میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یوگی ٹھاکر کے راج میں ٹھاکروں کی مہابھارت

یوگی ٹھاکر کے راج میں ٹھاکروں کی مہابھارت

ویب ڈیسک
منگل, ۲۲ اپریل ۲۰۲۵

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

 

اتر پردیش کے آگرہ میں رانا سانگا کا یوم پیدائش منانے کے لیے راجپوتوں کو متحد کرنے کی قوائد کے بیچ فتح پور میں دن دہاڑے ٹرپل مرڈر کا ایک ایسا واقعہ رونما ہوگیا جس سے پورے علاقے میں سنسنی پھیل گئی ۔ ہتھگام تھانہ حلقہ کے تہیرا پور چوراہے کے پاس ایک بائک سوار کسان رہنما پپو سنگھ (50)، اس کے بیٹے ابھئے سنگھ (22) اور چھوٹے بھائی رنکو سنگھ (40) کو ٹریکٹر سوار حملہ آوروں نے گولیوں سے بھون کر قتل کر دیا۔ اس خون خرابے میں مرنے اور مارنے والے دونوں یوگی کے ذات بھائی راجپوت تھے ۔ کہاں تو یوگی کا 20فیصد مسلمانوں کے خلاف 80 فیصد ہندووں کو متحد کرنے کا دعویٰ اور کہاں راجپوتوں کی یہ آپسی خانہ جنگی ۔ یہ کوئی دھرم یا ادھرم کے بیچ مہابھارت نہیں تھی کہ جہاں ایک ہی خاندان کے کورو اور پانڈو ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے تھے بلکہ سیدھے سیدھے پردھانی کی خاطر سیاسی چپقلش تھی ۔ اس لڑائی نے ثابت کردیا کہ زمانہ بدل گیا دواپر سے کل یگ آگیا مگر ٹھاکر نہیں بدلے ۔اس قتل و غارتگری کا الزام سابق مکھیا منو سنگھ اور اس کے ساتھیوں پر ہے ۔ مہلوک کسان رہنما پپو سنگھ کی والدہ رام دلاری سنگھ اب بھی گرام پردھان ہیں اس کے باوجود ان کے بیٹوں اور پوتے کے قتل سے پورے گھر میں ماتم پسر گیا ۔ سابق پردھان منو سنگھ اور پپو سنگھ کے درمیان پرانی خاندانی رنجش تھی۔ ان دونوں کے والد بھی آپس میں لڑ پڑتے تھے تھوڑی بہت کہا سنی بلکہ ہاتھا پائی بھی ہوجاتی تھی لیکن پھر دونوں دوست بن جاتے اور مل جل کر رہنے لگتے ۔ اب زمانہ بدل گیا ہے قوت برداشت کم ہوگئی ہے اور نفرت کے شعلے اس قدر تیز ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے پرائے کا فرق بھی نہیں کرپاتے ۔ اورنگ زیب پر سفاکی کا الزام رکھنے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ کس بے دردی سے یہ قتل کیا گیا۔ پپوسنگھ کے سینے ، پیٹ اور کمر کے نیچے 5 گولیاں پائی گئیں ۔ ان کے بدن سے 30 چھرے نکلے ۔ اسی طرح ان کے بیٹے بیٹے ابھئے سنگھ کو دو گولیاں ماری گئیں اور جسم سے 20چھرے برآمد ہوئے ۔ بھائی پل سے جان بچا کر بھاگا تو اس کی کنپٹی پر گولی ماری گئی ۔ بھیجہ اڑ گیا اور اندر سے دس چھرے نکلے ۔
سابق پردھان سریش سنگھ عرف منو بار بار ونود سنگھ عرف پپو سے باربار ہار پر ناراض تھا۔ اگلے انتخاب شکست کے ا ندیشے نے منو سنگھ کو درندہ بنا دیا اور اس نے پپو سنگھ کا قتل کردیا۔یہ قتل کسی کرائے قاتل سے نہیں کرایا گیا بلکہ منو سنگھ نے خود اپنے بیٹے کے ساتھ مل کرکیا ۔ اپنے دشمن جان لینے کے بعد بھی نفرت کی پیاس نہیں بجھی تو پپو سنگھ کی لاش کو ڈنڈوں سے اس قدر پیٹا گیا کہ لاٹھی خون سے لت پت ہوگئی ۔ گاوں والے جانتے تھے کہ کسی بھی وقت اس قسم کی واردات ہوسکتی ہے ۔پپو اور منو سنگھ کے بیچ مارپیٹ اور گالی گلوچ کی کئی ویڈیوز ذرائع ابلاغ میں گردش کررہی ہیں ۔ ایک ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس تھانے پر منو سنگھ کا رسوخ زیادہ اور داروغہ اس کا حامی تھا ۔ اس کے علاوہ پپو نے منو کے دوست رام پرشاد کے راشن کی دوکان کے خلاف قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں بند کروادی نیز منو کے قبضے سے سرکاری زمین بھی پیمائش کروا کر چھین لی۔
سوال یہ ہے کہ اس دوران یوگی کی پولیس کیا بھنگ پی کر سو رہی تھی ؟اس نے حفظ ماتقدم کے طور پر کوئی اقدام کیوں نہیں کیا ؟ اب گرفتاری کرکے کسی راجپوت کے گھر پر بلڈوزر چلانے سے کیا حاصل؟ اس قتل و غارتگری میں اگر کوئی مسلمان مجرم پیشہ قاتل ملوث ہوتا تو اس کے تار پاکستان اور آئی ایس آئی ایس سے جوڑ دیئے جاتے یا مقتول مسلمان ہوتا توقاتل کو ہندو ویر پوروش( ہندو مرد آہن ) کے خطاب سے نواز کر اس کی تعریف توصیف کی جاتی جیسا کہ عتیق احمد کے قاتلوں کا بینر کمبھ میلے میں لگایا گیا ۔ وطنِ عزیز میں تو گوڈسے کو بھی خرا جِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے ۔ مذکورہ واقعہ میں چونکہ دونوں جانب ٹھاکر ہیں اس لیے بھگوا بردار راجپوت وزیر اعلیٰ کی ساری ہیکڑی نکل گئی اور یوگی بابا کے آس پاس گہرا سناٹا چھا گیا۔ آج کل یوگی بابا کے ستارے ویسے ہی گردش میں ہیں اور ان پولیس نیک نامی کے بجائے بدنامی کا سبب بن رہی ہے ۔پچھلے دنوں نوئیڈا کے اندر ایک انکاونٹر کو عدالت نے جعلی قرار دے کرتھانہ انچارج سمیت 12 پولیس اہلکاروں پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا ۔ متھرا کے ترون گوتم کا الزام ہے کہ 4 ستمبر2022 کہ بغیر نمبر کے دوگاڑیاں ان کو اپنے گھر سے بیٹے سومیش کے نوئیڈا میں واقع کمرے میں لے گئے اور وہاں دونوں کو مارا پیٹا ۔ اتفاق سے یہ واردات سی سی ٹی وی میں قید ہوگئی۔ اس کے بعد انہیں جیور تھانے لے جایا گیا۔ اس دوران سومیش کے پیر میں گولی مار کر اسے انکاونٹر دکھا یا گیا اور اس کے پاس سے جھوٹی موٹر سائیکل اور پستول برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ۔ اس کے بعد سومیش کی رہائی کے لیے ایک لاکھ رشوت طلب کی گئی۔ یوگی ادیتیہ ناتھ صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ پولیس کا محکمہ ان کے تحت انکاونٹر کے نام پر وصولی کا کاروبار کرتا ہے اور وزیر اعلیٰ اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں لیکن اس کاروبار کی حقیقت اب کھل کر سامنے آگئی ہے ۔
اترپردیش میں اسی طرح کا واقعہ سال 2020 میں رونما ہوا تھا ۔ کانپور پولیس کے ایک مبینہ’انکاؤنٹر’ میں دو افراد کو ٹانگوں میں گولی مارنے کے تقریباً پانچ سال بعد ابھی حال میں مقامی عدالت نے پایا ہے کہ جو غیر قانونی ہتھیار پولیس نے ان سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا وہ دراصل پولیس مال خانے (شواہد کو رکھنے کی جگہ) سے نکالا گیا تھا۔ یہ ہتھیار 2007 کے ایک معاملے کا تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی ہتھیار کو 13 سال کے وقفے سے دو الگ الگ معاملوں میں ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔امسال یکم اپریل کو عدالت نے کانپور کے کندن سنگھ اور امت سنگھ کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ پولیس نے ان سے اسلحہ برآمد کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ امت کو پہلے ہی ضمانت مل چکی تھی، لیکن کندن 2020 سے جیل میں تھے ۔مذکورہ بالا معاملے میں پولیس کی ساری کہانی جھوٹی نکلی ۔ ایڈیشنل سیشن جج ونئے سنگھ نے اپنے حکمنامہ میں لکھا کہ جس طریقے سے 2007 کے ایک کیس سے منسلک ایک غیر قانونی پستول کو کندن اور امت نے کے پاس سے برآمد دکھایا گیا، اس نے پورے معاملے کو ‘مشکوک’ بنا دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے انہیں جھوٹا پھنسایا۔
عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں ملوث پولیس انسپکٹر اور پوری پولیس ٹیم کے خلاف ‘ تفصیلی اور اعلیٰ سطحی تفتیش’ ضروری ہے ۔جسٹس سنگھ نے کانپور پولیس کمشنر کو حکم دیا کہ وہ خود یا کسی اہل افسر کے ذریعے پورے معاملے کی تفصیلی تحقیقات کرائیں اور تین ماہ کے اندر رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ اگر تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس نے انکاؤنٹر کا جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے لیے مال خانے سے غیر قانونی طور پر اسلحہ نکالا تھا تو متعلقہ افسر اور ان کی ٹیم کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔اب دیکھنا یہ ہے تفتیش کے دوران پولیس انسپکٹر گیان سنگھ کی قیادت میں ایک پولیس ٹیم کا کیا حشر ہوتا ہے جس نے ایف آئی آر میں قومی انسانی حقوق کمیشن اور ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل کا حوالہ دیتے ہوئے امیت اور کندن کے خلاف سونے کی چین چوری اور چھیننے کی واردات، اقدام قتل اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے تین مقدمات درج کیے تھے ۔
عدالت میں اس واقعہ پر بحث کے دوران جوچونکانے والے حقائق سامنے آئے ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یوگی کی قیادت میں یوپی پولیس نہ صرف جرائم پیشہ گروہ بن چکاہے بلکہ سیاستدانوں کی مانند بے دھڑک جھوٹ بھی بولنے لگی ہے ۔ وہ پولیس تھانے سے اپنے آنے جانے کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔ عوامی گواہ جمع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی ۔ وہ اپنے اوپر گولی چلنے کا الزام تو لگاتی ہے مگر کوئی اہلکار زخمی نہیں ہوتا اور نہ گاڑی کو نقصان پہنچتا ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ ملزم نے انسپکٹر ورما کے پیٹھ میں گولی چلائی جبکہ وہ اگر گھیرا بندی میں ہے تو اسے سامنے ہونا چاہیے ۔یکطرفہ تماشا یہ ہے کہ پیٹھ کیے ہوئے انسپکٹر ملزمین کو پستول استعمال کرتے ہوئے دیکھنے کا دعویٰ بھی کردیتے ہیں ۔پولیس وہاں لگے سی سی ٹی وی فوٹیج کو پیش نہیں کرتی ۔برآمد شدہ پستول 2014کو ضبط ہوئی تھی اور اس کا ملزم رشبھ سریواستو کو 25 ستمبر 2018 کو مقامی عدالت سے بری ہوگیا تو اس اسلحہ کو تلف ہوجانا چاہیے تھا ۔ یہ سارا گھال میل بتاتا ہے کہ اترپردیش میں فی الحال اندھی نگری چوپٹ راج ہے اور اس کی براہِ راست ذمہ داری وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ پر آتی ہے ۔ اسی لیے پچھلی بار قومی انتخاب میں رام مندر کے باوجود بی جے پی کو جھٹکا لگا اور اور اب صوبائی انتخاب میں اس سے زیادہ چونکانے والے نتائج آسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاپ کا گھڑا بھر کر چھلکنے لگا ہے ۔ آخر عوام کے برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں