قانون اور فطری انصاف کے اصول
شیئر کریں
نتیجے ریگستان میں پیاسے اونٹ پر سوارپیاسے مسافر کی مانند، جو دور کہیں پانی نظر آنے پر اس جانب دوڑاتا ہے اور قریب جانے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ پانی سراب کے سوا کچھ نہیں تھا، میں صبح سے اپنی پیاسی گاڑی کو پیٹرول کی تلاش میں دوڑارہاتھا، پیٹرول پمپ نظر آنے پر گاڑی کو ایڑ لگاتا اور پمپ قریب پہنچنے پرپتا چلتا کہ پیڑول نہیں ہے اور وہ پمپ اب صرف نظر کا دھوکاہے اور کچھ نہیں ۔ اسی تگ ودو میں بالآخر ایک پیٹرول اسٹیشن نظر آہی گیا ، جس پر ایک لمبی قطارلگی ہوئی تھی۔ کچھ گاڑیاں تو قطار میں ہی بند ہوچکی تھیں جن کے سوار قطار آگے بڑھنے پر پسینے میں تربتر ہوئے اپنی اپنی گاڑیوں کو دھکالگا کر اسٹیشن تک پہنچانے کی کوشش کررہے تھے، میں نے ایس او پی پر عمل کرتے ہوئے فیس ماسک لگایا، گاڑی قطار میں کھڑی کی اور گاڑی سے باہر آکر گر دو پیش کا جائزہ لینے میں مصروف ہوگیا ، اس دوران ایک بڑی سی گاڑی جس میں پیچھے کچھ اسلحہ بردار افراد سوار تھے ، قطارکی پروا کیے بغیر آگے بڑھے اور پیٹرول اسٹیشن پر موجود گاڑی کے ساتھ رک کر اسٹیشن پر موجو دور کر کو گاڑی میں پیڑول ڈالنے کا حکم دیا، قطار میں لگے لوگوں نے اس دیدہ دلیری کے خلاف آواز بلند کرنا چاہی تو اسلحہ بردار افراد نے گاڑی کو اپنے حصار میں لے کر دفاعی پوزیشن سنبھال لی، حالات کی نزاکت کو دیکھ کر پیٹرول پمپ کے منیجرصاحب اپنے کمرے سے باہر آگئے اور اس بڑی سی گاڑی میں موجود صاحب کو قطار میں آنے کی درخواست کرنے لگے اسی دوران میں بھی اس گاڑی کے قریب ہوگیا تاکہ جان سکوں کہ گاڑی میں موجود یہ دیدہ دلیر اور جواں مرد کون ہے ؟منیجر کی درخواست کے جواب میں وہ صاحب جو شکل وصورت سے کسی سیاسی خاندان سے وابستہ جوان العمر معلوم ہوتے تھے، فلمی انداز میں گویا ہوئے ہم جہاں کھڑے ہوجاتے ہیں، لائن وہاں سے شروع ہوتی ہے، منیجر صاحب نے پھر عاجزانہ رویہ رکھتے ہوئے قطار کی درخواست کی اور قطار میں موجود کسی شخص نے مغلظات بکتے ہوئے کہا اس کو فورا ًقطار میں کھڑا کرو قانون سب کیلئے برابر ہے، اس حکومت میںوی آئی پی کلچرنہیں چلے گا، اس جملے کا سننا تھا کہ گاڑی والے صاحب آپے سے باہر ہوگئے اور گاڑی سے باہر تشریف لاتے ہوئے بلند آواز میں کہا ، او قانون پر عمل کرنے والے میرے سامنے آؤاور مجھے بتاؤ قطار میں لگ کر کوئی کام کرنا کس قانون میں ہے ؟وہ صاحب ایک دم علمی بحث کی دعوت عام دینے لگے اور قانون کا حوالہ طلب کرنے لگے تو کالے کوٹ کی ذمہ داری کے زیرِ اثر میں آگے بڑھا اور ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر عرض کیا۔جناب آپ گاڑی قطار میں لے جائیں قانون کا حوالہ تفصیل کے ساتھ یہ بندہ ٔنا چیز آپ کی خدمت میں پیش کرے گا ، جس پر اُن صاحب نے میرا ہاتھ جھٹک کر مجھے گھورتے ہوئے کہا تم کون ہوتے ہو مجھے قانون بتانے والے، میرے والد سیاست میں اوربھائی پولیس میں اعلیٰ عہدے پر ہیں، میں قانون کو اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ میں نے جواباً ان کے بھائی کی دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے طنزیہ انداز میں علامہ اقبال کی زبانی جواب دیا۔
سکندر !حیف تو اس کو جو اں مردی سمجھتا ہے
گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی ر سوائی ؟
ترا پیشہ ہے سفاکی مرا پیشہ ہے سفاکی
کہ ہم قزاق ہیں دونوں، تو میدانی میں دریائی
برائے مہربانی ان اشعار کو زیادہ سنجیدہ مت لیجیے گا کیونکہ میرا پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے اس کا سفاکی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میں قزاق ہوں ۔بہرحال ان اشعار نے یا دوستی کے حوالے نے جادو کا کام کیا اور وہ صاحب میرا موبائل نمبر لے کر اور نام پوچھ کر وہاں سے بنا پیٹرول بھروائے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد میرے انہی دوست کا فون آیا اور چائے کی دعوت کے ساتھ قانون قطار کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔ میرے کریدنے پر معلوم ہوا کہ کل رات کو ہی ان کے گھر قانون اور قطار کو لے کر بحث ہوئی اور چھوٹے بھائی نے آج عملی طورپر دعوت عام دے دی۔ اس سے یہ امر سامنے آیا کہ اس طرح کے بہت سے ضابطہ کار ہیں جو ایک عام شخص کو تذبذب کا شکار کرتے ہیں کہ کیا جن اصولوں پر ہم عمل کررہے ہیں، آیا وہ کوئی قانون ہیں بھی یا کچھ اور؟ یا پھر ہم بھیڑ چال کے طور پر ان پر بلا سوچے سمجھے بس عمل کیے جارہے ہیں۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی پرودگار نے بہت سے اصول و ضوابط طے کردیے اور ان اصولوں کو انسان کی جبلت میں ڈالا کر اس پر منصف کی صورت میں ضمیر کو مقرر کردیا۔ اب انسان اگر ایسے کسی اصول پر عمل کرتا ہے تو انسان کے اندر کا جج اس کی تعریف کرتا ہے اور اس کے عمل کو سراہتا ہے جس کے باعث انسان کو ذہنی سکون اور اطمینان قلب ملتا ہے اور اگر وہی انسان ان اصولوں کو توڑتا ہے تو وہی جج اس کو برابر ٹوکتا ہے اور اس عمل کی مذمت کرتا ہے جسے ہم عام الفاظ میں ضمیر کی ملامت کہتے ہیں۔ یہی اصول قانونی زبان میں فطرت کے اصول یا نصفت (EQUITY) کہلاتے ہیں۔
EQUITY رومن لفظ ACQUITAS سے ماخوذ ہے جس کے معانی برابری مساوات، نصفت، نصف تقسیم کے ہیں۔ جہاں عام قانون کے تحت انصاف فراہم نہ کیا جاسکے وہاں نصفت کے اصولوں کے تحت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ نصفت انسان کے فطری حقوق کی نگہبانی کرتا ہے۔ یہ اصول انسان کو دوسرے انسان کے لیے بھی ویسا سوچنے کا درس دیتے ہیں جیسا وہ اپنے لیے سوچتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں نصفت قدرتی انصاف کا نام ہے۔ جہاں قانون میں کسی امر سے متعلق واضح اور صریح حکم نہ ہو وہاں مفادات اور ذمہ داریوں کو برابر تقسیم کردیا جاتا ہے۔ فطری انصاف کے اصول قدرت کے طے شدہ اصولوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایسا قانونی نظام ہے جو عام قانون کے اصولوں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔قانون نصفت سے ہی کشید ہوا ہے اور فطری انصاف کے اصول قانون کی ہر لمحہ مدد کرتے رہتے ہیں۔
جدید قانون کے ماہرین کے مطابق نصفت کے اصول رومن قانون سے نکل کر ارتقاء کے مراحل طے کرتے ہوئے نہ صرف انگلینڈ بالکل پورے یورپ پر نافذ ہوگئے۔ ماہرین قانون و تاریخ فطری انصاف کے اصولوں کو تہذیبی و ثقافتی ربط اور ایک دوسرے سے متاثر ہونے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔آج کل مشہور زمانہ ترکش تاریخی ڈرامہ ارطغرل غازی کا ایک ڈائیلاگ بہت زبان زدعام و خاص ہے کہ یہ بات قبیلے کی روایات میں شامل ہے اور ہم روایات کے پاسدار ہیں ۔ یہ روایات کیا ہیں اور روایات کا نصفت سے کیا تعلق ہے؟اس کے متعلق تفصیلی گزارشات اگلی تحریر پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)