ؔؔ’’اوٹ پٹانگ‘‘
شیئر کریں
دوستو،آج صرف اور صرف اوٹ پٹانگ باتیں ہوں گی۔۔ کبھی کبھار انسان کو فضول قسم کی باتیں کرنی چاہیئے تاکہ آپ کے اندر جتنی فضول باتیں وہ باہر آسکیں اور آپ کا’’اندر‘‘ جراثیموں سے پاک رہ سکے۔ ویسے بھی فضول باتیں ہوں یا فضول قسم کے وائرس و بیکٹریا ، یہ جب تک انسان کے اندر رہتے ہیں کافی تکلیف دیتے ہیں، اسی لیے ڈاکٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے انسان کے اندر موجود فضول قسم کے وائرس اور بیکٹریاز کو مارا جائے، جس کی ویکسین بھی بنائی جاتی ہے، لیکن آج تک اوٹ پٹانگ باتوں کی کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوسکی، لیکن ہم نے ’’سوموٹو‘‘ یعنی ازخود جو تجربات کیے ہیں اس کے مطابق اگر انسان اپنی اوٹ پٹانگ شیئر کرنا شروع کردے تو وہ کئی مسائل سے بچ جاتا ہے۔۔ یعنی ایسے انسان کو کبھی گیس کی تکلیف نہیں ہوتی، ڈپریشن تنگ نہیں کرتا، معدے ٹھیک طرح سے کام کرتا ہے، شوگر لیول اور بلڈپریشر کبھی نقصان نہیں پہنچانا۔۔ یہ تو وہ موٹے موٹے مسائل تھے جس سے ہر انسان ہی بیزار رہتا ہے۔۔اس لیے آپ بھی کوشش کیا کریں، کبھی کبھار اوٹ پٹانگ اپنے احباب، دوستو وغیرہ سے شیئر کرلیا کریں۔۔
لاہور میں دوران جاب ایک روز اپنے ایک دوست کے ساتھ لاہور کے چڑیا گھر جانے کا اتفاق ہوا،بندر کے پنجرے میں دیکھا کہ وہ اپنی بندریا سے چمٹا،محبت کی اعلیٰ تفسیر بنا بیٹھا ہے۔۔شیر کے پنجرے کے پاس سے گزر ہوا تو معاملہ الٹ تھا، اپنی شیرنی سے منہ دوسری طرف کیے خاموش بیٹھا تھا۔ ہم نے دوست سے پوچھا ،یہ کیسی سرد مہری ہے؟۔۔ دوست نے کہا، اپنی خالی بوتل شیرنی کو مارو۔ہم پانی کی خالی بوتل پھینکی تو شیر اچھل کر درمیان میں آگیا، شیرنی کے دفاع میں اسکی دھاڑتی ہوئی آواز کسی تفسیر کی طالب نہ تھی۔ہم نے ایک اور بوتل بندریا کو بھی جا کر ماری، بندریا کو چھوڑ کر اپنی حفاظت کے لیے بندر اچھل کر کونے میں جا بیٹھا۔۔ دوست نے کہا، لوگ بھی کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں، ان کی ظاہری حالت پر نہ جانا، ان کے پیاروں پر بن پڑے تو اپنی جان لڑا دیا کرتے ہیں، مگر ان پر آنچ نہیں آنے دیتے۔۔آنچ پر یاد آیا، جب بھی ہم زلف ترشوانے جاتے ہیں یعنی ہیئر کٹنگ کے لیے،تو شیو بھی لازمی کرالیتے ہیں۔۔ ورنہ اکثر تو گھر ہی شیو کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔۔ کچھ نائی ایسے ہوتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب شیو مکمل کرلی، لیکن کچھ جگہ جگہ اسپیڈ بریکر چھوڑ جاتے ہیں۔۔پہلی ٹائپ کے نائیوں کے لیے کہاجاسکتا ہے کہ وہ آنچ نہیں دیتے اور دوسرے والے سانس نہیں آنے دیتے۔۔اسی پر یاد آیا۔۔انور مسعود اور منیر نیازی ایک مشاعرے سے واپسی پر خاموش بیٹھے تھے۔۔اچانک انورمسعود کہنے لگے۔۔منیر صاحب آپ کو پتہ ہے ،انسانی جسم میں دوایسی چیزیں ہیں جنہیں کاٹو تو خون نہیں بہتا، ایک ناخن اور دوسرے بال۔۔منیر نیازی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے۔’’ انور توں ہجے ساڈے پنڈ دا نائی نیئں ویکھیا ‘‘۔۔۔
قیافہ شناسی بھی اپنی جگہ ایک زبردست علم ہے، بعض لوگ اتنے پہنچے ہوئے ہوتے ہیںکہ چہرہ دیکھ کر ہی انسان کے مسائل کا اندازہ کرلیتے ہیں،ہم نے بھی زمانہ طالب علمی میں قیافہ شناسی کی چند کتابیں لاکر اپنے طور سے یہ علم حاصل کرنے کی کوشش کی۔۔لیکن بغیر استاد کبھی کوئی علم حاصل نہیں ہوتا، ہمیں قیافہ شناسی کا علم تو حاصل نہ ہوسکا لیکن چہرے دیکھ کر رائے قائم کرنے لگ گئے۔۔ آپ کو چند چہروں کے بارے میں آگہی فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ بعض چہرے ایسے ہوتے ہیں جیسے ابھی چھینک ماریں گے۔۔کچھ چہروں کو دیکھ کر آپ ٹائم کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔۔بعض چہرے دور سے ہی کھاتے پیتے نظر آتے ہیں۔۔بعض چہروں سے خباثت ٹپکتی رہتی ہے۔۔کچھ چہرے معصوم ہوتے ہیں۔۔ایسے چہرے بھی ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر مسکراہٹ آجاتی ہے۔۔کچھ شکلیں،ٹماٹر اور انڈے جیسی ہوتی ہیں۔۔اکثر خواتین کے چہرے دیکھ کر خالو کی یاد تازہ ہوجاتی ہیں۔بالکل خالو کی طرح ہلکی مونچھیں رکھی ہوتی ہیں۔۔۔کچھ چہروں پر لگی ناک سے تلی ہوئی مرچ یاد آجاتی ہے۔۔کچھ چہرے بتاتے ہیں کہ ابھی گنا چھیل کر آرہے ہیں۔۔کچھ کے چہرے بتاتے ہیں جوانی ٹھیک نہیں گزاری۔۔بعض چہروں پر ہمیشہ سوالات ہی نظرآتے ہیں۔۔کچھ ایسی شکلیں بھی ہوتی ہیں جیسے ابھی ابھی کوئی ناگوار چیز سونگھی ہے۔۔کچھ چہرے نظر ہی نہیں آتے، نقاب جو ہوتا ہے۔۔اور بعض چہرے تل کے لڈو کی طرح ہوتے ہیں۔۔لیکن ہمارا تجربہ کہتا ہے ہرانسان کے تین چہرے ہوتے ہیں۔۔ اصل وہی ہوتا ہے جواکیلے میں ہوتا ہے۔۔
اردوپر عبور رکھنے والے ماہرین لسانیات کا دعویٰ ہے کہ نقطے والے حروف کمزور اور ضعیف مانے جاتے ہیں اس کے مقابلے میں بغیر نقطے والے حروف کو طاقت ور اور قومی سمجھاجاتا ہے۔۔اب آپ غورکریں کہ۔۔سسرال، سسر، ساس، سالا، سالی میں سے کسی میں بھی کوئی نقطہ نہیں ہے کیوں کہ یہ تمام رشتے بہت مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں۔۔اسی لیے داماد پر بھی نقطہ نہیں ہے کیو نکہ یہ بھی شادی کے بعد بہت قوی تر ہوجاتے ہیں۔۔چنانچہ داماد اور ساس کو جدھرسے بھی پڑھیں گے، داماد،اور ساس ہی رہیں گے یعنی دونوں کا سیدھا تو سیدھاہے ہی، مگر دونوں کا الٹا بھی سیدھا ہی ہوتا ہے۔۔
ایک سر پھری بیوی جس نے خاوند کے ناک میں دم، اور اپنے اسلوب اور معاملات سے خاوند کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔اْس نے ایک دن خاوند کو صبح سویرے نیند ے جگایا اور نہایت احترام اور محبت سے کہا، جان من، میرے سرتاج، اْٹھیئے، صبح ہو گئی ہے۔ اور پھر شاندارتیار کیا ہواناشتہ خاوندکے بستر پر ہی لے آئی۔ خاوند جو پہلے ہی نیند سے جاگ کر بیوی کے رویہ پر حیرت زدہ بیٹھا تھا،ناشتہ دیکھ کر چپ نہ رہ سکا اور پوچھ لیا، آج کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ یہ اچانک کیسی تبدیلی آگئی ہے تم میں؟۔۔بیوی نے کہا، کل ہمسایوں ے گھر میں تبلیغ والی بیبیاں آئی ہوئی تھیں،کہہ رہی تھیں کہ جس مرد کی بیوی بدزبان اور بداخلاق ہوگی، اللہ اس مرد کی مغفرت فرمادے گا اور ہوسکتا ہے کہ اس مرد کی بیوی کی بداخلاقی اور بدتمیزی برداشت کرنے پر جنت میں بھی داخل کردے۔۔خاوند نے کہا، یہاں تک تو ٹھیک ہے، آگے؟۔۔ بیوی نے غراتے ہوئے کہا کہ، جندجیوی، جنت جانا ہے تو اپنے اعمال سے جا،’’ میسنا‘‘ بن کر میری وجہ سے کیوں جاتا ہے؟؟۔۔بیوی سب ایک ہی مزاج کی ہوتی ہیں۔۔رات کمرے کا لاک خراب ہوگیا،بیوی نے ٹارچ لی اور ٹھیک کرنے لگی۔پھر بیوی نے ٹارچ اپنے شوہر کو تھمائی اوردوبارہ لاک کھولنے میں مصروف ہوگئی، خاصی دیر گزرگئی لیکن لاک تھا کہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، بیوی کا پارہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا، پھر اس نے ٹارچ خود پکڑ لی اور شوہرسے کہا کہ تم ٹرائی کرو، شوہر نے کوشش کی توپہلی ہی کوشش میں فوری طور پر لاک کھل گیا۔۔بیوی شوہر پر برس پڑی کہنے لگی، اب پتہ چلا کہ ٹارچ کیسے پکڑتے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اپنی زندگی کابے شک بیڑہ غرق ہوا ہولیکن دوستوں کے مسائل سن کر ماہر نفسیات بننا پڑتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔