ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنارہے ہیں ؟کے جواب میں۔۔۔۔(٢)
شیئر کریں
بے نقاب /ایم آر ملک
سابق وزیر خزانہ نے لکھا کہ ہم تیزی سے اس حد کو چھو رہے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ لازم ہے کہ ہم اپنی غیر موثر حکمرانی پر تنقیدی نظر ڈالیں ،ایسا نہیں ہم اس حد کو چھو چکے ہیں اور اس وقت بند گلی کی ایک ایسی جنگ کا ہمیں سامنا ہے جس میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ،ساکھ، صلاحیت اور مینڈیٹ سے محروم حکومتیں ہمیشہ جبر اور تشدد سے اپنی رٹ بحال کرتی ہیں۔ پرامن احتجاج اور بنیادی حقوق کے معاملے میں وفاقی حکومت کی جانب سے مودی کی پیروی شرمناک ،ماورائے آئین طاقت کے استعمال اور آمرانہ طرزِ حکمرانی پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ،مہذب جمہوری معاشروں میں عوام کی رائے کو طاقت سے کچلنے کی کوششوں کی بجائے حکومتیں ان کی روشنی میں مسائل کے حل کی تدبیر کرتی ہیں،معاشرے کبھی بھی جبر اور تشدد کا بوجھ نہیں سہار پاتے ،معاشرے بکھر جاتے ہیں ،مظفر آباد میں گوجرہ سے اچانک نکلنے والے رینجرز کے دستوں نے سراپا احتجاج افراد پر فائرنگ کردی ہماری تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ ہم نے اپنوں کو مد مقابل کھڑا کر لیا ،اسے ہم مجرمانہ غفلت قرار دے سکتے ہیں ، دو بڑی پارٹیوں کو اندیشہ لاحق ہے کہ اگر سیاست پر اس کی گرفت کمزور پڑی تو اس کی اپنی معاشی مراعات ختم ہوجائیں گی اس کے نتیجے میں ایسا عدم استحکام پیدا ہوگا جس کیلئے ہمارے مفادات کیلئے خطرات بڑھ جائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ حالات ایسی گراوٹ کی راہ ہموار کر رہے ہیں جو بالآخران کے مفادات کو خطرناک حد تک ہدف پذیر بنا دیں گے۔
تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) طرز کے ایک اور تحقیقاتی کنسورشیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے ڈیٹا لیک کی شکل میں جاری کیں۔دبئی ان لاکڈ کی تفصیلات کے مطابق دنیا بھر کے جن چوٹی کے امیر افراد کی دبئی میں اربوں ڈالرز کی جائیدادیں موجود ہیں۔ان میں رہائشی جائیداد کی خرید و فروخت میں عالمی سطح پر پاکستان کا دوسرا نمبر ہے ، حکمران طبقات کی دولت کی ہوشربا داستانیں، اسکینڈلز کا لازمی حصہ بنتی جارہی ہیں، پہلے پانامہ، پھر پینڈورا پیپرزاوراب دبئی پراپرٹی لیکس، قوم جواب مانگتی ہے ۔ پاکستانی اشرافیہ نے بین الاقوامی سطح پر ملک کو کئی بار بدنام کیا ہے، پراپرٹی لیکس کے مطابق دبئی میں 22 ہزار پاکستانیوں کی جائیدادیں ہیں اور 23 ہزار جائیدادوں کی مالیت کا اندازہ 12.5 ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔جب حکمران خود ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنی آمدن کو محفوظ راستوں کے ذریعے آف شور کررہے ہیں تو ایسے میں غیر ملکی سرمایہ کار کیوں ان کی درخواست پر پاکستان میں اپنا پیسہ لگائیں گے؟یہ شکستہ و خستہ حال معاشی ڈھانچہ کیا ازل سے اقبال اور قائد کے پاکستان کی ترجیحات تھیں؟
رواں اور ماضی کی گورننس نے یہاں کے باسیوں کی امید کو جوڑنے کے بجائے ہمیشہ ریزہ ریزہ کرنے کا کام کیا اور جب امید ٹوٹتی ہے تو خواب بکھرتے ہیں ،نوجوانوں میں زیرک رہنمائوں کی سی اہلیت موجود ہے ہمیں ماضی کے ان چہروں سے چھٹکارے کی ضرورت ہے جو آج تک ایک کہنہ سسٹم کو سینے سے لگائے ہمارے خوابوں کی تعبیر میں رکاوٹ ہیں ،یہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ دور سے مطابقت نہیں رکھتے ، لوٹ کھسوٹ کے دلدادہ بھلا کیسے ایسی پارٹی کی تشکیل چاہیں گے جو عوامی امنگوں کی آبیاری کر رہی ہو جس کا منشور عملی تصویر کو حالات کے کینوس پر بکھیر رہا ہو ۔
آپ نے لکھا کہ تمام ممالک کے مسائل ہیں اور ہمارے بھی ہیں ،تمام ممالک کے مسائل اور ہمارے مسائل میں کوئی مطابقت نہیں کیونکہ مسائل زدہ ممالک میں کرپٹ قیادتوں کے اقتدار کے بعد کہیں نہ کہیں ہمیں کسی نہ کسی محب وطن قیادت کا دور اقتدار نظر آتا ہے لیکن ہم کرپٹ قیادتوں کے اقتدار کے تسلسل کی زد میں رہے ہیں اس دوران اگر کوئی محب وطن قیادت ہمیں میسر بھی آئی تو اس کو مافیاز کی ایسی مزاحمت سے گزرنا پڑا کہ اقتدار اور کچھ کر گزرنے تک اس کی رسائی ناممکن ہوگئی ،ایئر مارشل اصغر خان جسے عوامی تائید و حمایت حاصل تھی اس کو مزاحمت کا سامنا یوں کرنا پڑا کہ گیارہ برس تک اس کا رستہ روک دیا گیا ،جرم بے گناہی میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے انہیں ضمیر کے قیدی کا خطاب دیا ،یہ محلاتی سازشوں کا نتیجہ تھا کہ محمد خان جونیجو کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے ،یہی وجہ ہے کہ جب ہمیں محب وطن قیادت میسر نہ آسکی تو دہائیوں کے مسائل ہمارا مقدر ہو گئے ،وطن عزیز میں کرپشن کی کوئی ایسی قسم نہیں جس سے روزانہ ہمیں پالا نہ پڑتا ہو ،اس کرپشن میں ٹیکس چوری ،شاہانہ اخراجات ،بد انتظامی ،نااہلی ،اقربا پروری سب کچھ شمار ہے ،اس کرپشن کی وجہ سے 725ارب روزانہ کا نقصان ہورہا ہے جبکہ حقیقتاًیہ رقم اس سے چار گنا زیادہ ہے ،میرٹ کے نام پر مستحق کا استحصال ہورہا ہے ،یقینا ایسے میں ایک نئی پارٹی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جو میرٹ کی بالا دستی ،فوری انصاف ،اور مظلوم کی داد رسی کے وژن کا علم سب سے آگے لیکر چلے ، اس وقت دس میں سے چار نہیں 6پاکستانی مرد عورتیں اور بچے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیا پی ڈی ایم کے دور اقتدار کے تسلسل میں خود کشیوں کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا ؟ایک عرشی طبقہ کو فرشی طبقہ کے مسائل کا علم تک نہیں اور یہی طبقہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ ہمیں پیدائشی طور پر بنیادی مراعات حاصل ہیں ،غربت ،لاقانونیت اور مایوسی بغاوت کی ابتدائی سیڑھیا ں ہیں ،انتہائی غربت ایک ایسی بیماری کی طرح ہے جو جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے لوگوں کو نہ تو پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے اور نہ ہی پینے کے لئے صاف پانی دستیاب ہوتا ہے۔ اُن کے لئے کھانا پکانے کے لئے ایندھن حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اُن کے پاس سر چھپانے کے لئے کوئی مناسب جگہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اُن کو علاج معالجے اور تعلیم کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔