نیادجال،نیاجنجال
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
گیارہ ستمبر2001کوقصرسفیدکے فرعون کی نخوت وتکبربھری آوازنے ساری دنیاکودوحصوں میں تقسیم کردیاجس میں اس نے اپنی فرعونی طاقت کے بل بوتے پرساری انسانیت کوللکارکرخوفزدہ کرتے ہوئے کہاتھاکہآج ہماری تہذیب اورطرزِزندگی پرحملہ ہوا ہے، یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یاہمارے مخالف۔ایک وہ جویہودی منصوبہ بندیورلڈآرڈرکی امریکی حکمت عملی کاحصہ بنیں گے اورجدیدتہذیب کادفاع اپنی زندگی کا نصب العین قراردیکرتن من دھن سے اس مشن میں حصہ لیں گے،انہیں اپنے مفادات کی حدتک محبوب رکھا جائے گاچاہے وہ تاریخ کی سب سے بدترین وحشت ناک بربریت کے مرتکب کیوں نہ ہوں اوردوسرے وہ جویا توجدیدتہذیب کامقابلہ کریں گے یافرعونی امریکی حکمت عملی کے بارے میں سکوت اختیارکریں گے،مخرالذکردونوں کو بالتدریج عبرت کانشان بنادیاجائے گالیکن کس کواس بات کاعلم تھاکہ غروروتکبرکے نشے میں مدہوش عالمی طاقت کہلانے والا ایسی دلدل میں پھنسنے جارہاہے جس میں اس سے قبل زمین پرخدائی کادعوی کرنے والوں کےآثارموجودہیں لیکن اب بھی یہ عبرت حاصل کرنے کوتیارنہیں۔
کاش تاریخ کوگیارہ ستمبر2001 کادن نہ دیکھناپڑتاجس کے نتیجے میں ملکوں کے ملک اجڑ گئے،شہرویران کردیئے گئے، بستیاں برباد ہو گئیں،لاتعدادگھروں کاملیامیٹ کردیاگیا، لاکھوں انسانوں کوتہزیبی،معاشی وسیاسی بالادستی کی خاطربارودسے نہ صرف بھسم کردیاگیابلکہ ان کے چیتھڑے تک اڑادیے گئے،جوان لڑکیوں کواجتماعی تشددوہوس کانشانہ بنادیا گیا ،اولادکے سروں سے والدین کاسایہ چھین لیا گیا۔ نوجوان نسل کوان کے ماں باپ کے سامنے چیتھڑوں میں تبدیل کردیاگیا،انسانیت کوعبرت کانشان بنادیاگیا،انسان توکیا حیوانات، نباتات اورجنگلات تک کوبھی جنگی جنون کی خاطرجلاکرراکھ کردیاگیا۔
کاش!گیارہ ستمبر2001کووہ81مسافرسفرمعطل یامؤخرکردیتے یابوسٹن کے لوگ انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی بجائے کسی دوسرے ہوائی اڈے کاانتخاب کرلیتے یااس کی ائیرپورٹ سے موت کی طرف فلائٹ لینے کی بجائے کسی دوسری پروازکومنتخب کرلیتے تو شاید 8 بجکر 48 منٹ پر81مسافروں سے بھراجہازجو”لاس اینجلز”کی طرف جارہاتھا،ورلڈٹریڈسنٹر سے جاکرنہ ٹکراتااورآج اس فرعون صفت ریاست امریکاکارعب ودبدبہ،وقاراوربین الاقوامی بالادستی بدستورقائم رہتی،اسے مسلسل دودہائیوں تک ذلت و رسوائی کاسامنانہ کرنا پڑتا اور آخرکار افغانستان کی خاک پرناک رگڑتاواپس لوٹنے کافیصلہ نہ کرناپڑتا۔لیکن یہ توہوناہی تھاکیونکہ آسمانی رزق من وسلویٰ کھانے والی قوم کی منصوبہ بندی نے امریکاکوآرام سے کب بیٹھنے دیااور اس بین الاقوامی تذلیل کے فوری بعدیوکرین میں نیامحاذ گرم کردیاجبکہ قصرسفید کے فرعون اوران کے حواریوں کوبخوبی علم ہے کہ بعض ادارے وقتاًفوقتاًامریکاکواپنی جھوٹی شان اوربالادستی کی خاطربیک وقت مختلف ممالک جنگوں میں دھکیل دینے کے بعداپنے مفادات کی تکمیل کیلئے کٹھ پتلی کی طرح اپنے اشاروں پر نچارہے ہیں،اورانہی اداروں کے بدترین فیصلوں کی تعمیل میں ٹرمپ کوفوجی،سیاسی اورمعاشی طور پرکمزورامریکاکومزیدتباہی سے بچانے کیلئے افغانستان سے اپنی افواج کوواپس لوٹنے کاحکم دیناپڑا،اوراس کے ساتھ ہی پاکستان سے اپنے افواج کی سلامتی کیلئے براستہ پاکستان واپسی کیلئے درخواست دینی پڑی ، جس پر عملدرآمدکیے بغیرامریکاکے پاس کوئی دوسراآپشن موجود نہیں تھا۔اس کے نتیجے میں 16دسمبرکوامریکااورافغان طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات ہوئے اورپھر افغانستان میں موجودامریکی سفارتخانے کی طرف سے امریکی افواج کی واپسی کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ یہ ایک طرف توافغان مجاہدین کی فتح کا اعلان تھاتودوسری طرف امریکاکی خودمختاری پرایسا شرمناک سوالیہ نشان بن گیاجوامریکاکی آئندہ نسلوں کوشرمندہ کرنے کیلئے کافی رہے گا۔
اس تمام صورتحال کاتجزیہ کرنے کیلئے یہ جاننااس لئے ضروری ہے کہ آئندہ ایسی المناک غلطیوں سے جہاں عبرت حاصل کی جائے وہاں ایسے جرمِ عظیم کااعادہ نہ کیاجاسکے۔کن مفادات اورمقاصدکے پیش نظرامریکانے افغانستان میں قدم رکھا؟کیاامریکا افغانستان میں اپنے مفادات کے حصول میں کامیاب ہوا؟افغان طالبان سے براہِ راست مذاکرات کی بھیک مانگنے اوررسوا کن فرارکے مناظرکوآپ کیا نام دیں گے؟یہاں تک کہ اپنے ہی جگری یاروں یعنی بھارت،اسرائیل اورکابل کی کٹھ پتلی حکومت کی حاضری کوبھی ضروری نہ سمجھا اور اگرامریکااپنے مفادات کے حصول میں اب تک ناکام رہاتوکس کے ایماپراپنی قومی غیرت کاجنازہ نکالنے اورسب سے پہلے امریکاکے نعرے کونظراندازکرنے پرمجبورہوا،اورافغانستان سے اس قدرعجلت میں کوچ میں اپنی عافیت کاراستہ کیوں اپنایا؟اس کاایک انتہائی سیدھا اور سادہ جواب ہے کہ امریکی معیشت خودتوبیساکھیوں پرکھڑی ہے اور امریکامزیدجنگوں میں جانی ومالی نقصان کے بوجھ تلے دیوالیہ کی حد تک پہنچ گیاتھا۔امریکی مالیاتی اداروں کے مطابق اس کے پاس جنگوں پرمزیدخرچ کرنے کیلئے اخراجات کافقدان امریکاکوجلدازجلداس مالیاتی طوفان سے بچنے کامطالبہ کررہاتھااور امریکی معیشت کی پشت پرکارفرمایہودی لابی بھی افغانستان میں مزیدسرمایہ اوروقت ضائع نہیں کرناچاہتی تھی کیونکہ دنیاپر خدائی نظام کی مانندایک عالمی نظام نافذکرنے کاخواب دیکھنے والے نظریاتی یہودیوں کوامریکا کے اکتالیسویں صدر سنیئربش (جارج ہربرٹ والکر بش)کا1992میں بنایاگیااٹھارہ سال کے جانی ومالی نقصانات کے باوجودبھی ناکام دکھائی دے رہا تھا، لہندا ٹرمپ جوبالواسطہ اوربلاواسطہ یہودی لابی کیلئے ایک مہرے کے طورپرامریکاکی صدارت پربراجمان تھا،نے صدارت سنبھالتے ہی فوج کوواپس بلانے کاارادہ ظاہرکیاتھا،جس پرعملدرآمدکیلئے افغانستان میں موجودامریکی سفارت خانے کی طرف سے اعلامیہ جاری کروانے کے بعدآئندہ ماہ وسال میں اسے عملی جامہ پہنانے کے امکانات پرواضح یقین دلایاگیا۔
میرے اس مؤقف سے یقینابعض حضرات کواختلاف ہوسکتاہے کہ فلسطین میں غیرقانونی سکونت اختیارکرنیوالے صرف65لاکھ یہودی عالمی طاقت امریکاکوکیسے مجبورکرسکتے ہیں کیونکہ امریکاتوجمہوریت کاعلمبردارہے اورٹرمپ اپنے تمامتراختیارات کواستعمال کرنے کے باوجودبھی جمہوری اقدارکوپامال نہیں کرسکتاتھااوراگروہ چاہے بھی توکابینہ میں ایسے افرادضرورپائے جاتے ہیں جوٹرمپ کے ایسے اقدامات کوہرگزقبول کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جس کیلئے وہ امریکی بالادستی اورمفادات پرزد پڑنے کاجوازپیش کریں گے۔ امریکی خودمختاری کس طرح یہودی لابی کے پنجے میں ہے اورکابینہ،سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں پھیلے یہودی اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے امریکی فیصلوں پرکیسے اور کس حدتک اثراندازہوتے ہیں،یہ حیرت انگیز انکشافات پرمبنی ایک دلچسپ تاریخ ہے جس کااندازہ آپ تاریخ کے چندواقعات سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔
جارج ایچ ڈبلیوبش(1989تا1993)جوامریکاکااکتالیسواں صدرتھا،اس کاخاندانی پیشہ تیل کاکاروبارتھا۔یہ لوگ امریکاکی سب سے بڑی ریاست ٹیکساس کے رہنے والے ہیں جسے امریکی تیل کادارلحکومت بھی کہاجاتاہے،چونکہ اس زمانے میں امریکاتیل کاسب سے بڑادرآمدکنندہ تھااوراس کی اپنی پیداواراستعمال کے بیس فیصدکے برابرتھی،باقی سعودی عرب،میکسیکواوروینزویلاسے درآمد کیا جاتا تھا، اس لئے ریاست ٹیکساس میں تیل کے کاروبارسے وابستگی کے باوجودجارج ڈبلیو بش نے دنیابھرکے تیل پرقبضہ جمانے کیلئے ایک منصوبہ بنایااور1992میں تیل کی تین بڑی کمپنیوں کے سربراہان کوواشنگٹن میں جمع کیا۔خلائی اسٹیشنوں سے لی گئی تصاویراسکرین پرچلائی گئیں اوراپنی چھڑی سے آذر بائیجان،قازقستان،ترکمانستان اورازبکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ان چارملکوں کے نیچے پانچ کھرب ڈالرکاتیل اورگیس پوشیدہ ہے جس پرمیں قبضہ کرناچاہتاہوں، کون میرا پارٹنربنناپسندکرے گا؟ تمام کمپنیوں کے سربراہان نے ہاتھ کھڑے کردیے۔مذاکرات ابھی حتمی شکل اختیارنہیں کرپائے تھے کہ سنیئربش کی حکومت ختم ہوگئی تاہم مذاکرات پھربھی جاری رہے۔اسی دوران اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موسادکوان تمام سرگرمیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں اوروہ بھی متحرک ہوگئی۔اب موسادکویہاں دو چیلنجزکاسامناتھا،ایک نئے منتخب ہونے امریکاکے42 ویں صدرکو حصارمیں لینا،کابینہ اوراردگردتمام سرکاری اورحساس اداروں تک رسائی حاصل کرنااوردوسرادنیابھرکے تیل کے ذخائرپرقبضہ کرنا۔آپ یہ جان کرچونک اٹھیں گے کہ تقریباایک سال سے بھی کم عرصے کے دوران یہودیوں نے بل کلنٹن کے گردایک مضبوط حصارقائم کردیامثلا کلنٹن کی وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ،نائب وزیرخارجہ سٹینلے ارتھ، وزیر دفاع ولیم کوہن،وزیر خزانہ لارسن سمرز،نائب وزیرخزانہ اسٹورن آنزن ٹیسٹ،اقوام متحدہ میں امریکی سفیررچرڈہال بروک،نیشنل سیکورٹی کا سربراہ سینڈل برگر،چیف آف سوشل سیکورٹی کینتھ ایفل،ٹریڈکانمائندہ چارلس برشینکی،ڈائریکٹرسی آئی اے ڈیوڈکوہل،آئی بی
ڈائریکٹرہال آئزنر،کیمونیکشن ڈائریکٹررابی امونیل راہم،نیشنل ہیلتھ کئیر ایڈوائزر ٹھامس ریپٹن،ڈائریکٹرمینجمنٹ آف بجٹ ایلیس ریولن،اکنامک پالیسی ایڈوائزرصتیلے پوسکن،یہاں تک خودکلنٹن اورہیلری کاذاتی سٹاف تک یہودی تھالہنداصدراورخاتون اول کی ذاتی اور کاروباری مصروفیات کاتماترشیڈول یہی لوگ بناتے تھے۔۔۔ (جاری ہے)