میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قومی اسمبلی میں مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی

قومی اسمبلی میں مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی

جرات ڈیسک
پیر, ۲۲ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے 72 ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے۔لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے، اس سے سیاسی بحران حل ہوگا، عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر اپنا کردار ادا کریں گے۔72 پی ٹی آئی ارکانِ قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کانوٹیفکیشن کالعدم قراردئے جانے کے بعد اب حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات قومی اسمبلی میں ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔اس فیصلے کے بعد خیال اغلب ہے کہ پی ٹی کے ایم این ایز انکوائری میں پیش ہو کر استعفیٰ واپس لے لیں گے۔ الیکشن کمیشن کے ڈی نوٹیفکیشن کو ختم کئے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کو جوائن کر سکیں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون کے مطابق انکوائری مکمل کریں گے اور پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو اسمبلی میں واپس آکر اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیں گے۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ ملک کے دو ذمہ دار ادارے سپریم کورٹ اور پاک فوج کی طرف سے پہلے ہی یہ پیغام دیا جاچکاہے کہ سیاسی پارٹیاں آپس میں اتفاق رائے قائم کریں۔ اتفاق رائے کی ضرورت اس لئے ہے کہ ملک میں جاری سیاسی، سماجی اور معاشی عدم استحکام کا خاتمہ ہو۔ حالات پر امن اور ماحول کاروبار دوست ہو، یہاں سے غربت و افلاس اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو تاکہ ملک ترقی کے راستے پر چل پڑے۔عمران خان کے نزدیک ان مسائل کا حل الیکشن ہے مگر یہاں ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا الیکشن سے ان مسائل کا حل نکل آئے گا کیونکہ پاکستان کا مسئلہ اس وقت سیاست سے زیادہ معیشت ہے۔ اس سوال کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فریش مینڈیٹ کے بعد جو بھی سیاسی حکومت قائم ہو وہ ان مسائل کے حل کیلئے نئے راستے تلاش کر سکتی ہے، بہتر منصوبہ بندی کر سکتی ہے۔ قوموں پر اس سے بھی کڑے وقت آئے مگر پھر ان مشکلات کا حل رہنماؤں ہی نے ڈھونڈا۔ اگر رہنما اچھا ہو تو کشتی کو بھنور سے نکال کر کنارے لگا دیتا ہے اور اگر رہنما نا اہل اور نکما ہو تو وہ کشتی کو بھنور میں لہروں کے سپرد کر دیتا ہے، جیسا کہ ایک سال سے”ماہرین“ کر رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے ہماری معیشت کی کشتی منجدھار میں لہروں کے سپرد ہے اور موجودہ معاشی ٹیم کشتی کو کنارے کی طرف لے جانے کی بجائے گہرے پانیوں کی طرف لے جا رہی ہے۔ موجودہ معاشی ٹیم کے تمام دعوے دریا برد ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے سیاسی رہنماؤں نے اپنے حق میں بہت قانون سازیاں کیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ پاکستانی عوام یا پاکستان کیلئے کچھ نہیں کر سکے بلکہ ایک سال میں انہوں نے مقدموں، گرفتاریوں، نظر بندیوں اور پکڑ دھکڑ کے سوا کچھ نہ کیا۔اب حالیہ افسوس ناک واقعات کا رخ عمران خان یا پی ٹی آئی کی طرف موڑکر ایک نیا محاذ کھولنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ممکن ہے حکمرانوں نے یہ تہیہ کر رکھا ہو کہ ان واقعات کا ذمہ دار پی ٹی آئی کو ٹھہرانا ہے بظاہر یہ سوچ درست نہیں کیونکہ لوگوں کو اپنا غصہ اتارنے کے لئے کوئی ایک موقع چاہئے تھا وہ موقع انہیں عمران خان کی غیر قانونی حراست نے فراہم کر دیا۔غریب تو پہلے ہی زندگی کی ضروریات کو ترس رہا تھا، موجودہ حکمرانوں نے تو مڈل کلاس کو بھی غریب بنا کر رکھ دیا ہے۔ جس ملک میں کروڑوں کی تعداد میں بیروزگار ہوں وہاں ایک چنگاری ہی کی ضرورت تو ہوتی ہے۔گرفتاریاں اور مقدمے مسائل کا حل نہیں ہیں۔ اس سے نفرت پیدا ہو گی۔
ریاست اورجمہوریت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مکالمہ اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ ہر ملک اورمعاشرے میں سیاست کرنے اور اسے آگے بڑھانے کا اپنا انداز اور معیار ہوتا ہے۔ جس طرح آج تک پاکستان میں جمہوریت پنپ ہی نہیں سکی اس طرح یہاں سیاست میں بھی قدروں اور معیارکی کمی ہے۔پاکستان اس وقت سیاسی طور پر سخت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے جس کے منفی اثرات داخلی اور خارجی محاذ ہر جگہ محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ وفاداریاں بدلنا اور نظریات سے عاری سیاست کرنا ہمارے ہاں معیوب نہیں سمجھا جاتا ابن الوقتی اور خوشامد ہی ان کا وتیرہ رہا ہے۔اس وقت ہمارا ملک انتہائی خطرناک دوراہے پہ کھڑا ہے۔ سیاست دان سیاسی جنگ آئین کے اندر رہ کر جمہوری اور سیاسی طریقے سے لڑتے ہیں تاکہ عوامی جذبات کو گمراہ کن پراپیگنڈا کے ذریعے ابھار کر ملک کوخطرات سے دوچار کیا جاسکے۔ یہ رویہ نہ جمہوری کہلاتا ہے نہ ہی ملک دوستی پر مبنی، انارکی پیدا کرنا ملکی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ قومی اور آئینی اداروں کو متنازعہ بنا کر کوئی ملک اورمعاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ دن بدن بڑھتے ہنگاموں اور حالات کے بگڑنے نے ہماری معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ملک میں جاری سیاسی کشمکش کی وجہ سے مالی امداد کرنے سے گریز کر رہے ہیں جس کا نقصان پاکستان کو ہو رہا ہے، سیاسی پارٹیوں کو نہیں۔ خدانخواستہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے کی راہ پر ڈالنا کسی طور قابل معافی نہیں۔ خدارا مورچہ بندیاں بند کر دیں۔ ہوس کا دامن چھوڑ دیں۔ سیاست نہ چمکائیں، ریاست بچائیں۔سیاسی افراتفری، غیریقینی صورتحال، عدم استحکام اورانتشار کے عروج پر ہونے سے پریشان حال وہ عوام جو نہ سیاسی ایجنڈے رکھتی ے ن ہنگاموں کا سبب بنتی ہے، نہ ریلیاں نکالتی ہے، نہ دھرنے دیتی ہے وہ کہاں جائیں۔
اب وقت اگیا ہے کہ سیاسی قیادت کو باہمی مشاورت کے ذریعے ایک نئے ’میثاقِ جمہوریت‘ کے بارے غور کرنا چاہئے کیونکہ ملکی حالات صرف اسی صورت میں بہتر ہوسکتے ہیں جب سیاسی قائدین اپنے اختلافات کو بھلا کر ملکی اور عوامی مفادات کو مقدم جانتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں۔ ریاست کے طاقت ور مقتدر طبقے صرف اپنی ڈومین میں اختیار، طاقت کے گھمنڈ میں نہ رہیں، سب کی عزت و احترام آئین، قانون، سیاسی جمہوری اقدار کی پاسداری سے ہوتی ہے۔ اندھی طاقت اور اختیارات کا غیر حکیمانہ استعمال اجتماعی تباہی لاتا ہے۔ سیاسی قیادت، عدالتی محاذ کے ذمہ داران اور سول-ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنی روِش، اسلوب اور طریقہ کار پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ سیاسی قیادت ضِد، انا، ہٹ دھرمی ترک کرے اور 2023ء عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کرلیا جائے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی وزیراعظم کے اپنے رفقا اور اقتدار میں ان کے ساجھی دار بھی عالمی سیاسی کشمکش اور دشمن قوتوں کی عدم استحکام کی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے پیچیدہ جیو اسٹرٹیجک ماحول میں قومی اتحاد اور یگانگت پر زور دے چکے ہیں،اس کے واضح معنی یہی ہیں کہ خودوزیراعظم کے رفقا بھی محاذ آرائی اور انا کی سیاست کو پسند نہیں کرتے اور صورت حال میں مثبت تبدیلی کے خواہاں۔ملک اور بیرون ملک ہر فورم نے سیاسی اختلافات کو محاذ آرائی کے بجائے جمہوری اقدار کے مطابق مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی ضرورت پرزوردیاہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو سمجھ لینا چاہئے کہ ملکی مسائل کے حل اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے باہمی مشاورت سے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ فوری طور پر قومی سطح کا ڈائیلاگ شروع کیا جائے۔حکمران مہنگائی اور بیروز گاری پر قابو پانے کیلئے اقدامات کریں۔ سیاستدان باہمی کھینچا تانی کی بجائے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے چارٹر آف اکانومی تیار کریں اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود کے لئیے کام کریں۔ سیاسی قیادت نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو خدانخواستہ ملک ایسے بحران میں پھنس جائے گا جس سے نکلنے کیلئے راستہ نہیں ملے گا۔موجودہ صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی فریقین مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں اور ملک میں فوری طور پر قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ملکی مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں