بھی امیدوار اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پایا ہے۔ این اے260کوئٹہ، نوشکی اور چاغی کے اضلاع پر مشتمل ہے یعنی800کلو میٹر طویل اور 50ہزار مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر مشتمل یہ حلقہ ملک کا سب سے بڑا انتخابی حلقہ ہے۔ اس وجہ سے اس حلقے کے مسائل بھی گمبھیر و ان گنت ہیں۔ گویاتین اضلاع پر قومی اسمبلی کی ایک نشست،زیادتی نہیں تو اور کس بلا کا نام ہے۔ ؟ اس حلقے میں کوئٹہ کی صوبائی اسمبلی کے دو حلقے پی بی 6اور پی بی5شامل ہیں۔ نوشکی اور چاغی دونوں اضلاع پورے کے پورے شامل ہیں ۔ گویا یہ تینوں اضلاع ایک دوسرے سے طویل فاصلوں پر واقع ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیئرمین عبدالرحیم مندوخیل (مرحوم) یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ تب انتخابی فضاء پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے حق میں تھی۔ کوئٹہ سٹی یعنی این اے259سے خود محمود خان اچکزئی کامیاب ہوئے ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے صوبائی اسمبلی کی 14نشستیں لیکر بڑا مینڈیٹ حاصل کیا۔ عبدالرحیم مندوخیل کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چونکہ بلوچ اضلاع میں امن وامان کی صورتحال خراب تھی ۔ عوام انتخابی عمل میں شریک نہیں ہوئے ۔ اس بنا ء ووٹوں کی شرح انتہائی کم رہی ۔ اس لئے عبدالرحیم مندوخیل باآسانی جیت گئے۔منتخب رکن قومی اسمبلی عبدالرحیم مندوخیل طویل عرصے علیل رہنے کے بعد20مئی 2017ء کو کوئٹہ کے بولان میڈیکل ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ عبدالرحیم مندوخیل فہم و دانش اورسیاسی سوجھ بوجھ کے مالک تھے۔ سیاسی رفاقت عبدالصمد خان اچکزئی سے قائم ہوئی تھی ۔1983ء میں جب محمود خان اچکزئی خود ساختہ طور پر جلا وطن ہوئے تو پارٹی کی تمام تر ذمہ داریاں عبدالرحیم مندوخیل کے کاندھوں پر تھیں۔ 1989ء میں محمود خان اچکزئی کی واپسی تک مندوخیل نے پشتونخوا میپ کے قائمقام چیئرمین کی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں ۔ گویا پشتونخوا میپ کی فکری و تنظیمی ساخت و تشکیل عبدالرحیم مندوخیل کی مرہون منت ہے ۔ ان کی سیاسی فعالیت،صحت و تندرستی تک پارٹی کے اندر کسی قسم کے اختلافات کا نہیں سنا گیا لیکن آج اختلافات وکدورتیں زبان زد عام ہیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اس اندرونی مناقشہ کے باعث’’ انٹرا پارٹی‘‘ انتخابات اب تک نہیں ہوسکے۔ پارٹی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے امیدوار جمال تر کئی نے این اے 260ء کا حالیہ ضمنی انتخاب ’’درخت‘‘ کی بجائے ’’سوزوکی‘‘ کے نشان کے ساتھ لڑا۔ بہر حال ضمنی انتخاب میں مقابلہ دراصل جمعیت علمائے اسلام ، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے درمیان ہی تھا۔ بی این پی کے امیدوار میر بہادر مینگل نے37ہزار481 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کرلی۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے جمال ترہ کئی نے 20 ہزار 485 ووٹ لئے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ پیپلز پارٹی کے میر عمیر محمد حسنی نے19ہزار840 ووٹ لئے۔ عمیر محمد حسنی سینیٹر سردار فتح محمد حسنی کے بیٹے ہیں ۔ اس انتخاب میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) ، عوامی نیشنل پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) اورہزارہ ڈیموکریٹک کا اتحاد بنا ،جس کی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی بلوچستان نیشنل موومنٹ اور جمعیت علماء پاکستان(نورانی ) نے بھی حمایت کی ۔ پشتونخوا میپ کو مجلس وحدت مسلمین کی حمایت حاصل تھی۔ بعض ہزارہ سرکردہ افراد نے بھی حمایت کی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام کو نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت الحدیث، اہلسنت و الجماعت سمیت دس علاقائی و قبائلی تنظیموں کی حمایت اور تعاون حاصل رہا۔تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر منیر بلوچ 2 ہزار 825 ووٹ کے ساتھ بہت پیچھے رہ گئے۔ یہی کچھ جے یو آئی نظریاتی کے ساتھ بھی ہوا ۔نظریاتی اور جمہوری وطن پارٹی نے اتحاد کر رکھا تھا۔ان کے امیدوار قاری مہرا للہ محض1883ووٹ ہی لے سکے۔ اس سے قبل حلقہ پی بی7زیارت کے ضمنی انتخاب میں بھی جمعیت نظریاتی اڑھائی سو ووٹ لے سکی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں جمعیت نظریاتی کے امیدوار حافظ فضل محمد بڑیچ مر حوم نے قومی اسمبلی کی اس نشست پر گیارہ ہزار ووٹ لئے تھے۔جے یو آئی ف سے الگ ہونے والا یہ دھڑا آغاز میں مضبوط تھا،اب رفتہ رفتہ ان کی سیاسی اہمیت کم ہوتی جار رہی ہے۔ چنانچہ اب اس دھڑے کو مراجعت کر لینی چاہئے ۔جے یو آئی فضل الرحمن گروپ ان کی اصل ہے،اور اسی لئے انھیں اپنی اصل سے جُڑنا چائیے۔ ادھر پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن کے آفس کے باہر احتجاج کیا۔ ہلڑبازی کی، سڑک پر ٹائر جلائے اور دھاندلی کا الزام لگایا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے ایسا کوئی الزام سامنے نہیں آیا بلکہ ان کے بیانات جس میں عوام کے تعاون کا شکریہ ادا کیا گیا ہے سے ثابت ہوا ہے کہ ان جماعتوں نے انتخابی فیصلہ قبول کرلیا ہے۔پشتونخوا میپ نے الیکشن کمیشن کے اقدامات کو بھی بہتر قرار دیا ۔ پشتونخوا میپ کو اس الیکشن میں کو ئٹہ کے 253 پولنگ اسٹیشنوں پر برتری حاصل ہوئی ہے ۔ان کے امیدوار نے ان اسٹیشنوں پر 19894 ووٹ لئے۔ اسطرح اس جماعت کوکو ئٹہ میں جے یو آئی اور بی این پی پر برتری حاصل ہوئی ہے۔ این اے 260پر نو منتخب رکن قومی اسمبلی انجینئر محمد عثمان بادینی پیشہ کے لحاظ سے تاجر ہیں۔ خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ یکم نومبر2015ء کو جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہوئے تھے۔ ضلع نوشکی کے رہائشی ہیں۔ ان کے والد حاجی ولی محمد بادینی مرحوم دو بار سینیٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔ انجینئر عثمان بادینی کے ایک بھائی حاجی محمد یوسف بادینی اِس وقت بھی سینٹ آف پاکستان کے رکن ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق ہے۔ الغرض ضمنی انتخاب میں شریک جماعتوں نے زبردست مہم چلائی۔ آخری دنوں میں سردار اختر مینگل بھی میدان میں آگئے تھے۔ محمود خان اچکزئی روز اول سے ہی خود مہم چلا رہے تھے۔ انھوں نے مختلف علاقوں میں اجتماعات سے خطاب کیا۔ البتہ جمعیت علمائے اسلام کی انتخابی مہم میں صرف ان کی صوبائی قیادت ہی شریک رہی۔ شاید سیکیورٹی کے باعث مولانا فضل الرحمان نہ آسکے۔ مگر صوبائی امیر مولانا فیض محمد بالخصوص صوبائی سیکریٹری جنرل ملک سکندر ایڈووکیٹ اور ان کی ٹیم نے الیکشن مہم میں اپنے قائد مولانافضل الرحمن کی کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دی اپنے امیدوارکوکامیاب کراکے ہی دم لیا۔ جے یو آئی ف کے وہ رہنما ء جو مولانا محمد خان شیرانی کے ہم خیال سمجھے جاتے ہیں اس مہم میں دکھائی نہیں دیئے ۔اس انتخابی معرکہ میں کامیابی کے بعد جمعیت علما ء اسلام کی قومی اسمبلی کی نشستیں سات ہوگئی ہیں ،جبکہ پشتو نخوا ملی عوامی پارٹی کی نشستوں کی تعدا گھٹ کر تین رہ گئی ہے۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں