میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کا راز

کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کا راز

ویب ڈیسک
پیر, ۲۲ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

معصوم مرادآبادی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ابتدائی کھینچ تان کے بعد آخرکار سدا رمیا کو ہی ایک بار پھر موقع ملا ہے ۔انھوں نے دوسری بار کرناٹک میں کانگریس سرکار کی کمان سنبھالی لی۔صوبائی نگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار کو نائب وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے ۔ اگر ان دونوں کے بہترتال میل کے ساتھ سرکار اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے میں کامیاب ہوپائی تو 2024 کے عام چناؤ میں کانگریس بہتر نتائج حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوپائے گی۔ کانگریس کو224رکنی اسمبلی میں 135نشستیں حاصل ہوئی ہیں، جوپچھلے الیکشن کے مقابلے میں 55زیادہ ہیں، جبکہ بی جے پی اس سے آدھی سیٹیں بھیحاصل کرنیمیں کامیاب نہیں ہوپائی اوراسے 65 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی نے کرناٹک اسمبلی انتخابات جیتنے کے لیے اپنی ساری طاقت جھونک دی تھی۔ خود وزیراعظم نریندر مودی نے درجنوں ریلیاں اور روڈشو کئے ۔ وزیرداخلہ امت شاہ مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کا ڈھول گلے میں ڈالے گلی گلیگھوم رہے تھے ۔خیال تھاکہ انھوں نے پسماندہ مسلمانوں کاچار فیصد ریزرویشن ختم کرکے اتنا بھاری کام کیا ہے کہ ہندوؤں کے سارے ووٹ ان کی جھولی میں آگریں گے ۔بی جے پی لیڈروں نے کرناٹک میں مذہب کی بنیاد پر ووٹوں کی صف بندی کرنے اور ہندومسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بی جے پی نے اپنے پٹارے میں موجود ہندومسلم منافرت کے سبھی موضوعات کو یہاں بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ بجرنگ بلی کا سہارا بھی لیا گیا اور کانگریس پر ملک کی یکجہتی سے کھلواڑ کرنے جیسے الزامات بھی لگائے گئے ، لیکن 13مئی کی صبح جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو بی جے پی لیڈروں کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے اور وہ منہ چھپائے پھررہے تھے ، جبکہ کانگریسیوں کی بانچھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ سراٹھاکر چل رہے تھے ۔ ایسا بہت دنوں بعد ہوا کہ کانگریس کو کسی بڑے صوبے میں واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے ۔ کانگریس نے کرناٹک کے اقتدار میں دس سال بعد واپسی کی ہے ۔ پچھلے 34برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب وہ 42فیصد ووٹوں کے ساتھ135 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ اس سے قبل کانگریس نے 1989کے اسمبلی انتخات میں 178سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ 1999میں کانگریس کو 132اور 2013 میں 122 سیٹیں ملی تھیں۔ اندھ بھکتوں نے بی جے پی کی اس ناکامی کے لیے سیکولر ہندوؤں کو قصوروار قرار دیتے ہوئے انھیں ملک کے لیے مسلمانوں سے زیادہ خطرناک قرار دیا ہے ۔ درحقیقت کرناٹک میں کانگریس کی جیت سیکولرازم کی جیت ہے ۔ کیونکہ یہاں کانگریس نے بی جے پی کی جارحانہ فرقہ پرستی کے جال میں پھنسنے کی بجائے قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ اتحادکو ترجیح دی۔
راہل گاندھی نے کرناٹک کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے سب سے اہم بات یہ کہی ہے کہ نفرت کا بازار بند ہوا اور محبت کی دکان کھلی۔ان کا اشارہ بھی بی جے پی کی منافرانہ سیاست کی طرف تھا جس کو ریاست کے عوام نے پوری طرح مسترد کردیا ہے ۔اعدادوشمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ راہل گاندھی نے پچھلے سال اپنی ‘بھارت جوڑویاترا’ کے دوران کرناٹک کے جن اسمبلی حلقوں کا سفر کیا تھا، ان میں سے بیشتر سیٹیں کانگریس نے جیت لی ہیں۔ یعنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی قایم کرنے کے لیے نکالی گئی اس یاترا کا عوام الناس پر خاطر خواہ اثر ہوا ہے اوروہ منافرانہ سیاست کے چنگل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے کہ ملک میں نفرت کی سیاست کا خاتمہ ہوگیا ہے اور اب ہرطرف سیکولرازم کا بول بالا ہوگا۔کیونکہ بی جے پی نے جس منظم پیمانے پر سماج میں فرقہ وارانہ منافرت کا زہر گھولا ہے ، اس کی نفی کرنے کے لیے اس سے زیادہ بڑی اور منظم تحریک کی ضرورت ہے ۔ عوام کے ذہنوں کو اس حد تک مسموم کردیا گیا ہے کہ وہ ان موضوعات سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی قوت سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ آپ ماضی کے اوراق پلٹیں تو پائیں گے کہ سنگھ پریوار نے 90 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے ذریعہ سماج میں فرقہ واریت کا زہر گھول کر اقتدار پر مکمل قبضہ کرنے کی جو مہم شروع کی تھی، اس میں اسے بھرپور کامیابی ملی ہے ۔ ایودھیا تنازعہ پر ملک کواس حد تک بانٹ دیا گیا کہ لوگ اس کے آگے سوچنے کی قوت گنوا بیٹھے ۔ اسی زہریلی مہم کے نتیجے میں بی جے پی آج نہ صرف مرکزکے اقتدار پر بلاشرکت غیرے قابض ہے بلکہ ملک کے آدھے صوبوں میں اس کی حکومتیں ہیں۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اقتدارکے حصول کے بعد وہ ملک سے جمہوریت کے خاتمہ کی طرف بڑھ رہی ہے ۔پچھلے 9برس کے دوران ملک میں جمہوری اداروں کو جتنا نقصان پہنچایا گیا ہے ، اس سے پہلے کبھی نہیں پہنچایا گیا۔حکومت کی طرف سے اپوزیشن کا نام ونشان مٹانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔
بی جے پی کو قومی سیاست میں آج جو عروج حاصل ہوا ہے ، اس میں کانگریس پارٹی کی بے عملی اور نظریاتی بھٹکاؤ کا بھی بڑا رول ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ کانگریس پارٹی نے منافرانہ سیاست کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس سے قدم قدم پر سمجھوتے کئے ۔ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی تحریک کو ناکام کرنے اور فرقہ وارانہ عناصر سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی بجائے اس موضوع کو بی جے پی کے ہاتھوں سے چھیننے کی کوشش کی۔ اس چھینا جھپٹی کے دوران وہ اپنے سیکولر کردار کو فراموش کربیٹھی۔کانگریس نے سیکولرازم کے جس نظرئیے پر عمل پیرا ہوکر ملک کی تعمیر وتشکیل میں حصہ لیا تھا، وہ نظریہ اس کے لیے دویم درجہ کی چیز بن گیا اور وہ ‘نرم ہندتو’ کی تباہ کن پالیسی پر عمل پیرا ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شمالی ہندوستان میں اس کی سیاست گھٹنوں کے بل چلنے لگی۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں اس کا شیرازہ پوری طرح بکھر گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اترپردیش سے کانگریس کا کوئی ایک ممبر بھی نہیں ہے ۔فرقہ واریت سے لڑنے کی بجائے اس سے سمجھوتہ کرنے کی روش نے کانگریس کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔
ملک کی تقسیم کے وقت ہندوستان کو ایک سیکولر ملک کے طورپر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے جو خواب ہمارے قومی رہنماؤں نے دیکھے تھے ، اس کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی کہ مختلف مذاہب، زبانوں اور عقیدوں کے ماننے والے باشندوں کو یہاں سیکولرازم کی مالا میں پروکر ہی زندہ رکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن جیسے جیسے پرانے قائدین اس دنیا سے رخصت ہوتے چلے گئے ، کانگریس کی نظریاتی بنیاد کمزور ہوتی چلی
گئی اور وہ محض اقتدار کی اسیر ہوکر رہ گئی۔اگر کانگریس نے سیکولرازم کے رہنما اصول پر سختی سے عمل کیا ہوتا تو آج اس کی حالت اتنی دگرگوں نہیں ہوتی۔اطمینان بخش بات یہ ہے کہ دیرآید درست آید کے مصداق کانگریس نے سیکولرازم کے نظریہ سے رجوع کرلیا ہے ۔ اس کی شروعات گزشتہ سال سابق کانگریسی صدر راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے ہوئی تھی۔ اس یاترا کا بنیادی مقصد قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ اس دوران راہل گاندھی کو جو زبردست عوامی حمایت حاصل ہوئی اس نے یہ ثابت کیا کہ ملک کے عوام نفرت اور تشدد کی سیاست سے عاجز آچکے ہیں اور وہ امن چین کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کرناٹک کے چناؤ میں نفرت کا بازار بند کرکے محبت کی دکان کھولنے پر زور دیا گیا، جس کے خوش گوار نتائج سامنے آچکے ہیں۔ لیکن یہ ابھی شروعات ہے ۔ منافرانہ سیاست نے جس انداز میں فضا کو مسموم کررکھا ہے ، اس کے پیش نظر ایک بڑی اور مسلسل تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا سب سے بڑا میدان ملک کا سب سے بڑا صوبہ اترپردیش ہونا چاہئے جہاں اس وقت سیکولرازم اور جمہوریت دونوں ہی بستر مرگ پر ہیں۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں