میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت میں رہنا ہے تو 'وندے ماترم' پڑھو

بھارت میں رہنا ہے تو 'وندے ماترم' پڑھو

ویب ڈیسک
هفته, ۲۲ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

بھارتی حکمرانوں نے اعلان کیا ہے کہ 25 کروڑ مسلمان اگر بھارت میں رہناچاہتے ہیںتو انہیں ”وندے ماترم”کا گیت گانا ہوگا ورنہ وہ اپنا بوریا بستر یہاں سے گول کریں اور بھارت چھوڑ دیں۔ حکمرانوں کی اس دھمکی سے بھارتی سیکولر ازم کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔ ہندو پیدا ہی مکارانہ ذہنیت کے ساتھ ہوتا ہے۔بھارت میں مسلمانوں پر روز بروز ظلم و ستم بڑھتا جا رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ خود کو زیادہ غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم و ستم توڑنے کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے انتہا پسندی کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے۔بھارت کی ریاست بہار میں وندے ماترم نہ پڑھنے پر مسلمان ٹیچر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔یہ واقعہ ریاست بہار کے ضلع کاٹیہر میں ایک پرائمری اسکول میں بھارتی یوم جمہوریہ پر پیش آیا جب افضل حسین نامی مسلمان ٹیچر نے وندے ماترم پڑھنے سے انکار کیا تو مقامی افراد نے اس پر تشدد کیا۔افضل حسین کا کہنا ہے کہ یہ ترانہ ہمارے مذہبی عقائد کے خلاف ہے، اسے لئے میں نے اسے پڑھنے سے انکار کیا۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا ہے کہ وندے ماترم ترانہ پڑھنا بھارتی شہریوں کے لیے لازمی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے سکول بچوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کے لئے مجبور کرنے پر مودی حکومت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس حکم نامے کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعلیمی اداروں کے خلاف بی جے پی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ریاستی دہشت گردی قرار دیا ہے۔بی جے پی کی حکومت نے مقبوضہ علاقے کے تمام اسکولوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کا حکم دیا ہے تاکہ کشمیری مسلمان طلبا کو اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو ترک کرنے پر مجبورکیا جائے۔حریت ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس اقدام کا مقصد علاقے کی مسلم شناخت کو مٹانا اور مسلم اکثریت والے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ہندوتوا نظریہ مسلط کرنا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے بی جے پی حکومت کے اس ظالمانہ رویے کی بھی شدید مذمت کی جس کے تحت اس کے رہنمائوں اور خواتین سمیت ہزاروں کشمیریوں کو گزشتہ سات سال سے غیر قانونی طورپر نظربند رکھا گیا ہے۔بیان میں اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی دیگر عالمی تنظیموں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فوری مداخلت کرکے فرقہ وارانہ بنیادوں پر مبنی اس فیصلے کو واپس لینے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالیں۔
1937ء میں ہونیوالے انتخابات کے بعد کانگریس نے کئی صوبوں میں اپنی حکومتیں قائم کیں تو انہیں اپنے انتہاپسندانہ نظریات مسلمانوں پر مسلط کرنے کا موقع میسر آگیا، اسی تناظر میں ایک حکمنامہ کے تحت تمام ا سکولوں میں وندے ماترم گانا لازمی قرار دے دیا جس کی قائداعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے شدید مزاحمت کی تھی۔ مسلمان اس فیصلہ کیخلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ وندے ماترم بت پرستی کا شاہکار اور مجموعی طور پر مسلمانوں کیخلاف اعلان جنگ ہے۔ ”وندے ماترم” ایک نفرت انگیز گیت ہے۔ اس کا پس منظر ایک ایسے ڈرامے سے جڑا ہوا ہے جس میں مرکزی نظریہ مسلمانوں کی مسجدوں کو برباد کرنا اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ یہ ان انتہا پسند ہندو تنظیموں کا نعرہ بھی رہاجو خانہ کعبہ پر قبضہ کر کے وہاں ”اوم” لکھنا چاہتے تھے۔ اس میں درگا دیوی کو ماں کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے۔
سہ روزہ نوائے وقت نے جولائی 1943میں دو مرتبہ وندے ماترم کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا اور ساتھ ہی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک نوٹ میں لکھا تھا کہ اصلاً یہ ترانہ بنگال کے ہندو باغیوں کا ترانہ ہے جو انہوں نے اسلام اور حکومتِ اسلامی کو مٹاکر ہندو راج قائم کرنے کے لئے جاری کیا تھا۔اس نام نہاد قومی ترانے کے متعلق یہ بات ذہن نشین کرنا نہایت ضروری ہے کہ یہ گیت قومی ترانے کے طور پر نہیں لکھا گیا اور نہ ہی اس کے متعصب مصنف کو یہ وہم و گمان بھی ہو سکتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ ہندوستان کا قومی ترانہ قرار پائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دو قومی نظریے نے اس ضمن میں کیا کردار ادا کیا جب ہندووں کی جانب سے وندے ماترم کو بطور قومی ترانہ اختیار کرنے پہ اصرار کیا گیا تومسلمانوں نے علامہ اقبال کی نظم
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
کو ہندوستان کا قومی ترانہ قرار دیا۔آج کے ہندوستان میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں اس نعرے کو اپنے اندر ”اکھنڈ بھارت یدھ” کی آگ تیز کرنے اور مسلمانوں کو وہاں سے نکالنے یا نیست و نابود کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ”وندے ماترم” مسلمانوں کے نعرہ تکبیر کا جواب ہے۔ اس کا مظاہرہ انہوں نے 1947ـ46 اور اس کے بعد بھارتی صوبہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے دوران بھی کیا۔آج بھی بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو وندے ماترم پڑھنے اور سننے پر مجبور کیا جا رہا ہے لیکن مسلمان اس ہندوانہ عقائد پر مشتمل گیت کو پڑھنے یا سننے کو تیار نہیں ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں