انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
عام انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے ۔ابتدائی مرحلے میں 21 صوبوں کی 102 سیٹوں پر تقریباً ساٹھ فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ الیکشن کے مراحل آئندہ 4/جون کو اس وقت مکمل ہوں گے جب اٹھارہویں لوک سبھا کے نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس بار جمہوریت کے اس جشن میں کوئی خاص جوش وخروش نظر نہیں آرہا ہے ، لیکن ایک حقیقت جو قدم قدم پر محسوس کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ اس جشن میں مسلمان کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ جبکہ وہ ملک کی آبادی کا ایک خاطر خواہ حصہ ہیں، لیکن چارسو پارکے مصنوعی ہنگامے میں ان کی موجودگی کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے ۔ ایسا کیوں ہوا ہے اوراس کا ذمہ دار کون ہے ، یہی دراصل آج ہمارے مضمون کا موضوع ہے ۔
انتخابی صورتحال کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایا وتی کے ایک بیان سے بات شروع کرتے ہیں، جو انھوں نے حال ہی میں مغربی اترپردیش میں انتخابی مہم کے دوران دیا ہے ۔ ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ بہوجن سماج پارٹی اترپردیش کی اکلوتی پارٹی ہے جس نے وہاں سب سے زیاد ہ مسلم امیدوارمیدان میں اتارے ہیں، جن کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے ۔مایا وتی نے مرادآباد، پیلی بھیت اور میرٹھ کے انتخابی جلسوں میں بی جے پی کا نام لیے بغیراس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے ہندوتو کی آڑ میں مسلمانوں کا استحصال کیا جارہا ہے اور ملک کو مذہب ا ورذات پات کے نام پر تقسیم کیا جارہا ہے ۔واضح رہے کہ پہلے مرحلہ میں 19/اپریل کو مغربی اترپردیش کے جن حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے ، ان میں بیشتر وہ حلقے تھے جہاں مسلم رائے دہندگان کی اکثریت ہے ۔ مایا وتی نے اس بات پر فخر کا اظہار کیاہے کہ انھوں نے آبادی کے تناسب سے امیدوار وں کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ دوسری پارٹیوں نے ایسا نہیں کیا۔ مایا وتی نے کہا کہ”جہاں ہندو زیادہ ہیں، وہاں ہم نے ہندو امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے اور جہاں مسلمان زیادہ ہیں وہاں مسلم امیدوار کو کھڑا کیا ہے ۔ لیکن سماجوادی پارٹی نے اس کے برخلاف کام کیا ہے ، جہاں مسلمان زیادہ ہیں وہاں اس نے ہندو کو ٹکٹ دیا ہے ۔ انھوں نے اس سلسلے میں خاص طورپر مرادآباد کا ذکر کیا جہاں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود سماجوادی پارٹی نے ہندو امیدوار میدان میں اتارا ہے اور اپنے موجودہ ایم پی ڈاکٹر ایس ٹی حسن کا ٹکٹ کاٹ دیا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اترپردیش کی 80 لوک سبھا سیٹوں میں مایا وتی نے سب سے زیادہ مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں، جبکہ اس معاملے میں سماجوادی پارٹی بہت پیچھے ہے اور اس نے 67 میں صرف چار مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے ۔مجموعی طورپر اترپردیش میں انڈیا اتحاد نے 80سیٹوں میں سے صرف چھ مسلم امیدوارمیدان میں اتارے ہیں، جبکہ اترپردیش میں مسلم آبادی کے تناسب سے 17مسلمانوں کو ٹکٹ ملنا چاہئے تھا۔ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور یہاں کی پچیس کروڑ آبادی میں مسلمانوں کا تناسب بیس فیصد ہے ۔
اب ہم دوبارہ مایا وتی کے بیان سے رجوع ہونا چاہیں گے ، جس میں انھوں نے بی جے پی پر ہندوتو کی آڑ میں مسلمانوں کے استحصال کا الزام عائد کیا ہے ۔ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہم مایا وتی کی مسلم سیاست پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ ان کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے بڑی تعداد میں مسلم امیدوار میدان میں اتارتی ہیں اور ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے مسلم حلقوں میں بھی بی جے پی کامیاب ہوجاتی ہے ۔لیکن اس مرتبہ انھوں نے پہلی بار ایک ایسا بیان دیا ہے جس میں حقیقت پسندی کا عنصر غالب ہے ۔ ہندوتو کی آڑ میں مسلمانوں کے سیاسی استحصال کی بات بڑی حدتک درست ہے ۔ درحقیقت بی جے پی نے اپنے فرقہ وارانہ پروپیگنڈے سے مسلمانوں کے لیے سیاسی زمین اس حد تک تنگ کردی ہے کہ وہ سیکولر پارٹیاں جنھیں کثیر تعداد میں مسلمانوں کا ووٹ ملتا رہا ہے ، وہ بھی اس بار مسلمانوں کانام لینے سے خوفزدہ ہیں اور انتخابی میدان میں مسلمانوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا برتاؤ کررہی ہیں۔انھیں یہ خوف ستارہاہے کہ کہیں مسلمانوں کا نام لینے سے ان پر منہ بھرائیکا الزام نہ لگ جائے اور وہ ہندوووٹ سے محروم نہ ہوجائیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی نے اپنی شاطرانہ چالوں سے قومی سیاست کو یرقان زدہ کردیا ہے ۔اس نے یہ تاثر قایم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے کہ”جو ہندوؤں کے مفاد کی بات کرے گا، وہی دیش پر راج کرے گا۔”یہی وجہ ہے کہ کانگریس جیسی سیکولر پارٹی اس وقت مسلمانوں کو چمٹے سے چھوتے ہوئے بھی ڈررہی ہے ۔ اسی لیے اس نے بھی مسلمانوں کو برائے نام ہی ٹکٹ دئیے ہیں۔ یہی حال بہار میں راشٹریہ جنتا دل کا بھی ہے جس نے صرف دومسلمان میدان میں اتارے ہیں۔ حدتو یہ ہے کہ مہاراشٹر جیسی ریاست جہاں مسلمانوں کی خاطر خواہ آبادی ہے اور جہاں کا وزیراعلیٰ بھی ایک مسلمان(عبدالرحمن انتولے ) رہ چکا ہے وہاں کی 48 لوک سبھا نشستوں میں مہاوکاس اگھاڑی اتحاد میں شامل کانگریس اور این سی پی نے بھی کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ہے ۔جبکہ2011کی مردم شماری کے مطابق مہاراشٹر کی گیارہ کروڑ آبادی میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد مسلمان ہیں۔یہاں ممبئی سمیت تقریباً چالیس اسمبلی حلقوں میں مسلمانوں کا اہم رول ہے ۔ ماضی میں مہاراشٹر سے کئی مسلمان لوک سبھا کے ممبرر ہ چکے ہیں، البتہ اورنگ آباد سے مجلس کے ٹکٹ پر امتیاز جلیل ایک بار پھرقسمت آزما رہے ہیں۔ بی جے پی نے اس بار کیرل سے ایک مسلم امیدوار کو میدان میں اتار کراپنے دامن پر لگے مسلم دشمنی کے داغ کو دھونے کی ناکام کوشش کی ہے ۔کیرل کی ملاپورم سیٹ جو ہمیشہ سے مسلم لیگ کے پاس رہی ہے ، وہاں بی جے پی نے اس بار ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنا امیدوار بنایا ہے ، لیکن وہاں کے مسلمانوں نے انھیں ‘غدار’ قرار دے کر ان سے دوری اختیار کرلی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ بی جے پی اور آرایس ایس کے لوگ بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔
اگر آپ سنجیدگی کے ساتھ ملک کے انتخابی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے جشن میں مسلمان اپنی نمائندگی کا ماتم کررہے ہیں۔بی جے پی کھل کر ہندوکارڈ کھیل رہی ہے ۔انتخابی میدان میں یوں تو ترقی کے ایجنڈے کا ڈھول پیٹا جارہا ہے ، لیکن مختلف انتخابی حلقوں میں ان زعفرانی جھنڈوں کو چمکانے کی کوشش کی جارہی ہے جوگزشتہ22/جنوری کو رام مندر کی پران پرتیشٹھا کے موقع پر لگائے گئے تھے ۔ یہ دراصل خود کو ہندوؤں کا سب سے بڑا خیرخواہ ثابت کرنے کی کوشش ہے تاکہ سارے ہندوووٹ بی جے پی
کی جھولی میں گریں۔ المیہ یہ ہے کہ بی جے پی کھلے عام فرقہ وارانہ ایجنڈے پر چلے تو کوئی بات نہیں، لیکن کوئی پارٹی اپنے انتخابی منشور میں اقلیتوں کے انصاف کرنے کی بات کرے تو وزیراعظم کو اس پرمسلم لیگ کی چھاپ نظر آئے ۔
بی جے پی کی نگاہ میں اقلیتوں اورخاص طورپر مسلمانوں کے ساتھ انصاف کی بات کرنا یا ان کی حدسے بڑھی پسماندگی دور کرنے کا تذکرہ کرنا سب سے بڑی منہ بھرائی ہے ۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہا آزادی کے بعد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو محض طفل تسلیوں پر زندہ رکھا ہے اور ان کی حدسے بڑھی ہوئی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا۔ لیکن جب سے قومی سیاست میں بی جے پی کا عروج ہوا ہے تب سے مسلمانوں کا نام لینا بھی جرم سمجھا جانے لگا ہے ۔اگر آپ ملک کے موجودہ انتخابی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آئے گا کہ اس میں مسلمان غائب ہیں۔نہ ان کے مسائل پر کوئی گفتگو ہورہی ہے اور نہ ہی ان سے کوئی یہ پوچھنے والا ہے کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔موجودہ انتخابات میں مسلمانوں کی گمشدگی کے پیش نظر یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اٹھارہویں لوک سبھا میں مسلم نمائندوں کی تعداد سب سے کم ہوگی اور یہی بی جے پی کا اصل ہدف بھی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔